ڈاکٹر محمد شمیم اختر
قاسمی
21 اکتوبر،2022
سلطنت مغلیہ کے ـزوال
و انحطاط کے بعد انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں
لی تو اس کی زد اور اس کے جبر جورسے ملک کاکوئی حصہ او رانسانی زندگی کاکوئی شعبہ
محفوظ نہ رہ سکا۔ تعلیم، مذاہب ، ادب ، سیاست ، معاشرت او رمعیشت سب متاثر ہوئے۔
اس طرح اہل ہند بالخصوص مسلمان بے چینی و نامراد ی کی عالم میں زندگی بسر کرنے لگے
جس سے دل برداشتہ ہوکر باشندگان ہند نے متحد ہوکر برطانوی سامراج کے خلاف 1857ء
میں علم بغاوت بلند کردیا۔ شومی قسمت ناکامی و نامرادی ان کے حصے میں آئی۔ البتہ
اس ہزیمت نے ان کے ذہن وقلوب پرکاری ضرب لگا ئی او رانہیں مستحکم لائحہ عمل تیار
کرنے پر مجبور کردیا۔ بریں بنا ارباب حل وعقد او رعلماء ودانشوروں نے متفقہ فیصلہ
کیا کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا جو سب سے زیادہ مفید اور موثر
ہتھیار ہوسکتا ہے وہ علم کی اشاعت ہے اور جس کے ذریعے معاشرہ کو تعلیم یافتہ بنانا
ہے۔لہٰذا متعینہ ہدف کے تحت یہاں ایک طرف بڑی تعداد میں دینی و مذہبی مدارس ومکاتب
کی تجدید کاری کے ساتھ نئے مدارس کا قیام عمل میں آیا، وہیں سرسید احمد خاںؒ
(1898-1817)نے انگریزی زبان و ادب او رفلسفہ جدیدہ کی تعلیم وتدریس پر زور دیا ۔
جب غدر یعنی جنگ عظیم سانحہ پیش آیا، ان دنوں سرسید بجنور میں قیام پزیر اور
سرکاری ملازم تھے، اس جنگ میں وہ شریک تو نہیں تھے ،مگر اس کی ہولناکی کااثر اور
صدمہ ان کو بہت زیادہ ہوا۔
انگریزوں کی نظروں میں سب
سے زیادہ مبغوض طبقہ دین اور مسلمانوں کا تھا ، بالخصوص مسلک ولی اللہی کے ترجمان
اور تحریک دیوبند سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام ۔ سرسید احمد واحد آدمی تھے جو
برطانوی استعماریت کے غیض وغضب سے محفوظ او رحکومت وقت کے ساتھ ان کے مراسم اچھے
تھے۔ شدید غم و غصہ اور رنج والم کے باوجود انہوں نے فی الفور اپنی نفرت کا اظہار
مناسب نہیں سمجھا، بلکہ مصلحت پسندی سے کام لیا اور بالخصوص مسلمانوں سے اپیل کی
کہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں او رموجودہ حکومت سے نفرت کرنے کی بجائے اس میں اپنی
جگہ بنانے کی جدوجہد کریں، جس کے لئے انہیں عصری علوم اور انگریزی زبان و ادب پر
توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسی جذبے کے تحت سب سے پہلے مراد آباد کے
زمانہ قیام میں ایک مدرسہ عربی و فارسی کا قائم کیا، اس کے بعد غازی پور میں بھی
انہوں نے ایک علمی ادارہ کی داغ بیل ڈالی اور سائنٹفک سوسائٹی قائم کرکے مسلمانوں
کے اذہان وقلوب کی آبیاری شروع کردی۔ یہاں تک کہ 24 مئی1875 ء کو اپنے مقصد کے
حصول میں کامیاب ہوگئے اور مدرسۃ العلوم کی شکل میں علی گڑھ میں ایک ابتدائی علمی
ادارہ قائم کیا۔ 1877ء میں اسی ادارہ کو ترقی دے کر باقاعدہ کالج کی شکل میں تبدیل
کردیا گیا اور اس کانام محمڈن اینگلو اورینٹل کالج رکھا گیا۔ جو 1920 ء میں
یونیورسٹی کا درجہ پاکر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نام سے موسوم ہوئی۔ اپنے زمانہ
قیام سے ہی معیاری و اعلیٰ تعلیم او رحسن انتظام کی وجہ سے کالج کی شہرت دور دراز
تک پھیل گئی ، مخالفتوں کے باوجود لوگوں کی دلچسپی اس جانب بڑھنے لگی ۔ حکومت کے
بڑے بڑے آفیسر ز او رملازم بھی اس کے معاون او رمشیر کار بنے۔
اگر کسی قوم کو علم سے
محروم کردیا جائے، یا اس کے حصول کے طور طریقے یکسر بدل دیئے جائیں اور اس پر ایسی
نئی چیز مسلط کردی جائے جس کے مثبت و منفی اثرات سے وہ پوری طرح واقف نہیں ہے تو
اس سے نفرت یا بے زاری اپنی جگہ درست ہے۔ مذہب سے گہری وابستگی او رتہذیب و تمدن
میں ارتقا علم کے ذریعے ہی ہوتا ہے، جس کا ایک عام مزاج او ررجحان بہت پہلے سے
چلاآرہاتھا ۔ چہ جائے کہ وہ قدامت پسندی کامظہر ہی کیوں نہ ہو۔ ہندوستان کی سابقہ
چھ سو سال کی تاریخ میں انہوں نے اسی کامشاہدہ کیا تھا اور اسی کے وہ عادی تھے۔
برٹش عہد میں تہذیب ثقافت او رتعلیم کے سلسلے میں مسلمانوں کے تئیں جاپالیسی عمل
میں لائی گئی وہ یقینا نقصان دہ تھی، مگر فی الفور اس کا متبادل حل نکالنا بھی
ضروری تھا، جس کے پیامبر سر سید احمد خاں تھے۔ قدریں بدل رہی تھیں ، سیاسی بساط
میں الٹ پھیر ہورہا تھا ، ملک اور حالات کی جغرافیائی ہیئت تبدیل ہورہی تھی۔ اس
لئے سرسید نے بالخصوص مسلمانوں سے اپیل کہ مذہب کا دامن اپنے ہاتھ میں تھام کر
معاشی استحکام اور ملک میں اپنی سالمیت و صالحیت کی غرض سے علوم جدیدہ کے حصول پر
توجہ دی جائے۔
سرسید کے بارے میں
کہاجاتا ہے کہ وہ انگریزوں کے انعام واکرام سے بہت زیادہ متاثر تھے، اس لئے وہ
برطانوی حکومت کے طرف دار او را س کے مبلغ تھے۔ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ
انہیں مسلمانوں کی کمزوری او رجذباتی فیصلے سے پوری واقفیت تھی، اس لئے بالخصوص
مسلمانوں کے دلوں میں انگریزی تعلیم او ربرطانوی حکومت سے جو نفرت ہے اس کاکسی طرح
ازالہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ کام اس وقت او راتنی جلد ان کے لئے سہل بھی نہیں تھا،
کیوں کہ مسنری اسکولوں کے ذریعہ پورے ملک میں مغربی علوم کی اشاعت کی جو کوشش
ہورہی تھی اور عیسائی مبلغین گھوم گھوم کر اپنے مذہب کی تبلیغ کررہے تھے،اس سے بہت
سے سیدھے سادے اور کم پڑھے لکھے مسلمان متاثر ہورہے جس سے دین دار مسلمانوں کی
نفرت او ربے زاری بجا تھی۔ سرسید کی جدید تعلیمی افکار و نظریات کی جس نے بھی
تائید کی، یااس سے وابستہ ہوئے، ان میں سے بغض حضرات کی یہ رائے بھی تھی کہ سرسید
کے اندر آزاد خیالی تھی اور جسے مسلمانوں کا بڑا طبقہ فی الفور کسی بھی صورت میں
قبول کرنے کی تیار نہیں تھا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بعض اوقات سرسید کے قریبی
بلکہ ان کے دست راست چاہے وہ حالی ہوں یا شبلی، محسن الملک ہو یا وقار الملک، ڈپٹی
نذیر ہوں یا مولوی سمیع اللہ وغیرہ کو ایک نہ ایک دن سرسید کے خیالات او ران کی
پالیسی کے پیش نظر شدید ردوقدح بھی ہوئی ۔ ان تمام اختلافات او ربدگمانیوں کے
باوجود ان لوگوں نے سرسید کی تعلیمی جدوجہد کی کبھی نفی نہیں کی، بلکہ ان میں سے
ہر ایک کہیں نہ کہیں ان کے معاون بنے۔
سرسید احمد خاںؒ کے سپنے
میں دھڑکتا ہوا دردمند دل تھا۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں
کوعصری تعلیم او رجدید تحقیقات کے میدان میں بہت آگے دیکھنے کے متمنی تھے او رہر
نئی صبح ایک سنہرے خواب لے کر بیدارہوتے تھے۔ وہ اس بات کے بھی خواہش مند تھے کہ
دینی حمیت ،تہذیب و شرافت او رمعاشی استحکام کے ساتھ ان کی رائج حکومت میں بھی
خواطر خواہ نمائندگی ہونی چاہئے۔ کیونکہ ہندوستان کی دوسری قوموں نے پرانے طور
طریقوں سے بڑی حد تک کنارہ کشی اختیار کرلی تھی او روہ اپنے بچوں کو پاٹھ شالاؤں
میں پڑھانے کے بجائے گورنمنٹ کے جاری کردہ نظام تعلیم اور طریقہ تعلیم کو اپنا لیا
تھا ۔ اس طرح حکومتی سطح پر او رملکی امور میں ان کی رسائی بڑھتی جارہی تھی ساتھ
ہی مالی اعتبار سے بھی وہ مستحکم ہورہے تھے ۔ جب کہ مسلمانان ہند جدید علوم وفنون
اور انگریزی زبان وادب کے جائز و ناجائز میں الجھ کر اب تک اس سے کنارہ کشی اختیار
کئے ہوئے تھے۔
سرسید احمد خاںؒ کو اپنی
تعلیمی و اصلاحی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا
پڑا۔ مگر یہ چیزیں ان کے عزائم کو متزلزل نہ کرسکیں وہ سارے جاں گسل راستے کو
سرکرتے ہوئے بڑھتے چلے گئے۔ اگر وہ بروقت پر میدان کا رزار میں نہ اترتے تو پھر
یہاں کے مسلمانوں کی کیا حالت ہوتی ؟ انہوں نے جن ہنگامی حالات میں قوم و ملت کی
تعمیر و ترقی کے لئے جدوجہد کی وہ یقینا نالائق تحسین ہے۔
جدید تعلیم کے میدان میں
سرسید آگے نہ بڑھتے تو ہندوستان میں مسلمانوں کا حالت کیا ہوتی۔اس وقت کی کوئی
ایسی شخصیت بھی نہیں تھی جو سرسید جیسا عالی دماغ رکھتا ہو جو قائدانہ رول بھی ادا
کرسکے۔نتیجہ یہی ہوتا کہ یا تو یہ کام مسلمانوں کے لئے ہوتا ہی نہیں او رہوتا بھی
کافی تاخیر سے او راس پر دیگر قوم کی اجارہ داری ہوتی۔سرسید نے اسی غرض کے تحت
مدرسۃ العلوم کو قائم کیا تھا کہ ایک طرف یہاں کے طلبہ معاصر زمانہ علوم سے خاطر
خواہ مستفید ہوسکیں او رملک میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہو۔ اسی کے ساتھ سرسید نے
یہ خواب بھی سجایا تھا کہ یہاں کے اساتذہ مثالی ہوں ۔ان کے اندر قوم سے ہمدردی ہو
، وہ دولت کے بجائے خدمت خلق کو زیادہ ضروری قرار دیں او رملی و ملکی مسائل میں ان
کی ایک امتیازی پہچان ہو ، ساتھ ہی یہاں کے اساتذہ ہر اس اعتراض او ریلغار کا
مقابلہ کریں جو اسلام پر کیا جاتاہے اور اس کامثبت اور ٹھوس جواب دے سکیں او ریہاں
سے ایسے افراد پیدا ہوں جو قابل ذکر علمی روایات قائم کریں گے۔
21 اکتوبر،2022 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism