شیما ثمر
27 ستمبر 2016
زندگی کا مقصد کیا ہے؟ قرآن مجید اس سوال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس کا انسانیت کے لئے خدا کا براہ راست کلام ہونا تمام مسلمان تسلیم کرتے ہیں:
"سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (و بے مقصد) پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟"(23:115)۔
خدا نے زندگی کے ایک مقصد پر یقین رکھنے کے ساتھ انصاف کی قدر کو شریک کیا ہے:
"اور ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اورکیا ہم اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجا لائے اُن لوگوں جیسا کر دیں گے جو زمین میں فساد بپا کرنے والے ہیں یا ہم پرہیزگاروں کو بدکرداروں جیسا بنا دیں گے جو کائنات دونوں کے درمیان ہے اسے بے مقصد و بے مصلحت نہیں بنایا۔ یہ (بے مقصد یعنی اتفاقیہ تخلیق) کافر لوگوں کا خیال و نظریہ ہے۔ سو کافر لوگوں کے لئے آتشِ دوزخ کی ہلاکت ہے۔ "( 28-38:27)
ایمان اور عمل نیک ہی زندگی کا مقصد ہے
قرآن مجید ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ زندگی کا مقصد اللہ پر ایمان لا کر اور نیک عمل کر کے اپنے خالق کی عبادت کرنا ہے:
"اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں" (51:56)
"...جس نے موت اور زندگی کو (اِس لئے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے..." (قرآن کریم 67: 2)
خدا کی رضا کا حصول ہر مخلص مومن کا مقصد حیات ہے:
"اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے، اور اﷲ بندوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے۔" (2:207)
خدا پر ایمان اور اچھے اعمال کرنا ہماری روح کو فائدہ پہونچاتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ فلاح پانے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی روح کو پاک اور ستھرا کر لیا ہے:
"اور انسانی جان کاور بیشک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا۔ی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم، پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی، بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا۔"(قرآن کریم 10-91:7)
کس طرح خدا کی عبادت کی جائے اور اسے خوش کیا جائے؟
مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ خدا نے قرآن مجید اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے درمیان اس لیے بھیجا ہے کہ ہم یہ سیکھ سکیں کہ کس طرح خدا کی عبادت کی جائے اور اسے خوش کیا جائے؟
"...اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لئے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید،اﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر و جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہے "(قرآن کریم، 16-5:15)
اللہ کا فرمان ہے کہ اگر آپ واقعی اللہ سے محبت کرتے ہیں تو اس کے رسول کی پیروی کریں:
"اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔" (قرآن کریم 3:31)
اعمال صالحہ
اعمال صالحہ میں صدقہ، غلاموں کو آزاد کرنا، نماز ادا کرنا، وعدوں کو وفا کرنا، اور مشکلات کے دور میں صبر کرنا شامل ہیں:
"نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔"(قرآن کریم 2:177)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: لوگوں کے درمیان امن کے لئے کام کرنا صدقہ، روزے اور نماز سے بہتر اور ایک عظیم عمل ہے۔
"کیا تم جانتے ہو کہ صدقہ، روزے اور نماز سے بہتر کیا ہے؟ وہ امن اور لوگوں کے درمیان اچھے تعلقات کو برقرار رکھنا ہے اس لیے کہ جھگڑے اور برے جذبات نسل انسانی کو تباہ کر دیتے ہیں۔"(مسلم و بخاری)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اچھے اعمال اچھے لگتے ہیں جبکہ برے اعمال اچھے نہیں لگتے۔
"نیکی اچھے کردار میں ہے، اور برے اعمال وہ ہیں جو تمہاری روح میں ایک ہلچل پیدا کر دیں ۔" (مسلم)
انسانیت کے لیے ایک انتباہ
قرآن اور احادیث نبوی انسانیت کو اس بات سے خبردار کرتے ہیں کہ وہ اس کی زندگی میں اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہوں گے:
"فرما دیجئے: اللہ ہی تمہیں زندگی دیتا ہے اور پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے پھر تم سب کو قیامت کے دن کی طرف جمع فرمائے گا جس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور جِس دن قیامت برپا ہوگی تب (سب) اہلِ باطل سخت خسارے میں پڑ جائیں گے، اور آپ دیکھیں گے (کفّار و منکرین کا) ہر گروہ گھٹنوں کے بل گِرا ہوا بیٹھا ہو گا، ہر فرقے کو اس (کے اعمال) کی کتاب کی طرف بلایا جائے گا، آج تمہیں اُن اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے، یہ ہمارا نوشتہ ہے جو تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کرے گا، بیشک ہم وہ سب کچھ لکھوا (کر محفوظ کر) لیا کرتے تھے جو تم کرتے تھے۔'' (قرآن کریم 29-45:26)
"تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا" (قرآن کریم 8-99:7)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے احتساب کے اس پیغام کو عام کیا:
"ایک شخص سے قیامت کے دن پانچ (چیزوں) کے بارے میں سوال کیا جائے گا: اس کی زندگی کے بارے میں اور کس طرح اس سے اپنی زندگی گزاری، اس کی جوانی کے بارے میں اور اس بارے میں کہ کس طرح اس نے اپنی جوانی گزاری، اس کے مال کے بارے میں اور اس بارے میں کہ کس طرح اس نے اسے کمایا اور کس طرح اسے خرچ کیا، اور اس بارے میں بھی پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنے علم کے ساتھ کیا کیا؟ "(ترمذی)
"ایک میت اپنے پیچھے تین چیزیں چھوڑ جاتا ہے: اپنے اہل خانہ کو، اپنے مال کو اور اپنے اعمال کو۔ ان میں سے دو اس سے اپنا منھ پھیر لیتے ہیں اور ایک اس کے ساتھ جاتا ہے۔ اس کے اہل خاندان اور دولت اس سے اپنا منھ پھیر لیتے ہیں، اور اس کے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہماری وضع قطع اور ہماری دولت خدا کی نظر میں کامیابی کا معیار نہیں ہے:
"اللہ تعالی تمہارا فیصلہ نہ تو تمہارے چہرے کی بنیاد پر کرتا ہے اور نہ ہی تمہاری مال و دولت کی بنیاد پر کرتا ہے، بلکہ تمہارا فیصلہ تمہارے اعمال کی پاکیزگی کی بنیاد پر کرتا ہے۔" (مسلم)
یہاں تک کہ ہمارے اوپر جو مشکلات نازل ہوتی ہیں ان کا بھی ایک مقصد ہے!
یہاں تک کہ ہمارے اوپر جو مشکلات نازل ہوتی ہیں ان کا بھی ایک مقصد ہے: وہ ہمارے ایمان کی آزمائش ہیں، اور وہ ہماری روح کو پاک بھی کرتے ہیں:
"کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ (صرف) ان کے (اتنا) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی؟" (قرآن مجید 29:2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہےاسے آزمائشوں میں گرفتار کر دیتا ہے، جیسے ایک ہیرے یا کسی کو آگ میں تپایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا برا مادہ اس کے اندر سے نکل جاتا ہے اور ہیرا یا سونا خالص ہو جاتا ہے..."(بخاری و مسلم)۔
ہمیں صبر کرنا چاہیے اور خدا کے وعدوں پر اعتماد رکھنا چاہئے:
"پس آپ صبر کیجئے، بیشک اﷲ کا وعدہ سچا ہے، جو لوگ یقین نہیں رکھتے کہیں (ان کی گمراہی کا غم اور ہدایت کی فکر) آپ کو کمزور ہی نہ کر دیں"۔(قرآن مجید 30:60)
اللہ کی رحمت پر اعتماد کرنا
اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہمیں اللہ تعالی کی مہربانی، نیکی اور رحمت پر توکل کرنا ضروری ہے:
"اور جن لوگوں نے برے کام کئے پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور ایمان لے آئے (تو) بیشک آپ کا رب اس کے بعد بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے" (قرآن کریم، 7:153)
آخرت کی دنیا
مسلمانوں کے لئے زندگی کے ایک مقصد پر یقین آخرت پر ایمان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ہمارا دنیاوی مال باقی نہیں رہے گا، لیکن اللہ کی خاطر ہمارے اعمال صالحہ باقی رہیں گے:
"جو (مال و زر) تمہارے پاس ہے فنا ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے باقی رہنے والا ہے، اور ہم ان لوگوں کو جنہوں نے صبر کیا ضرور ان کا اجر عطا فرمائیں گے ان کے اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے رہے تھے، (قرآن مجید 16:96)"۔
"جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے"۔ (قرآن کریم 57:20)
"ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعۃً کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں"(قرآن کریم، 3:185)
آخرت کی زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب ہم اپنی زندگی بھرکی محنت و مشقت کاپھل اپنے سامنے دیکھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ:"میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ تیار کیا ہے جو کسی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا، اور جو کسی کان نے کبھی نہیں سنا ہو گا، اور کسی انسان کے دل میں کبھی ایسا کوئی تصور بھی نہیں پیدا ہوا ہو گا، لیکن اس کی گواہی خدا کی کتاب دیتی ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی:"سو کسی کو معلوم نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے، یہ ان (اَعمالِ صالحہ) کا بدلہ ہوگا جو وہ کرتے رہے تھے"۔ (مسلم)
URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/islamic-perspective/d/108684
URL for this article: