It is the responsibility of the courts how they interpret the blasphemy laws. And it is the responsibility of the government, as well as parliament, to take notice of laws that allow impunity for such murderous bigotry and initiate a process that dismantles the architecture of these man-made laws. But it is also the responsibility of citizens, especially those who profit the most from Pakistan, to stand up again such attacks on its existential premise. In any civilised country, where the identity of the state was so contested that no one could face the wrath of the self-appointed gatekeepers of Islam, the educated elite would be forced to make common cause with the activist left to put its weight behind reform of laws they all condemn as unjust behind closed doors.
To read the full texts of the English article please click on the link below: http://www.newageislam.com/islam-and-human-rights/pakistan--stand-up-against-the-blasphemy-laws/d/3738
پاکستان قوانین بے حرمتی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کمر بستہ ہوجائیں
شیریں رحمٰن
بے حرمتی رسولؐ کے الزامات کی بنیاد پر ننکا نا صاحب کے سیشن کورٹ کے ذریعہ ایک عیسائی عورت کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ صادر کئے جانے پر پاکستان میں افراتفری مچ گئی ۔ آسیہ بی بی کے معاملے نے متعدد وجوہات کے پیش نظر ہزاروں لوگوں کو مشتعل و بر انگیختہ کردیا ہے۔ اس کی آزمائش کا استعمال ہماری آزاد عدلیہ کے لئے غیر جانبدارانہ انصاف کامعاملہ بن جانا واضح سی بات ہے ۔ وہ خاتون واضح طور پر بے حرمتی رسولؐ کے جرم کی مرتکب ہونے کے بجائے ایک شکار ہے۔ اسی قسم کے الزامات کی بنیاد پر اسے ایک سال کی قید کی سزا جھیلنی پڑی ، جس کے لئے پاکستان میں قوانین بے حرمتی رسولؐ بنائے گئے ہیں، مندرجہ ذیل مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اس قانون کا سہارا لیا جاتا ہے:
شخصی انتقام کے لئے ،مالی تنازعات کی خاطر دباؤ بنانے کے لئے یا صرف اقلیتی طبقات کو ڈرا دھمکا کر ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کےلئے یا تیسرے درجہ کے شہریوں کی حیثیت سے زندگی گزار نے پر مجبور کرنے کےلئے ۔
لیکن اس معاملہ سے متعلق عوام کا غصہ اس پر الزام عائد کرنے والوں کے ناجائز ارادے سے متعلق ہی نہیں ہے، بلکہ یہ پاکستانیوں کی اس اکثریت سے متعلق ہے جو یہ فراموش کرچکی ہے کہ شہریت کے معنی اور اس سے منسلک آئینی تحفظات کیا ہیں۔ سازش کی اس ظلمت کے پیچھے ہماری غلطی کار فرماہے۔ وہ قصور ہمارے آئینی تحفظات کو تحریری شکلوں اور ضمانتوں تک محدود کردیئے جانے سے متعلق ہے، جو صرف استحقاق یا فتہ یا رعایت یافتہ لوگوں کو ہمیشہ اور کمزور ضرب پذیر لوگوں کو شاذ ونادریا مشکل سے تحفظات فراہم کرتے ہیں۔ عام لوگوں کو بدترین حالات میں کف افسوس ملتے ہوئے ارد گرد کھڑے رہنا پڑتا ہے ،اکثریت کا کام ہے مضامین لکھنا ،عوامی اجتماعات کی قیادت کرنا اور سخت ونا کو ارفتو ے کو پلٹ دینا ۔ یہ اکثریت کی ناکامی ہے جو ان قوانین کو پلٹنے کے لئے وسائل جمع کرنے اور حمایت یکجا کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہے اور نبی پاکﷺ کے نام پر سنگین ناانصافیاں کئے جانے کی اجازت دیتی ہے ۔ نبی ؐ نے تو متشددین کی خونریزی کی خواہش کے خلاف کمزوروں ،خاص کر اقلتیوں کے تحفظ کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔
یہ عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین بے حرمتی رسولؐ (Blasphemy laws)کی کس طرح سے تشریح وضاحت کرتی ہیں۔ اور ایسے قوانین پر نظر رکھنا حکومت او رپارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے، جو ایسے قاتلانہ و خونریز تعصب ،تنگ نظری او ربے انصافی کی سزا سے بریت کی اجازت دیں اور ایسے طریق کار قائم کریں جو انسان ساختہ قوانین کی عمارت یا بنیاد کو تباہ اور برباد کردیتے ہیں۔ لیکن شہر یوں کی خصوصاً ان لوگوں کی جو پاکستان سے سب زیادہ مستفید ہوتے ہیں ،یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اس کے وجود پر ایسے حملے کامقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہوجائیں ۔ کسی بھی متمدن ملک میں ، جہاں مملکت کی شناخت اتنی متنازع ہے کہ اسلام کے خود مقرر کردہ محافظین ،ذمہ داران وقائدین کے عتاب کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ہے، عمدہ ترین اور بر گریدہ تعلیم یافتہ طبقہ کو اس کا رکن طبقہ کے ساتھ اعانت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو ان قوانین کی اصلاح کی خاطر اپنی پوری طاقت جھونکنے کے لئے تیار ہیں، جن قوانین کی وہ تمام لوگ بے جا اور غیر منصفانہ کہہ کر بند دروازے کے پیچھے سے مذمت کرتے ہیں۔
اب ہم ایسے ملک میں نہیں رہتے ہیں جہاں اپنے خوشحال اور محصور علاقے میں واپس جانا اچھا ہو، جیسا کہ مالدار لوگ ہر جگہ کرتے ہیں۔ پاکستان دہشت گردانہ آگ میں جل رہا ہے۔ جہاں مملکت کی صلاحیتیں ناکام ہوجائیں وہاں خونی عطیہ و امداد صدقہ ، زکوٰۃ اور خیرات کے لئے گھومنا یا گھمانا کافی نہیں ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جمہوریت کمزور اور خطروں سے گھر سے ملکوں میں غریبوں او رکمزوروں کے لئے کھڑا ہونے کو کہا جاتا ہے۔ اصلاح میں برابر کا حقدار ہونا لازمی ہے نہ کہ عیش وعشرت کی زندگی گزارنے میں ، جبکہ خود اپنا ہی گھر خطروں سے گھرا ہو۔
قانون کی بندشوں کی وجہ سے سماج دشمن عناصر کے تعاقبات کے سلسلے میں ہمارا سماج مجبور وبے بس ہے۔ مجلس قانون ساز میں قانون بے حرمتی رسولؐ کی منسوخ کرنے کے لئے جد و جہد کرنے کا یہ وقت ہے۔ اگر اس سے کام نہ چلے، ٹھیک اسی طرح جیسے کہ ‘‘حد ود’’ تنسیخ بل کے آگے بڑھانے پر نہیں چلا تھا ،تو ایسی حالت میں ہمیں ضرورت ہے ایسے قوانین وضع کرنے کی ، جو ان قوانین کی ترمیم کریں تاکہ وہ بے اثر اور بے ضر ر ہوجائیں ،ٹھیک اسی طرح جیسا کہ پارلیمنٹ میں خواتین بل کو منظور کرانے کے لئے ہم لوگوں نے مہم چلائی ۔ ایسی تبدیلی پر توجہ مرکوز کرانے کے لئے پی پی پی کی حکومت ہمارے لئے بہترین موقع ہے۔کارکنان کےطور پر ہمیں ان قوانین کے خلاف عام لوگوں کا اتفاق رائے بنانا چاہئے اور ایسے نئے قوانین وضع کرنے چاہئیں جو ایسے لوگوں کو سزا دیں جو خبیثانہ ارادہ اور بد نیتی کے ساتھ تشدد برپا کرتے ہیں۔
قانونی طور پر طاقتور شہریوں کی حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے اس وعدہ کے لئے لڑیں جو انہوں نے 11اگست 1947کو پاکستان کی مجلس مقنّنہ سےپہلی بار خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ ہر اس شخص کو ،جو اسے پڑھ رہاہے، یہ جاننا چاہئے کہ انہوں نے اس تاریخی دن میں کیا کہا تھا۔ یہ وقت ہے کہ اس وعدہ کو شرمندہ تعبیر کیا جائے:
تبصرے :۔
بقول منظور الحق ،‘‘ اور اپنے انبیا ؑ اور دین کی مدافعت کے لئے ہم لوگ سب سے زیادہ موزوں و مناسب ہیں۔’’
میرا تبصرہ : کیا انبیا ؑ کو ہمارے دفاع کی ضرورت ہے؟ کیا ایسا اس لئے ہےکہ وہ لوگ بے سہارا اور مجبور ہیں اور ہماری حمایت یا دفاع کے محتاج ہیں؟ کیادین کسی طرح کے دفاع یا مدد کا محتاج ہے؟ اگر ہم ان کا دفاع نہ کریں تو کیا ان کا کوئی نقصان ہوجائے گا؟
سچائی سچائی ہے، حقیقت کو ہم کس طرح کی حمایت یا دفاع فراہم کرسکتے ہیں۔؟
سورج چمکتا ہے ، روشن ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے ۔اگر کوئی کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے تو کیا اس حقیقت کا دفاع کر نے کے لئے ہم اس شخص کا قتل کردیں؟ مجھے یقین ہےکہ پیغمبرؐ کے زمانے میں متعدد لوگوں نے ان کی تذلیل کی۔ تو کیا اس طرح کوئی واقعہ رونما ہوا، کہ اس شخص کو جس نے پیغمبرؐ کی توہین یا بے حرمتی کی ،پیغمبر کے مکمل علم میں قتل کردیا گیا؟
سید رضوی ،کیلی فورنیا
میں ان جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو ، جن کی حمایت یا مدافعت میں میں ہوں، یہ مشورہ دوں گا کہ وہ لوگ مندرجہ ذیل دقیانوسی دلیل اور حجت کے جال میں نہ پھنسیں :‘‘ تمام انبیا کی حرمت کو بچانا ہمارے دین کا ایک جزوہے۔’’
ہمارا جواب ہے ۔ہاں، ایسا ہے۔ اور اپنے انبیا اوردین کی مدافعت کرنے کے لئے ہم سب سے زیادہ معقول اور مناسب ہیں۔
منظور الحق
اسلام علیکم!
اسلام اب تک آزاد یا خود مختار حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ حجاج بن یوسف بھی اس حد تک دین کی مخالفت نہیں کرسکتا تھا۔ تمام انبیا ؑ کی حرمت کی حفاظت و پاسداری کرنا ہمار ے دین کا ایک حصہ ہے۔ یہ کوئی شخص مفاد کی چیز نہیں ہے جس کے ساتھ کوئی تال میل ،مصالحت یا مفاہمت کی جائے۔ یہ ایک ایسی بنیاد ہے ، جس پردین کی پوری عمارت قائم ہے ۔اگر علامہ اقبال یا سلادین باحیات رہتے ، تو وہ لوگ حجاج جیسے ان بیانات کو قطعی برداشت نہیں کرتے ۔ پوری اسلامی تاریخ میں یہ ایک متفقہ مقدس قانون ہے اور مذہب کی تضحیک و تمسخر کےلئے تن تنہا ہمت شکن ،مانع اور سدراہ ہے۔ شیطان مسلم معاشرے میں بھی سرایت کرنا چاہتا ہے۔ یہ قانون ایک مسلمان پر بھی نافذ ہوگا۔ کسی بھی انسان کو اسے منسوخ یا مسترد کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اللہ کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرنا چاہئے ۔ ورنہ وہ لوگ مسلمانوں کے ذریعہ اتباع کئے جانے کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔ انہیں اپنے احساس کمتری کو اپنے مسلم محکومین یا رعایا پر مسلط نہیں کرنا چاہئے ۔مزید مباحثہ کے لئے اسے شائع کرنا لازمی ہے۔
ای میل: neorient@gmail.com
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-stand-up-blasphemy-laws/d/5058