تفہیم الرحمان
16دسمبر،2024
دنیا کی تاریخ میں غلامی ایک ایسا سیاہ باب ہے، جو ہردور میں مختلف شکلوں اور انداز میں جاری رہاہے۔ کبھی جنگ کے نتیجے میں،کبھی سامراجی تسلط کے ذریعے او رکبھی معاشی یا سیاسی استحصال کی صورت میں قوموں او رمعاشروں کو غلام بنایا گیا۔ مختلف خطے جیسے ہندوستان، چین، افریقہ، افغانستان، مشرقی وسطیٰ او ریہاں تک کہ یورپ نے بھی غلامی کے دور کو محسوس کیا اور اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دیں۔ یہ داستان صرف ظلم و استحصال کی نہیں،بلکہ ان قوموں کی بہادری اور قربانیوں کی بھی ہے، جنہوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی حاصل کی۔ ہندوستان نے تقریباً دوسو سال تک برطانوی سامراج کے تسلط کو برداشت کیا ہے۔ 1757 ء کی پلاسی کی جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے آہستہ آہستہ پورے برصغیر پرقبضہ جمالیا۔ اس دور میں ہندوستان کے وسائل کو لوٹا گیا۔ کسانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کردیا گیا، اور مقامی صنعتوں کو تباہ کردیا گیا۔ ثقافتی لحاظ سے بھی برطانوی حکمرانوں نے ہندوستانی معاشرت کو نقصان پہنچایا۔ انگریزی نظام تعلیم کومسلط کیا گیا تاکہ مقامی لوگ اپنی زبان، تاریخ، اور ثقافت سے دور ہو جائیں۔ 1857 ء کی جنگ آزادی ہندوستانیوں کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، لیکن اس کے بعد برطانوی حکومت نے جبروتشدد میں اضافہ کردیا۔ آخر کار 1947 ء میں ہندوستان نے آزادی حاصل کی، لیکن اس آزادی کے ساتھ تقسیم کادرد بھی جڑا ہوا تھا۔
انیسویں صدی میں برطانیہ نے افیون کی تجارت کو زبردستی چین پر مسلط کیا، جس نے چینی معیشت او رسماج کو تباہ کردیا۔ مغربی طاقتوں نے چین کو ’نانجنگ معاہدہ‘ جیسے سامراجی معاہدوں کے ذریعے مجبور کیا کہ وہ اپنی زمینیں اور تجارتی حقوق ترک کرے۔ جاپان او ر دیگر مغربی ملک نے چین کی زمینوں پرقبضہ کیا اور عوام کو ظلم واستحصال کا نشانہ بنایا۔ لیکن چینی عوام نے ماوزے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے سامراجی طاقتوں کا خاتمہ کیا او راپنی خودمختاری کو دوبارہ قائم کیا۔افریقہ میں غلامی کی تاریخ بہت پرانی ہے، لیکن جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے نظام ’اپارتھا ئیڈ‘ نے اس ظلم کو ایک نئی شکل دی۔ سفید فام اقلیت نے سیاہ فام اکثریت کو دہائیوں تک بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا۔ انہیں تعلیم، صحت، اور زمین کی ملکیت جیسے حقوق سے محروم رکھا گیا۔ نیلسن منڈیلا کی قیادت میں عوامی تحریکوں نے اس نظام کے خلاف آواز بلند کی۔ 1994 ء میں جمہوری انتخابات کے ذریعے اپارتھا ئیڈ کا خاتمہ ہوا اور جنوبی افریقہ میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ افغانستان میں 2001ء کے بعد امریکی تسلط کو غلامی کی ایک شکل کے طور پر دیکھا جاتاہے۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے اپنی مرضی کی حکومت قائم کی، لیکن عوام کو سیاسی او رمعاشی غلامی میں دھکیل دیا گیا۔ لیکن طالبان نے عوامی حمایت حاصل کرکے دو بارہ طاقت حاصل کی اور 2021 ء میں امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ مشرق وسطیٰ میں بھی غلامی کے آثار نمایا ں رہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ مغربی طاقتوں نے مشرق وسطیٰ کو اپنی مرضی سے تقسیم کردیا۔ اس خطے کے وسائل کو مغربی ممالک نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن عرب قوم پرستی کی تحریکوں نے غلامی کے خلاف آواز بلند کی اور کئی ممالک نے آزادی حاصل کی۔ یورپ میں بھی غلامی کی داستان موجود ہے۔ خاص طور پر فرانس میں جہاں عوا م کو اشرافیہ اور بادشاہت کے جبر کا سامناتھا۔ عوام نے بادشاہت کے نظام اورجاگیرداری کے خلاف بغاوت کی۔ آزادی، مساوات اور اخوت کے نعروں کے ساتھ اس انقلاب نے نہ صرف فرانس بلکہ دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کو متاثر کیا۔ انقلاب کے بعد فرانس میں جمہوری نظام قائم ہوا، جس نے غلامی کی زنجیروں کو ہمیشہ کے لیے توڑ دیا۔تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ غلامی کتنی ہی شدید اور طویل کیوں نہ ہو، اس کے خاتمے کے لیے اتحاد،قربانی اور قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔چاہے وہ ہندوستان کے کسان ہوں، چین کے مزدور، افریقہ کے مظلوم، یا فرانس کے عوام،ہر قوم نے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ان قربانیوں نے دنیا کو یہ سکھایا کہ آزادی ایک انمول نعمت ہے،جس کے لیے ہر ظلم کا سامنا کیا جاسکتاہے۔ یہ جدوجہد انسانیت کی تاریخ کا سب سے روشن باب ہے۔
بھارت کے مسلمانوں کو جو آج مختلف اقسام کی پسماندگی اور اکثریتی سماج کے تعصبات کا سامنا کررہے ہیں، اپنی بقا اور ترقی کے لیے نہایت حکمت اور شعور کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ موجودہ حالات، جن میں روزانہ کی بنیاد پر ان کی شناخت اور حقوق کو چیلنج کیا جارہاہے، اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں او رایک مضبوط، منظم، اور مربوط حکمت عملی اختیار کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم غلامی یا پسماندگی کا شکار ہوئی، اس نے اپنی تعلیم، اتحاد، اور شعور کے ذریعے نہ صرف اپنی حالت بہتر کی بلکہ عظمت کو بھی بحال کیا۔ ہندوستان کے مسلمان بھی اگر اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تعلیم کو اپنی ترجیح بناتاہوگا۔ تعلیم کے ساتھ مسلمانوں کو اقتصادی طو ر پر مضبوط بنناہوگا۔ کاروبار، صنعت، اور دیگر معاشی شعبوں میں اپنی شمولیت بڑھانی ہوگی۔ خود انحصاری اور اقتصادی خود مختاری وہ بنیادیں ہیں، جو کسی بھی قوم کو مضبوط بناتی ہیں۔ ماضی کی مثالوں سے یہ بات واضح ہے کہ اقتصادی طور پر مضبوط قومیں ہی اپنے حقوق کا دفاع بہتر طریقے سے کرسکتی ہیں۔ اس کے لیے مسلمانوں کو اپنی کمیونٹی کے اندر تعاون کا نظام قائم کرنا ہوگا،جیسا کہ وقف اور زکوٰۃ کا مؤثر استعمال۔ اتحاد اور اتفاق بھی مسلمانوں کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اختلافات اور مسلکی تقسیم نے مسلمانوں کو کمزور کیا ہے او را س صورتحال سے نکلنے کے لیے تمام فرقوں کو ایک پلیٹ فارم پرآنا ہوگا۔ مسلمانوں کو سیاسی میدان میں بھی اپنی شمولیت برھانی ہوگی۔ ماضی میں مسلمانوں کی سیاسی بے حسی ان کے مسائل کو مزید بڑھادیا۔انہیں اپنے مسائل کے حل کے لئے منظم اور حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا۔ اپنی ثقافت اور شناخت کی حفاظت کیلئے مسلمانوں کو اپنی زبان، ادب، اور تاریخ کو زندہ رکھنا ہوگا۔اردو زبان، جو مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کاایک اہم حصہ ہے، کو فروغ دینا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح اسلامی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے تعلیمی اور ثقافتی ادارے قائم کرنے ہوں گے۔
مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگاکہ احتجاج اور شکایت کے بجائے مثبت عمل اور تعمیری اقدامات ہی ان کی حالت بہتر کرسکتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، انہیں مختلف شعبوں میں اپنی مہارت ثابت کرنی ہوگی، چاہے وہ سائنس ہو، فنون ہو، یا قانون کا میدان۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وہ قومیں جو تعلیم، اتحاد، اور خو د مختاری کو اپناتی ہیں، وہی اپنی حالت بدلنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ انہیں اپنے مسائل کو سمجھ کر، حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا، تاکہ وہ اپنی عظمت کو دوبارہ حاصل کرسکیں اور ایک مضبوط قوم کے طور پر ابھر سکیں۔
16 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/should-strategy-muslims/d/134079
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism