سید امجد حسین، نیو ایج اسلام
20 فروری 2025
ذیلی سرخی- خدائی خدمتگار تحریک، جس کے قائد باچا خان تھے، برطانوی سامراج کے خلاف ایک طاقتور لیکن پرامن مزاحمت تھی۔ اس کی بنیاد عدم تشدد پر تھی، جس نے تعلیم اور اصلاحات کے ذریعے پشتونوں کو بااختیار بنایا۔ اگرچہ اس کا سر وحشیانہ انداز میں کچل دیا گیا، لیکن اس کی میراث آج بھی سماجی انصاف کی تحریکوں کو قوت بخشتی ہے۔
اہم نکات
1. باچا خان نے خدائی خدمتگار کی بنیاد رکھی تاکہ پشتون معاشرے کو تعلیم، سماجی اصلاح، اور برطانوی سامراج کے خلاف عدم تشدد کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکے۔
2. اسلامی تعلیمات اور گاندھی کے فلسفے سے متاثر ہو کر، تحریک نے پرامن مزاحمت کا راستہ اختیار کیا، اور اس خیال کو نکار دیا کہ بہادری کا مظاہرہ کرنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔
3. خدائی خدمتگار نے قصہ خوانی بازار قتل عام جیسے وحشیانہ واقعے کے باوجود، انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملایا، اور تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
4. برطانوی اور بعد میں پاکستان کی حکومت نے تحریک کو نشانہ بنایا، اس کے رہنماؤں کو قید کیا اور اس تنظیم کو ختم کیا۔
5. اس تحریک کے خدمت اور عدم تشدد پر مبنی نظریات، آج بھی انصاف اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
--------
تعارف
خدائی خدمتگار تحریک، جو خان عبدالغفار خان کی قیادت میں چلائی گئی، استعماری تسلط کے تناظر میں عدم تشدد کی انقلابی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 20ویں صدی کے اوائل میں برطانوی ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے (NWFP) میں ابھرنے والی اس تحریک نے، نہ صرف برطانوی سامراج کو ناکو چنے چبوائے، بلکہ اس کا مقصد پشتون معاشرے کو عدم تشدد کے ذریعے سدھارنا اور بہتر بنانا بھی تھا۔ اس مضمون میں خدائی خدمتگار تحریک کی ابتدا، ترقی، رکاوٹوں اور اس کی دیرپا میراث کا جائزہ لیا گیا ہے۔
سماجی و سیاسی تناظر
1900 کی دہائی کے اوائل میں، شمال مغربی سرحدی صوبے (NWFP) کے پشتون علاقے، قبائلی جنگ، ناخواندگی اور غربت سے دوچار تھے۔ برطانوی سامراج کی پالیسیوں نے ان حالات کو مزید بدتر بنا دیا، جس کے نتیجے میں پشتون عوام میں شدید مایوسی پھیل گئی۔ اس پس منظر میں، خان عبدالغفار خان نے، جنہیں محبت سے "باچا خان" کہا جاتا ہے، ایک ایسی تحریک کا تصور پیش کیا جو تعلیم، سماجی تبدیلی اور عدم تشدد کے ذریعے، ان سماجی برائیوں کا خاتمہ کر سکے۔
خدائی خدمتگار کی تشکیل
باچا خان کے سفر کا آغاز 1921 میں انجمن اصلاح الافغان (سوسائٹی فار دی ریفارمیشن آف افغانز) کے قیام سے ہوا، جس کا مقصد سماجی اصلاحات اور تعلیم پر توجہ دینا تھا۔ مزید رسمی تنظیم کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے، انہوں نے 1929 میں خدائی خدمتگار کی بنیاد رکھی۔ یہ تحریک بے لوث خدمت، عاجزی اور عدم تشدد کی قدروں پر مبنی تھی۔ اس کے ممبران نے ایک منفرد انداز میں سرخ یونیفارم پہننا اختیار کیا، جس کی وجہ سے وہ "سرخ پوش" کے عرفی نام سے جانے گئے، جو کہ ایک علامت تھی تشدد کو ترک کرنے، انسانیت کی خدمت کرنے اور اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کے عہد و پیمان کی۔
عدم تشدد اور روحانی بنیاد
اسلامی اصولوں اور مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے نظریات سے متاثر، خدائی خدمتگار تحریک کا سارا زور اس بات پر تھا کہ حقیقی بہادری پرامن مزاحمت کی صورت میں ہے۔ باچا خان کا ماننا تھا کہ اسلام امن کو فروغ دیتا ہے، اور عدم تشدد ظلم و ناانصافی کے خلاف ایک موثر ہتھیار ہے۔ اس مذہبی قدر نے روایتی طور پر مارشل کے عادی پشتونوں کو عدم تشدد اپنانے پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تنظیمی ڈھانچہ
تحریک کی ترتیب و تنظیم کافی احتیاط کے ساتھ انجام دی گئی تھی، اور یہ بالکل منظم و منضبط ایک غیر متشدد فوج کی مانند تھی۔ اس کے افراد کو زبردست انداز میں نظم و ضبط اور سماجی فلاح و بہبود کے کاموں کی تربیت دی گئی تھی، اور یہ عدم تشدد کی تعلیمات پر پوری پابندی کے ساتھ کاربند تھے۔ یہ تنظیم مقامی اکائیوں، علاقائی کونسلوں اور ایک مرکزی ادارے پر مشتمل تھی، تاکہ پورے صوبہ سرحد میں ہم آہنگی کے ساتھ کام کو انجام دیا جا سکے۔ اتحاد اور وابستگی کو فروغ دینے کے لیے میٹنگوں، ورکشاپوں اور مطالعاتی نشستوں کا باقاعدگی سے انعقاد کیا جاتا تھا۔
انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ اتحاد
خدائی خدمتگار کے مقاصد بڑے پیمانے پر ہندوستان کی جنگ آزادی سے ہم آہنگ تھے۔ 1931 میں، اپنے خدشات کے اظہار اور اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے، ایک بڑے پلیٹ فارم کی تلاش میں، تحریک نے انڈین نیشنل کانگریس (INC) میں شمولیت اختیار کی۔ اس صف بندی نے عدم تعاون کی مہمات کو ہوا دی اور خود مختاری کے مطالبے نے زور پکڑا۔
عدم تعاون اور جبرو تشدد کی داستان
اس تحریک نے عدم تعاون کی تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، برطانوی پالیسی کے خلاف احتجاج، بائیکاٹ اور مظاہروں کی قیادت کی۔ 23 اپریل 1930 کا قصہ خوانی بازار کا قتل عام، جس میں برطانوی فوجیوں نے پشاور میں نہتے مظاہرین پر گولیاں چلائیں اور متعدد افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، سب سے خوفناک مظالم میں سے ایک تھا۔ اس طرح کے وحشیانہ جبر کے باوجود، خدائی خدمتگار کے افراد غیر متزلزل عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدم تشدد پر قائم رہے۔
برطانوی ردعمل
خدائی خدمتگار کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے پریشان ہو کر، برطانوی سامراج نے تحریک کا سر کچلنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے۔ ان میں سے کچھ اقدامات میں بڑے پیمانے پر حراست، تشدد، جائیدادوں پر قبضہ، اور پروپیگنڈے کے ذریعے پھوٹ ڈالنے کی مہمات شامل ہیں۔ انگریزوں نے اس تحریک کو فتنہ انگیز قرار دیا، جس کا مقصد اسے عوام میں بدنام کرنا تھا۔
تقسیم کے بعد کا منظرنامہ
1947 میں تقسیم ہند سے خدائی خدمتگار کے لیے بھی بڑے چیلنجز کھڑے ہو گئے۔ نو مولود پاکستان نے تحریک کو مشکوک نظروں سے دیکھا، جس کی ایک بڑی وجہ آئی این سی کے لیے ماضی میں اس کی حمایت اور تقسیم کے خلاف اس کی مزاحمت تھی۔ حکومت پاکستان نے اس تحریک کو کالعدم قرار دیا، اس کی قائدین کو قید کر لیا گیا، اور اس تنظیم کو توڑنے کے لیے سخت جبر و تشدد کا استعمال کیا گیا۔ باچا خان نے کئی سال جیل میں گزارے اور تحریک کا سر زبردستی کچل دیا گیا۔
پائیدار اصول
خدائی خدمتگار کے اصول — عدم تشدد، خدمت، اور سماجی اصلاح — سے پوری دنیا کے لوگوں کو قوت ارادی ملتی ہے۔ اس تحریک نے ثابت کیا کہ عدم تشدد جبر کے خلاف ایک طاقتور ہتھیار ہے، یہاں تک کہ ان معاشروں میں بھی جہاں مضبوط مارشل روایات پائی جاتی ہیں۔
عصر حاضر میں اس کی اہمیت و افادیت
پچھلے کچھ سالوں میں، خدائی خدمتگار کی اخلاقی قدروں کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سماجی ناانصافی جیسے جدید مسائل سے نمٹنے کے لیے، ہندوستان اور پاکستان کی تنظیمیں اور افراد باچا خان کے فلسفے سے قوت ارادی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کوششوں سے تحریک کے بنیادی اصولوں کی عالمگیر اہمیت و افادیت اجاگر ہوتی ہے۔
نتیجہ
خدائی خدمتگار تحریک، ظالم و جابر حکومتوں کے دانت کھٹے کرنے، اور بالآخر انہیں خاک میں ملانے میں، عدم تشدد کی طاقت اور سماجی اصلاحات کے عزم و حوصلے کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ پشتون علاقے کے سماجی و سیاسی منظر نامے پر، باچا خان کی بصیرت انگیز قیادت نے، ہندوستان کی جنگ آزادی کے حوالے سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ تنازعات اور ناانصافیوں سے جوجھتے ان جدید معاشروں میں بھی، خدائی خدمتگار کی میراث امید کی ایک کرن ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پرامن ذرائع سے ایک پائیدار تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
حوالہ جات
· لیسٹر کرٹز (2009) "دی خدائی خدمتگار مومنٹ: بادشاہ خان اینڈ دی نارتھ ویسٹ فرنٹیئر ان برٹش انڈیا (1933-1937)" انٹر نیشنل سینٹر آن نان وائلنٹ کانفلکٹ پر شائع
· ایکناتھ ایسوارن (1999) "Eknath Easwaran (1999) "Nonviolent Soldier of Islam: Badshah Khan, A Man to Match His Mountains" شائع کردہ نیلگیری پریس
· راجموہن گاندھی (2017) "Ghaffar Khan: Nonviolent Badshah of the Pakhtuns" شائع کردہ پینگوئن یو کے
· مکولیکا بنرجی (2000) "The Pathan Unarmed: Opposition & Memory in the North West Frontier" شائع کردہ جیمز کری
-------
English Article: The Silent Revolution: How Khudai Khidmatgar Challenged British Imperialism Without Weapons
URL: https://newageislam.com/urdu-section/silent-revolution-khudai-khidmatgar-challenged-british/d/134898
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism