صوفیہ
صدیقی
27 جولائی،2021
آج کل افغانستان کے تمام
پڑوسی ممالک ایک کشمش میں ہے جو کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کی غیر مشروط
انخلاء سے پیدا ہوئی ہے۔
ان تمام ممالک بشمول
پاکستان کو افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ خاص کر پاکستان جو کہ
افغانستان کے ساتھ ایک وسیع بارڈر شیئر کرتا ہے، جیسے ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔ یہ
ممکنہ خانہ جنگی آج کل پاکستان پالیسی بنانے والوں اور صحافیوں کے لیے ایک اہم
موضوع اور دلچسپ موضوع ہے۔
اسلام آباد کو جلد ہی ایک
نئی افغان پالیسی استحکام، معاشی ترقی اور دہشت گردوں کے لئے کسی بھی ٹھکانے سے
انکار ضروری ہوگا۔
پاکستان بھی طالبان کے
ذریعہ افغانستان پر فوجی قبضے کی واضح طور پر مخالفت کرتاہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے
کہ افغانستان میں ان کا کوئی پسندیدہ گروہ نہیں ہے۔ وہی بھارت اور افغانستان کی
موجودہ حکومت دعویدار ہے کہ پاکستان طالبان کی پشت پناہی کرتاآرہا ہے اور طالبان
اب بھی پاکستان کی مانتے ہیں۔
امریکہ اور افغانستان سب
بھی پاکستان کے افغانستان کے بیانیے سے عدم اعتمام کا اظہار کررہے ہیں۔ دوسری جانب
پاکستانی میڈیا میں افغان تنازعہ کی کوریج نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ او رمشکوک
کردیا ہے۔
موجودہ صورتحال پاکستانی
حکومت اپنی افغانستان کی پالیسی کے واضح ضمانت دیتی ہے کہ پاکستان افغانستان میں
”افغان لیڈافغان اون“(Afghan Lead Afghan Own) پالیسیوں کو
سراہتاہے اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں اپنا کوئی عمل نہیں چاہتا۔ پاکستان
کی افغانستان کی گزشتہ پالیسی کے کچھ اہم پہلو ہیں جو قابل ذکر ہیں ان کے نتائج
ہمارے سامنے ہیں۔
سب سے پہلے یہ ماننے کی
ضرورت ہے کہ اسلام آباد کی بیان کردہ افغان پالیسی میں ماضی کے بیانات کے مقابلے
میں بہتری نظر آتی ہے۔کیونکہ اب پاکستان افغانستان میں اپنے پسندیدہ گروہ ہونے کا
دعویٰ کرتاہے۔ لیکن شاید اب بھی زمینی حقائق ایک مختلف تصویر بناتے ہیں۔
افغان طالبان پر الزام ہے
کہ انہوں نے سرحد پار سے حملے کرنے، فنڈ اکٹھا کرنے،نوجوانوں کو اپنے فوجی کی
حیثیت سے بھرتی کرنے اور زخمی جنگجوؤں کے علاج کے لئے پاکستانی حدود کا استعمال
کیا ہے۔
لہٰذا سرکاری دعووں کی
تصدیق نہیں ہوپارہی اور دنیا یہ دیکھ رہی ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ گزشتہ پانچ
سات سال میں ہمیں پاکستان کی طالبان کو مدد پہلے کی نسبت کم دیکھائی دیتی ہے۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو
یہ ہے کہ پاکستان کا طالبان پر مکمل اثر و رسوخ نہیں رہا۔ اس کی وجوہات کچھ بھی
ہوں لیکن،دیگر علاقائی گروہوں اور ممالک کے برعکس،پاکستان کھلے الفاظ میں
افغانستان کے اندرونی امن و امان کی حمایت کررہا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے
بھی لگایا جاسکتاہے کہ ماضی میں پاکستان طالبان کو مذاکرات کے میز پر تو لے آیا
لیکن اب اسلام آباد بہتر طور پر طالبان کو افغانستان میں امن اور خانہ جنگی سے
نہیں روک پارہا۔ اس بات کی تصدیق وزیر اعظم عمران خان بھی کرچکے ہیں کہ اب طالبان
افغانستان میں مضبوط ہیں لہٰذا وہ پاکستان کی کیوں سنے گے؟
محض پاکستان کی نصیحتیں
طالبان کو بڑھتی ہوئی تشدد سے باز نہیں رکھ پائیں گی۔ طالبان نہ صرف طاقت کے بھوکے
ہیں بلکہ وہ کابل اپنے زیر تسلطکرنا چاہتے ہیں۔ او رانہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں
ہے کہ آنے والی افغان حکومت انہیں کیا مراعات پیش کرتی ہے۔
اس معاملے کا تیسرا پہلو
یہ بھی ہے کہ چاردہائیوں سے زیادہ،پاکستان،افغانستان میں ایک مداخلت پسند پالیسی
پر عمل پیرا رہا ہے جس میں ہندوستانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے او رکابل میں ایک
دوستانہ حکومت کو یقینی بنانے کی کوششیں بھی کی گئی ہے۔ اب ثابت ہوچکا ہے کہ
پالیسی بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے کیونکہ اس کے دو اسٹریجک اہداف احساس سے دور
ہیں۔ دوسری طرف نئی دہلی کے ساتھ کابل کے تعلقات 40سال پہلے مقابلے میں زیادہ
خوشگوار ہوئے ہیں۔
اور اس کے برعکس،پاکستان
اور افغانستان کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی دہائیوں تک افغان پناہ
گزینوں کی مہمان نواز ی بھی ہمارے کچھ کام نہیں آئی۔ مزید یہ کہ، طالبان کی حامی
افغان پالیسی نے امریکہ اور مغربی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچایا
او ر ہمارے لئے بین الاقوامی تنہائی کا سبب بنے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ہم
اندرونی دہشت گردی کا شکار ہوئے، جس کی وجہ سے ہمیں 000,65 سے زیادہ معصوم جانیں
اور افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی املاک کو نقصان پہنچا۔بلکہ 100ارب
ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔
ایک او راہم پہلو یہ ہے
کہ، پاکستان کو یہ بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ سیکیورٹی پر مبنی افغان پالیسی کے
تعاقب میں ہم نے اپنے جیو معاشی مفادات کو بری طرح سے مجروح کیا ہے۔ جس کی وجہ سے
ہم لینڈ لاک افغان سمیت وسط ایشیا کے ممالک سے اب تک تجارت میں اضافہ کر پائے۔ اس
کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وسائل سے مالا مال وسطی ایشیاء تک رسائی کے لئے
افغانستان بہترین تجارتی راستہ بن سکتا ہے۔
افغان پالیسی میں ہماری
بہت سی غلطیاں ہیں جیسے 1980 کی دہائی میں، ہم نے بائیں بازووالے افغان قوم پرستوں
کو الگ کرنے میں پیش پیش رہے اس کے بعد 1990 کی دہائی میں، ہم نے سیکولر اور قوم
پرست پشتونوں او ر تمام غیر پشتون گروہوں کو الگ کرنے کا ذمہ اٹھایا۔ نائن الیون
جی عالمی دہشت گردی کے بعد پاکستان کہیں نہ کہیں افغان معاشرے اور پاکستانی
پشتونوں کے ہر طبقے کو الگ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ جنہیں اسلام آباد کی ناقص افغان
پالیسی کے منفی نتیجہ کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔
ان تمام باتوں کا یہ
نتیجہ نکلا کہ آج، افغان طالبان سمیت سیاسی میدانوں میں موجود افغانی یہاں تک کہ
افغانستان کی وہ نسل جو پاکستان میں پڑھ لکھ کر جوان ہوئے، وہ بھی ہمیں شک کی نگاہ
سے دیکھتے ہیں اور ہماری پالیسیوں کو تسلط بخش سمجھتے ہیں۔
ایک نظریہ بھی ہے کہ ہم
افغانستان کو اپنے پانچویں صوبہ کی طرح سمجھتے ہے۔ اب موجودہ صورتحال پاکستان کو
ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ اپنی بے جا مداخلت کو ترک کر دے۔
ایک نئی شروعات کرے اور افغانوں او رپاکستانیوں کی نوجوان نسلوں کو ایک دوسرے کا
اعتماد حاصل کرنے دے جو اس سے قبل کبھی اچھے نہیں ہوئے۔
او رہمیں یہ بھی یاد
رکھنے کی ضرورت ہے ہم پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ اس لئے دونوں ممالک میں بہتر برادرانہ
تعلق افغانستان میں پائیدار امن کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور سابق فاٹا کے امن میں
بھی معاون ثابت ہوگا، اس بات سے قطع نظر کہ افغانستان میں طالبان حکومت کریں یا
کٹھ پتلیاں۔
27جولائی، 2021، بشکریہ: روز نامہ چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism