New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 02:51 AM

Urdu Section ( 10 Nov 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

‘Tested Formula’ was Used in Trilokpuri Riots تر لوک پوری فسادات میں ‘ آزمودہ نسخہ’ ہی استعمال کیا گیا تھا

 

سدھارتھ  وردھ راجن

9 نومبر، 2014

1984 میں جب ملک کی راجدھانی میں قتل و غارتگری کا جنون اپنے عروج پر تھا، اس وقت مشرقی دہلی میں واقع  مزدور پیشہ افراد کی بستی ترلوک پوری میں 300 سے زائد سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ جمنا کے اُس پار واقع اس بستی کو سب سے پہلے آزادی اور ملک کے تقسیم کے بعدپاکستانی حصے سےنقل مکانی  کر کے آنےوالے ہندوستانیوں  نےآباد کیا ۔ اس کے بعد 1976 میں ایمرجنسی کے دوران جب سنجے گاندھی نے جھوپڑ پٹیوں کو تباہ کرنے کی مہم چلائی تو بے گھر ہونے والوں نے تر لوک پوری میں پناہ لی اور اس بستی کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ 1984 کے قتل عام کے بعد سےمتوسط طبقہ کی اس بستی میں مختلف عقیدوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے اور دہلی کے دیگر علاقوں کی طرح اس علاقے میں بھی گزشتہ 3 دہائیوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی او رامن و امان قائم تھا۔

مگر 30 سال بعد یہ گنجان آباد بستی فرقہ وارانہ کشیدگی کے کرب سے گزررہی ہے ۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کی گلیاں اور سڑکیں ( ایک دوسرے پر پھینکے گئے) اینٹوں ،پتھروں اور دیگر چیزوں سےبھری پڑی ہیں ، اس بستی  کی اقلیتیں  نقل مکانی پر مجبور ہیں او ربچے ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے خوفزدہ ہوکر جھانک رہے ہیں اور پولیس اہلکاروں کے اس ہجوم کو دیکھ رہے ہیں  جو نازک حالات کو سنبھالنے کیلئے سڑکوں کے کناروں پر مستعد کھڑے ہیں۔

ترلوک پوری کے تشدد کے لئے جو نسخہ آزمایا گیا وہ وہی آزمودہ نسخہ ہے جسے ہر اُس موقع پر بروئے کار لایا جاتاہے جب کوئی آرگنائزیشن سیاسی مفادات کے لئے فساد کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ تنازع کیلئے سیاق و سباق تیار کرنا ہوتا ہے ۔ آزادی  کے بعد سے اب تک فساد کیلئے موزوں ترین سباق یہی رہاہے کہ کسی عبادت گاہ کے آس پاس کسی تنازع کی کہانی بنی جائے ۔ ترلوک پوری میں ایک مسجد کےبہت ہی قریب پہلی مرتبہ ‘ ماتا کی چوکی’ جسے عارضی  مندربھی کہا جاسکتا ہے قائم کیا گیا اور  اس میں مسجد کی رُخ پر لاؤڈاسپیکر نصب کردیئے گئے ۔ ان پر 24 گھنٹے بھجن کا نشر یہ شروع کردیا گیا ۔ کشیدگی اس وقت اور بڑھ گئی جب یہ بات عام ہوئی کہ مذکورہ عارضی مندر ( ماتا کی چوکی) کو روایت کےعین بر خلاف تہوار کے بعد ہٹایا نہیں جائے بلکہ مستقل مندر میں تبدیل کردیا جائے گا۔

جب فرقہ وارانہ کشیدگی خاطر خواہ  حد تک پھیلادی گئی تو پھر چنگاری کو ہوا دینے کیلئے ‘ اصل محرک’ تیار کیا گیا ۔ یہ محرک دیوالی کی رات عارضی مندر کے قریب نشے میں دھت 2 نوجوانوں کا جھگڑا تھا ۔ یہ دونوں اس دیسی شراب سے مدہوش تھے جو علاقے میں کھلے عام فروخت ہوتی ہے ۔ بڑی تیزی سے خبر پھیل گئی کہ ایک مسلم نوجوان نے ماتا کی چوکی کی بے حرمتی کی ہے ۔ لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہونے لگی اور اینٹیں برسنے لگیں ۔ کچھ فائرنگ کی بھی اطلاعات ہیں۔ حالانکہ 70 افراد زخمی ہوئے ہیں تاہم کسی جانی نقصان کی خبر نہیں ملی۔

اس بیچ کئی نئی افواہیں بڑی تیزی سے پھیلیں جن سے یہ تاثر دیا گیا کہ مسلمان کسی بڑے حملے کیلئے خود کو مسلح کررہے ہیں ۔ کچھ دکانیں نذر آتش  کردی گئیں۔ سڑکوں پر اینٹ کے ٹکڑوں کے ڈھیر لگ گئے  او رمسلمانوں کے گھروں پر بڑے پیمانے پر پتھراؤ ہونے لگا۔ اس کے ساتھ نعروں او رطعنوں کے وار بھی ہوئے ۔ کچھ مسلمانوں کی جانب سے جوابی کارروائی بھی ہوئی اور تر لوک پوری کی تنگ گلیاں بہت جلد اینٹوں  کے ٹکڑوں سے پٹ گئیں ۔ تشدد پر آمادہ ہجوم کو منتشر کر کے او رکرفیوں کے نفاذ کے ذریعہ مقامی پولیس  اس چھوٹے سے فرقہ وارانہ فساد کو فوری طور پر او رموثر انداز میں روک سکتی تھی مگر جیسا کہ ہمیشہ ‘‘ کروائے گئے ’’ فسادات میں ہوتا ہے، پولیس کا ابتدائی  رد عمل  کافی سست  رہا جس نے تشدد کو 2 سے 3 دن تک چلنے دیا اس کے بعد کہیں جاکر امتناعی احکامات اور کرفیو نافذ کیا گیا ۔

ہم نے اس سلسلے میں کئی مقامی افراد سے گفتگو کی جو تشدد کےپیچھے کسی سازش کو محسوس کرتے ہیں ۔ رمیش جو چائے کی دکان چلاتےہیں ، نے تشدد بھرکانے کیلئے براہ راست آر ایس ایس کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ انہوں نے میرے ساتھی اسعد اشرف سےگفتگو کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ‘‘ میں نے پہلی بار دیکھا ہے کہ دیوالی کے موقع پر مسجد کے باہر مورتیاں  لگائی گئیں ۔ ’’ انہوں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ‘‘ اس کا مقصد ہی تنازع کھڑا کرنا تھا تاکہ  آنے والے الیکشن کیلئے ووٹروں کی 2 خانوں میں تقسیم کیا جاسکے ’’۔ ترلوک پوری میں ہی رہنے والے شفق خان نےاس موقع پر یہ چبھتاہوا سوال کیا ‘‘ میں حیران ہوں کہ اتنے تھوڑے  سے وقفے میں فسادیوں کو اتنی بڑی مقدار اینٹیں اور پتھر کہاں سے مل گئے ؟  کیا اس سے کسی سازش کااشارہ نہیں ملتا ؟؟ ’’

تشدد کے بعد گرفتاریاں ہوئیں مگر یہاں  اسی پیٹرن کو اپنایا گیا جو عام طور پر فسادات کے بعد اپنایا جاتاہے ۔ جتنے ہندو گرفتار ہوئے ان سے 3 گنا زیادہ مسلمان کو گرفتار کیا گیا ۔ کالونی بہت جلد مسلم نوجوانوں سے خالی ہوگئی جو گرفتاری کے ڈر سے بھاگنے پر مجبور تھے ۔ تشدد کے دن پولیس اسٹیشنوں میں حکمراں  جماعت کے افراد مہمانوں  کی طرح بیٹھے ہوئے تھے جب کہ حراست میں  لئے گئے مسلم نوجوانوں کے پریشان حال رشتے دار جن میں اکثر خواتین  کی تھی جب اپنے چہیتوں کے بارے میں پوچھنے یا معلومات حاصل کرنے کے لئے پولیس اسٹیشن پہنچتے  تو انہیں بھگا دیا جاتا ۔ اس کی وجہ سے پولیس کی غیر جانبدارانہ شبیہ مزید داغدار ہوئی ۔ جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا انہیں  قانون کے مطابق 24 گھنٹے کی معینہ مدت کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا بلکہ امن و  امان کےلئے  کام کرنے والی تنظیموں کی مداخلت کے بعد انہیں اتوار کو عدالتوں میں پیش کیا گیا یعنی فساد شروع ہونے کے 3 دن بعد ۔ کمرہ عدالت میں موجود حقوق انسانی کے رضا کاروں نے محروسین کے جسم اور چہروں پر چوٹ کے واضح نشان دیکھے گئے جو یقینی طور پر پولیس ٹارچر اور تشدد کا نتیجہ تھے ۔ انہوں نے اس سلسلے میں قومی حقوق انسانی کمیشن سے شکایت بھی کی ہے۔

میں ترلوک پوری سے اپنی  روح پر بھاری بوجھ لے کر لوٹا۔ حالات اب پوری طرح  سے پولیس کے قابوں میں  ہیں ۔ اس میں  بھی کوئی شک نہیں کہ یہاں  رہنے والے مزدروں کی زندگی ایک بار پھر رواں دواں ہوجائے گی اور ان ہی فرقہ وارانہ طور پر کشیدہ حالات میں الیکشن لڑے اور جیتے  جائیں گے مگر دونوں فرقوں میں جو تلخیاں ہوگئی ہیں ان کے دور ہونے میں کافی وقت لگ جائے گا۔ میں فکر مند ہوں کہ آخر کب تک منظم فسادات کرواکر عوام میں نفرت پھیلا کر سیاسی  روٹیاں  سینکی  جاتی رہیں گی؟ ہم کیسے اپنے ہی لوگوں کو جب چاہتے ہیں آپس میں تقسیم اور باہم دست  وگریباں کردیتے ہیں؟

کیا یہ وہ لوگ نہیں ہیں کہ جن کے درمیان اگر نفرت کی چنگاری  نہ پھینکی جائے تو یہ امن و امان کے ساتھ مل جل کر رہیں؟؟

9 نومبر، 2014  بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی 

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/‘tested-formula’-used-trilokpuri-riots/d/99951 

Loading..

Loading..