شیام سرن
28 جولائی، 2021
سابق خارجہ سیکرٹری و
سینئر فیلو، سینٹر فار پالیسی ریسرچ
(انگریزی سے ترجمہ، نیو ایج اسلام )
ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان
سمیت متعدد ممالک میں پہلے سے ہی طالبان افواج کے ہاتھوں شکست خوردہ افغانستان کے
لئے ایک ہوڑ مچی ہوئی ہو۔ افغانستان پر طالبان کا قبضہ اس تباہ و برباد ملک کے
بدقسمت لوگوں اور خاص طور پر وہاں کی عورتوں اور بچوں کے لئے کسی تباہی سے کم نہیں
ہے کیوں کہ اس زمین پر ایک مرتبہ پھر جہالت پسند عدم روادار اسلام بے لگام ہونے جا
رہا ہے۔ اچانک اب اس کا فیصلہ افغان عوام کو کرنا ہے اس لئے کہ اب اختیار ان کے
ہاتھ میں ہے۔ اب ایسی اطلاعات آنا شروع ہو چکی ہیں کہ جن علاقوں میں طالبان کا
قبضہ ہے ان علاقوں میں سختی کے ساتھ شریعت یا کم از کم شریعت کی طالبانی تعبیر و
تشریح مسلط کردی گئی ہے۔ ایسے لوگوں کو محض قدامت پسند کہنا جو حقیقت میں انتہائی
ہوشیار اور زبردست سیاسی چالباز ہیں، ایک پردو پوشی ہے جس سے طالبان سے زیادہ اس
کے قائلین کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ ایسی تصویر کشی ان کے حق میں ہے کیوں کہ غیر
ملکیوں کی دخل اندازی کے بغیر وہ پرتشدد نظام نافذ کر سکتے ہیں تاکہ ان کی توجہ
ہٹائی جا سکے۔ صدر بائیڈن کی آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام کے بارے
میں پرجوش تحریک سے بھی اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہو سکا کہ وہ ایک ایسی قوم سے
دستبردار ہو گئے جو بکھرے ہوئے ہی سہی مگر جمہوری طور پر منتخب حکومت کے باوجود
اپنی محدود آزادیوں کا خاتمہ دیکھ رہے ہیں۔
No respite: Violence is unlikely
to ebb in Afghanistan with a free run for the Taliban. AP
-----------
یہاں ایک خیالِ خام یہ
پائی جاتی ہے کہ اگر چہ موجودہ کابل کی حکومت نہیں مگر آخرکار طالبان تو قوم پرست
ہیں۔ اگر غنی کی حکومت امریکی حمایت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے تو پاکستان کی
پیداوار طالبان پاکستان کے تعاون کی وجہ سے بحال رہتے اور پھلتے پھولتے۔ امریکی
میدان ہار گئے کیونکہ وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر سازشیں رچنے والے اپنے حقیقی دشمن
سے لڑنے میں ناکام رہے۔ کوئی بھی افغانستان کے بارے میں پاکستان کے تخمینہ کو اس
کے ناگزیر "اسٹریٹجک گہرائی" ہونے کی وجہ سے مسترد کر سکتا ہے، یا یہ
پیشن گوئی کر سکتا ہے ایک بار جب طالبان نے افغانستان میں مورچہ سنبھال لیا اور
اپنے "مفادات" کو حاصل کرنا شروع کردیا تو پاکستان خود بہ خود شکست کھا
جائے گا۔ ایسا ہوسکتا ہے لیکن اس دوران ایک اور سپر پاور کی ذلت آمیز شکست سے
پاکستان کا اطمینان جگ ظاہر ہے۔
یہ کہ پاکستان کو نئی
اسٹریٹجک اہمیت حاصل ہو رہی ہے کیونکہ اب وہ اس خطرناک نئی قوت پر اپنا کنٹرول جما
رہا ہے جو جلد ہی شورش زدہ افغانستان کی تخت
حکومت پر بیٹھنے والی ہے، جو کہ متعدد پڑوسی ممالک کے ذریعہ اسلام آباد میں
کی جانے والی کوششوں سے عیاں ہے۔ یہاں تک کہ کچھ ہندوستانی مبصرین پاکستان پر زور
دے رہے ہیں کہ براہ کرم وہ ایک "پرامن اور مستحکم" افغانستان میں مشترکہ
مفادات پر نظر کریں۔ طالبان کو پاکستانی آلہ کار نہ سمجھتے ہوئے ہندوستان کا
طالبان کے ساتھ تعامل پر زور دینا تاکہ وہ ہندوستانی مفادات کو نقصان پہنچانے میں
اسے استعمال کرنے کی پاکستانی کوششوں کا سدباب کر سکے، واضح طور پر دفاعی اقدام
ہے۔ لشکر طیبہ اور جیش محمد کے مسلح لیڈر طالبان کے شانہ بہ شانہ لڑ رہے ہیں۔ کیا
وہ پاکستان کی حوصلہ افزائی کے بغیر ایسا کر رہے؟ کیا ہم واقعی یہ مانتے ہیں کہ
طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان ایک بار پھر بھارت کے خلاف سرحدی دہشت گردی کا ایک
نیا اور مضبوط مرکز نہیں بن جائے گا؟ چین ، روس اور شاید ایران کے خلاف بھی ایسی
ہی سرگرمیوں کے خلاف پاکستان ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ کیا ان کے خدشات کو ابتدائی
طور پر بھی کم کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہندوستان کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کیا کوئی
مدد مل سکتی ہے؟
میرا ماننا ہے کہ بالآخر
پاکستان القاعدہ یا داعش جیسی دوسری شدت پسند قوتوں پر قابو نہیں پاسکے گا تاکہ وہ
افغانستان میں اپنے اڈے اور پناہ گاہیں بنانے میں کامیاب ہو سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ
وہ پہلے سے ہی ملک کے کچھ علاقوں میں سرگرم ہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ بہت کم
تسلی بخش ہو۔ چونکہ اب چینی ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں وہ ملک میں کام کرنے والے
اپنے اہلکاروں کی حفاظت کے لئے پاکستان پر انحصار نہیں کرسکتے۔ کیا وہ افغانستان
میں بھی ایسا کرسکیں گے؟ لیکن ان کے لئے ان سب کو درست کرنے کا وقت نکل چکا ہے۔ اب وہ صرف بہتر کی امید ہی کر سکتے
ہیں۔
اس مشکل موڑ پر ہندوستان
کے لئے سب سے بہتر یا کم خراب راستہ کیا ہوسکتا ہے؟ سب سے بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ
ہندوستان کابل حکومت کا تعاون کرے اور طالبان کو مکمل قبضے سے روکنے میں اسے مدد
فراہم کرے۔ اگر کسی طرح جاری خانہ جنگی معطل ہو جائے تو یہ کم وقت میں بہترین
نتیجہ ہوسکتا ہے۔ طالبان کی رفتار کو توڑنے کی ضرورت ہے۔
افغان صورتحال پر شنگھائی
کوآپریشن آرگنائیزیشن (ایس سی او) کے حالیہ غور و فکر سے طالبان کو قبضے سے روکنے
اور اختیارات کی تقسیم کے نظام کی حمایت کرنے پر علاقائی اتفاق رائے پیدا کرنے کی
طرف ایک اشارہ ملتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کابل حکومت کے لئے سیاسی اور مادی حمایت میں
اضافے کی گنجائش ہو اور ہندوستان یقینی طور پر اس سلسلے میں قیادت کرسکتا ہے۔ اگر
ترکی بگرام ہوائی اڈے کی حفاظت کی ذمہ داری لے لے تو پھر گنجائش بنتی ہے کہ
ہندوستان اس میں دخل دے۔ امریکیوں سے اس ذمہ داری کو اپنے اوپر لینے پر طالبان نے
ترکی کو تنبیہ کر دیا ہے۔
حکمت عملی کے ساتھ طالبان
کے ساتھ دخل اندازی کرنا ٹھیک ہو سکتا ہے اور ہندوستان ایسا ہی کرتا رہا ہے۔ تاہم،
ہندوستان کو یہ مطالبات بھی نہیں ماننا چاہئے کہ ہندوستان غنی حکومت کی مدد کرنا
چھوڑ دے بشمول اسلحے کی فراہمی کے۔ ہندوستان کو اپنی بہت سی کمزوریوں کے باوجود
اپنی پوری توانائی غنی حکومت کے پیچھے صرف کرنا چاہئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہندوستان
کے نقطہ نظر سے افغانستان میں فوجی تعطل، اگر چہ خانہ جنگی طویل ہو، طالبان کے
قبضے سے زیادہ بہتر نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ طالبان کی شکست میں کوئی بھی
تعاون کرنے کے قابل نہ ہو۔ لیکن ہم اس کی فتح کو روکنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور
یہ زیادہ دانشمندانہ فیصلہ ہوگا۔
Source:
https://www.tribuneindia.com/news/comment/misreading-afghan-situation-289083
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/misreading-afghan-situation-taliban/d/125142
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism