New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 02:38 AM

Urdu Section ( 22 Jul 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Purity of Halal Food is a Must رِزق حلال کا طیّب ہونا شرط ہے

 

شیخ راشد احمد ( القرآن ٹرسٹ)

رِزق حلال سے معاشرے کی خرابیوں  ہی کی ( بیخ کنی)نہیں ہوتی ، بلکہ  اس سے انسانوں  کے کیریکٹر میں اس قدر پختگی  اور بلندی  پیدا ہوجاتی ہے جس کا انسان انداز ہی نہیں  کرسکتا، اس سلسلے میں  محمو د غزنوی  کی فوج  کا ایک  قصہ  پیش خدمت ہے جوبہت  ہی پر معنی  ہے ۔ جی  ہاں ! یہ وہی محمود  غزنوی  ہیں جنہوں نے  صرف سومنات  کے مندر  کی تلاش میں ہندوستان پر سترہ حملے  کئے تاکہ  سومنات مندر  سے منات   کے بُت کو نیست  و نابود  کردیا جائے ، یہ وہی  لات و منات  اور عزا میں  سے ایک  منات تھا   جسے فتح مکہ  منات کو نیست  و نابود  کرنے کے مقصد سے محمود غزنوی  ایک مرتبہ ہندوستان پر حملہ  کے لئے آئے  تو ان کی فوج  میں ایک بیوہ کا نوجوان  بیٹا بھی سپاہی  تھا ،جب ان کی فوج  فاتح  ہو کر اپنے مرکز پر واپس گئی تو  وہ بڑُھیا اپنے بیٹے  کی تلاش میں سپاہیوں  کے لشکر میں آئی، اس کے بیٹے کے ساتھیوں  نے کہا کہ وہ میدان جنگ  چھوڑ کر بھاگ اُٹھا دشمن کا تیر اس کی پشت پر لگا اور  وہ  مرگیا ، اس بڑھیا نے کہا  یہ تو درست ہوسکتا ہے کہ وہ میدان جنگ  میں شہید  ہوگیا ہو لیکن اس بات کو میں کسی صورت  میں ماننے کو تیار نہیں   کہ میرا بیٹا میدان جنگ سے بھاگ اٹھا  اور اس کی پشت  میں تیر لگا ، یہ کبھی   نہیں ہوسکتا ۔ میرے بیٹے نے دشمن  کے سامنے  کھڑے  ہوکر اپنے  سینے پر تیر  کھایا ہوگا۔ انہوں نے کہا اماں! تم تو میدان جنگ میں تھی  نہیں ، تم یہ بات  اس حتم یقین  کے ساتھ  کیسے کہہ سکتی  ہو؟  اس نےکہا  کہ ا س لئے کہ  میں نے اس کے حلق  میں ‘‘حرام’’ کےدودھ کا ایک قطرہ بھی ٹپکنے نہیں دیا تھا ۔ جس بچے کی پرورش  رِزق حَلال  پر ہوئی ہو  ناممکن ہے  کہ وہ میدان جنگ  میں پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے ۔ بات بڑھتے بڑھتے سُلطان محمود تک پہنچی  ، اس نے تحقیق کرائی تو بڑھیا کی بات سچ نکلی ۔ اس کےسپاہی  بیٹے نے اپنے سینے  پر تیر کھاکر  جان دی تھی ۔ اس کے ساتھیوں نے یہ غلط بیانی ہنسی مذاق کے طور پر کی تھی ۔

یہ قصہ تاریخی اعتبار سے کیسا ہی ہو، حقیقت  کے اعتبار سے بالکل سچا ہے، رزق  حلال سے انسان کے اندر  ،حق گوئی بیباکی اور  جرآت  و شجاعت  کی وہ قوتیں  بیدار ہوجاتی ہیں جن کا ہم  اندازہ  ہی نہیں کرسکتے ۔ اور جو قوم اس قسم  کے افراد پر مشتمل  ہوگی  اسے دنیا  میں کون شکست  دے سکتا ہے ؟ حرام  کی کمائی  سے افراد اور قوم بلند  کی طرف لئے جانے والی صلاحیتوں  سے ہی محروم   ہو جاتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  جس فرد یا قوم کو حرام  کی کمائی  کا چسکا پڑ جائے ، وہ محنت کرنے سے  جی چراتی ہے اور  جب یہ عادت   یعنی محنت  کے بغیر  مال و دولت  حاصل کرنے کی روش پختہ ہو جائے تو محنت  کرنےکی صلاحیت  ہی سلب ( منجمد) ہوجاتی ہے  اور ایسے افراد انسانی  خصائل  سے محروم  ہوجاتے ہیں  ۔ قرآن  حکیم  نے ناجائز  کمائی  کو اِثم کہہ کر پکارا ہے ( 2:188)اِثم  کے معنی  ہیں ایسی  روش  جس سے قوائے  عملیہ (کام کرنے والے اعضاء) میں اضمحلال ( سُستی ،کمزوری) واقع ہوجائے اور انسان اپنے ہم  سفر ساتھیوں سے بچھڑ کر پیچھے رہ جائے،  اسی طرح قرآن  حکیم  نے  ‘‘ میسرہ’’ کو بھی إِثْمٌ كَبِيرٌ ناجائز قرار دیا ہے ( 2:219) ۔ ہمارے ہاں میسرہ  کا عام ترجمہ  جوُا کیا جاتا ہے، یہ ٹھیک ہے جوُا بھی میسرہ  میں شامل  ہے ۔ لیکن اس لفظ  کااطلاق صرف جوئے پر ہی نہیں ہوتا ، اس لفظ  کا مادہ  ( ی۔س۔ر) یسر ہے جس کے معنی  سہولت  یا آسانی  کے ہیں ۔ یہیں سے لفظ یسار ہے جس کے معنی  بایاں ہاتھ  ہے، جس طرح  ہم اپنے ہاں  ہر آسان کام کے متعلق  کہتے ہیں کہ یہ میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے  ، اس سے میسر ہ کے معنی  سمجھ میں  آسکتے ہیں  یعنی وہ  دولت جو محنت  و مشقت  کے بغیر آسانی سے ہاتھ آجائے ، اس میں سارا سرمایہ داری نظام  آجاتاہے ، جس میں محنت اور مشقت کوئی اور کرتا ہے اور سرمایہ دار محض  سرمایہ  کے بل  پر بغیر  محنت و مشقت  اس کے ماحصل  کو سمیٹ  کر اپنے گھر  لے جاتاہے ، اس قسم  کی تمام دولت ‘‘ میسرہ ’’ کے ضمن میں آجاتی ہے، قرآن حکیم  اس یُسر کو جائز قرار دیتا ہے جو عُسر ( محنت و مشقت)کے بعد حاصل ہو،  وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ( 53:39)کا بھی یہی مفہوم ہے یعنی ہر شخص اپنی محنت کے  ماحصل  ہی کا حقدار ہے، لیکن عرب اس لفظ ( میسرہ) کو جوئے کےلئے بھی استعمال  کرتے تھے ، ا سں میں دونوں  باتیں آجاتی ہیں  یعنی عقل  و فکر  کا ماؤف  ہوجانا اور  بلا محنت و مشقت  دولت  حاصل کرنے کی خواہش ۔جوئے میں عقل و فکر کادخل  ہی نہیں  ہوتا اس  لئے اسے (Game of chance) کہتےہیں (chance) کےمعنی   ہوتے ہیں وہ جس  میں انسانی  تدبیر  یا عقل  و فکر  کا کوئی دخل نہ ہو، وہ محض اتفاقیہ ہاتھ آجائے ۔ اسی طرح  ہر وہ کمائی  جو محنت  اور مشقت کےبغیر ( ناجائز طریقے) سے بآسانی حاصل ہوجائے وہ میسر  ہ میں شامل ہوگئی اسی کمائی کےمتعلق بھی یہی کہا گیا  ہے کہ اس سے دولت  تو ضرور  اکھٹی ہوجاتی ہے لیکن اس  سے انسان  کے نفس اور شعور  میں افسردگی  اور سہل نگاری پیدا ہوجاتی ہے جس سے انسان  کے قوائے  عملیہ سست اور کمزور ہوجاتےہیں اور قوائے  عملیہ  کے مفلوج  ہوجانے سے  جو نقصان ہوتاہے وہ اس فائدہ سےکہیں  زیادہ ہوتا ہے جو اس طرح  دولت حاصل  ہونے سے ہوتاہے ۔لہٰذا  مفت  میں ہاتھ آجانے والی  دولت  کے پیچھے  نہ پڑو، بلکہ اپنی محنت  سےکماؤ اس  میں سےکچھ اپنے لئےرکھو  اور باقی سب کو سب نوع انسان  کی پرورش کے لئے کھلا رکھو ۔ناجائز  کمائی سے قومیں اضمحلال  کا شکار ہوکر تباہ  و برباد  ہوجاتی ہیں یعنی  جب کسی قوم  کی قوت  عمل مفلوج ہوجاتی ہے تو وہ  خود کچھ نہیں کرتی اور اپنے آپ  کو فریب  دیتی رہتی ہے کہ وہ دنیا  میں کسی قوم سےپیچھے  نہیں، وجہ صرف یہ ہے کہ حرام  کی کمائی  سےانسانی صلاحیتیں  دبی کی دبی رہ جاتی ہیں ،اس سے ‘‘پر واز میں کوتاہی’’  واقع ہو جاتی ہے  اسی حقیقت  کے پیش نظر  تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا تھا ۔

اے طائر لاہوتی! اس رزق  سےموت اچھی

جس رزق سے آتی ہو، پرواز  میں کوتاہی!

اور جس رزق سے پرواز میں کوتاہی  آجاتی ہو اس رِزق سے علامہ  اقبال رحمۃ اللہ علیہ  کے الفاظ میں موت  ہزار درجے بہتر ہوتی ہے ۔ چوری، فریب دہی،  گراں فروشی، ذخیرہ اندازی ، جیب  تراشی، ،رشوت ستانی ، خیانت  ، بدیانتی یا راتوں  رات کروڑ پتی بن جانے کی ہوس ، یہ سب اثم اورمیسر ہ ( محنت  سے جی چرانے)  کے شجرِ خبثہ  کے نتائج ہیں،اور  ان کاعلاج  صرف رزق حلال ہے ، جو  قوم قرآن  حکیم کے ‘‘ حرام کردہ رِزق یاکمائی’’  کو حرام سمجھ لے  اس کا نظام  زندگی  قیامت  تک محکم  اور استوار رہے گا۔

قرآن حکیم  نےحلال و حرام  سےمتعلق  اُصول یہ بیا کیا ہے کہ دنیا  کی ہر چیز  حلال ہے سوائے ان کے جنہیں  قرآن نے  حرام قرار  دے دیا ہے ۔ لیکن  اس نےحلال  کے ساتھ  طیب  کابھی  اضافہ کیا ہے  كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا ( 2:168)جو زمین  میں ہے حلال  اللہ کے قانون کےمطابق کھاؤ،  رزق حلال و حرام  کے سلسلہ  میں قرآن  نےمتعدد مقامات  پرکہا ہے کہ  وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ ( 5:88)  جو حلال  رزق اللہ  نے تمہیں دیا ہے اسے طیب طریقہ سے کھاؤ اور اس طرح  اس اللہ کے حکم  کی نگہداشت  کرو جس پر تم ایمان لانے کے دعویدار  ہو،رزق  حلال کو طیب  طریقے سےکھاؤ یہ نکتہ غور طلب ہے  ،اسے ایک مثال  سے سمجھئے ،بکّرا  حلال جانور  ہے اگر اسے اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا جائے تو اس کا گوشت حلال  نہیں رہتا  بلکہ حرام ہوجاتاہے،  یہاں تک تو سب مسلمان متفق  ہیں اور اس کی بڑی  احتیاط  برتتے  ہیں ، لیکن سوال  یہ ہے کہ اگر  کسی کا بکّرا چُرا کر اسے اللہ کا نام  لے کر صحیح  طریق  سے ذبح کرلیا جائے تو وہ بکرا حلال  رہے گا؟ قرآن  حکیم کا   فیصلہ ہے  کہ وہ حلال  نہیں رہے گا ،کیونکہ  ناجائز  طریقے سےحاصل کئے  جانے کی وجہ سے یہ طیب ( اللہ کے قانون کے مطابق پسندیدہ )  نہیں رہا، اسی  طرح اگر بکّرا  کسی وجہ سے ذبح کرنے سے پہلے موت کا شکار  ہوگیا تو وہ بکرا حلال ہونے کے باوجود طیب  نہیں رہا  کیونکہ جو چیز قدرتی  حالت پر رہے وہ طیب ہوتی ہے اور جو چیز  اپنی قدرتی  حالت پر نہ رہے اور قدرتی حالت  پر نہ رہنا ہی کسی حلال  چیز کے حرام ٹھہرا نے کی وجوہات  میں سے ایک وجہ ہے کیونکہ وہ طیب نہیں رہتی، لہٰذا جو چیزیں  اپنی اصل  کے اعتبار سے  حلال  ہیں اگر  انہیں  ناجائز طریقے  سے حاصل کیا جائے تو وہ طیب  نہیں رہتیں ، بلکہ حرام ہوجاتی ہیں ۔ حلال کے لئے طیب ہونا بھی شرط  ہے ، ایسا رز ق جو حلال تو ہو  مگر طیب  نہ ہوتو اس رز ق سے انسان  کے حواس بھرپور لطف اندوز  ہوجائیں گے مگر انسان  کا نفس  (نفسیات)برباد ہو جائے گا، نفس کے برباد ہوجانے  کا مطلب  یہ ہے کہ انسان حرام کمائی کے سبب ذہنی بانجھ، سنگ دِل ، مفاد پر ست اور بے حس  ہوکر بدبختی  کی زندگی  کی طرف چلا جاتا ہے ۔ رزق  حلال جو  اللہ کے حکم  کے عین  مطابق ہو وہ طیب ہوگا اس  سے دائمی خوشحالی  اور خو ش بختی کی زندگی  حاصل ہوگی ۔  رز ق حلال  کے ساتھ طیب ہوتو اس  سے انسان  کو زرخیزی حاصل ہوتی ہے اور زرخیز زمین سے اللہ کے قانون  کے مطابق سبزہ اُگتا ہے  ،قرآن  میں طیب  کے مقابلہ  میں خبیث  کا لفظ  آتاہے وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ( 7:58) اور جو زمین خبیث  ( نکّمی) ہو  اس میں ( اول تو سبزہ  پیدا ہی  نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے) تو بہت تھوڑا،  سورۃ ابراہیم  میں  شَجَرَۃٍ طَیِّبَۃ کی تعریف  وہ ہے جس کی جڑیں زمین کے اوپر ہی اوپر ہوں اور ذرا  سا جھٹکا اسےاکھاڑ پھینکے  ( 14:24:26) سورہ مائدہ میں  اللہ  فرماتےہیں  يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ( 5:4) یہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں  کہ اللہ نے ان کے لئے کیا کچھ حلال  قرار دیا  ہے ،ان سے کہو  کہ اس نے طیبات  ( جو اللہ کے حکم کے مطابق  ہوں) کو حلال قرار  دیا ہے،  یعنی ان  حلال چیز وں کو جائز طریقے (اللہ کے حکم کے عین  مطابق) سے حاصل کی گئی  ہوں۔

‘‘حلال اورطیب ’’ کی  جامعیت  کے طور پر قرآن حکیم  میں ہے  يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ( 2:168) اے لوگو! زمین  میں  جو کچھ  حلال  ہے اسے طیب طریقے سے  کھاؤ اسے غیر طیب طریقے سے کھانے سے تم شیطان کے نقش قدم  کی پیروی  کرو گے،  یا د رکھو شیطان  تمہارا کھلا دشمن ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ  ناجائز  طریقے سے حاصل کردہ دولت  سےجو کچھ بھی تم خریدو گے ، وہ اگر اپنی  اصل  کے اعتبار سے حلال بھی ہوتو بھی  حرام ہوجائے گا ،  حلا ل وہی چیز ہوں گی جنہیں حلال کی کمائی  سے حاصل  کیا جائے ۔ اسی کو قرآن حکیم نے وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (8:4) عزت والا رِزق  کہا ہے  فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ( 22:50) پس جو لوگ ایمان لاتے ہیں  اوراچھے عمل کرتےہیں ان  کےلئے حفاظت  اور عزت والا رِزق ہے ، قرآن  حکیم کہتاہے کہ لوگ  کمائی کے ناجائز  طریقے اس لئے اختیار  کرتےہیں کہ  وہ چاہتے ہیں  کہ وہ دولت  سمیٹنے  کی دوڑ ( Race) میں ایک دوسرے سے آگے نکل  جائیں اسے  عربی زبان  میں ‘‘تکاثر’’  کہتے ہیں  جو قرآن  حکیم  کی ایک سورۃ کا عنوان  بھی ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دولت  سمیٹنے  کی دوڑ میں  ایک دوسرے  سے آگےنکل جانے کی ہوس انسان کو زندگی کےصحیح  مقاصد  کی طرف سےغافل کردیتی  ہے او ریہ دوڑ  کہیں ختم نہیں ہوتی  ،یہ قبر تک  ساتھ ساتھ چلتی  ہے۔ ضرورت  کی ایک حد ہوتی ہے لیکن  جب جذبہ  محض دولت سمیٹنا ہو اور اس دوڑ میں  ایک دوسرے  سے آگے نکل  جانے کی ہوس  ہو، تو اُس  کی کوئی  انتہا  نہیں ہوتی ۔وہ انسان کو پاگل کردیتی ہے ۔ یہ وہ پاگل  پن ہے جس میں جائز اور ناجائز کی تمیز  باقی نہیں  رہتی ۔ ایسے لوگوں مقصد  زندگی ‘‘ دولت جمع کرتے چلے جانا اور  پھر اسے   گنتے رہنا ’’ بس  یہ ہوتی ہے ان کی زندگی  ۔ ایسا انسان  اس خیال خام  میں مبتلا رہتا ہے  کہ اس کا مال  اسے حیاتِ  جاوید ( ہمیشہ زندہ رہنے والی زندگی) عطاء کرے گا مگر  یہ بالکل  غلط ہے ، یہ مال اُسے  جہنم رسید  کرکے ریزہ ریزہ  کردے گا ۔ ناجائز  کمائی سے  جمع کر دہ مال و دولت  انسان کو تباہی  سےنہیں بچا سکتا  ، جب تباہی  اس کے سامنے  آئے گی تو وہ کہے گا کہ میں اپنی دولت  کو بڑی قوت  کا باعث سمجھتا تھا لیکن قوت  کا یہی زعم  باطل ( متکبرانہ روش)  مجھے لے ڈوبا اور کوئی یارو مددگار  میرے کام نہ آیا ۔ انسان اکثر و بیشتر  اولاد کی خاطر  کمائی  کے ناجائز  طریقے اختیار  کرتا ہے  یا حاصل  کردہ رزق حلال کو طیب بنانے  کے بجائے شجرہ خبیث بنا لیتا ہے ، اس ضمن  میں قرآن  حکیم  نے کہا ہے کہ یادرکھو ! اس طرح حاصل کردہ مال اور تمہاری  اولاد تمہارے  لے فتنہ بن جاتے ہیں، اس سے بچو ( 8:28) حرام کمائی  کے علاوہ  حلال  کمائی بھی  اگر طیب نہ ہو تو وہ بھی حرام  کمائی بن جاتی ہے مثلا حلال کمائی سے  حاصل کردہ دولت اللہ کے حکم  وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ( 2:3) اور جو رِزق  ( سامانِ نشونما) انہیں دیا جاتاہے اسے نوع انسان  کی پرورش کےلئے کھلا رکھتے ہیں ، جو لوگ اللہ کے اس حکم کے مطابق اطراف میں بسنے والے  انسانوں  کی پرورش  کے لئے حاصل  کردہ رِزق  کو کھلا نہیں رکھتے تو ان کی حلال کمائی بھی حرام  ہوکر نجس  ہوجاتی ہے، اللہ کا وعدہ ہے اللہ کی نافرمانی کی آلودگیوں سے بھرے ہوئے دل و دماغ اور نجس  کمائی پر پلنے اور پروان چڑھنے والےجسم  جہنم  کا ایندھن  بنیں گے حلال و حرام  کی آمدنی  کےسلسلے  میں جو کچھ کہا گیا ہے  اس کا ماحصل  یہ ہے کہ رِزق حلال وہ ہے جو اس طریقے سے حاصل کیا جائے جسے قرآن حکیم  جائز قرار  دیتا ہے اور اسے حق  کہہ کر پکار تاہے اور رِزق  حرام  وہ ہے جو ناجائز طریقوں سے حاصل  کیا جائے اسے باطل  کہتاہے  ، حق و باطل کے متعلق اس کا فیصلہ  یہ ہے کہ  ‘‘ حق باقی رہتا  ہے اور باطل مٹ جاتاہے’’ باطل کے جواز میں انسان  کتنے  ہی عذر پیش کرے وہ قابل قبول  نہیں ہوسکتے کیونکہ اللہ انسان کے دل میں چھپے  ہوئے خیالات  تک سے واقف  ہے ،لہٰذا اللہ پر ایمان  رکھنے والے حرام کمائی  کا خیال تک بھی دل میں نہیں لاسکتے ، ہمارے ہاں اس قسم کی بحثیں  تو عام  ہوتی ہیں خنزیر اور شراب حرام ہے،  کاش اس قسم کی بحثوں  میں الجھنے والے  مولوی  مسلمانوں  کو یہ بھی بتاتے کہ ناجائز و حرام کمائی سے خریدی  ہوئی حلال اشیاء بھی حرام   ہوجاتی ہیں ،اسی طری کا حرام ج سپر خنزیر کا گوشت اور ہر طرح  کی نشہ آور اشیاء حرام ہیں، جس دن یہ حقیقت  مسلمانوں  کا جزوِ ایمان بن جائے گی  ہمارے معاشرے سے یہ بد عملی  ( Corruption) اور اس سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا خاتمہ  ہوجائے گا۔  اس کے سوا اصلاح ِ معاشرہ  کی کوئی اور صورت  نہیں ۔ اللہ  تعالیٰ کے قوانین  مقرر ہیں ،  ان قوانین   کے مطابق اقوام  یا افراد از خود اپنے غلط  اعمال  کے باعث عذاب  میں مبتلا  ہوجاتےہیں ۔ یعنی  اقوام  یا افراد  سے غلط اعمال  سرزد ہوجانے  پر وہ اللہ  کے مقرر کردہ قوانین کی زد میں آجاتی  ہیں ۔

ایک مسلمان کتنا ہی گیا گزرا فاسق  وفا جرکیوں نہ ہو وہ  سور کے گوشت  کو حرام سمجھے گا ، وہ اسے کبھی نہیں  کھائے گا ، اس پر ہزار  سختی  کی جائے یا کتنا ہی  بڑا لالچ  کیوں نہ دیا جائے ، وہ اس کے قریب  تک نہ جائے گا ، سور کےگوشت  کا کھانا تو ایک طرف ،وہ اس کا  نام سننا گوارانہیں  کرے گا۔ اس کے تصور  سے اُسے  جھر جھری  آجائے گی، سوال  یہ ہے کہ جس طرح سور کے متعلق  ہمارا ردِ عمل  یہ ہے کیا  ناجائز  کمائی  کے متعلق بھی ہمارا  رَدِ عمل اس قسم  کا ہے؟  قطعاً نہیں ! حالانکہ جس اللہ  نے سور کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے، اس ہی اللہ نے ناجائز کمائی اور  جمع کردہ مال  کوبھی حرام قرار دیا ہے ، تو کیا یہ بات  حیرت کی نہیں  کہ ایک حرام  کے متعلق تو اس  قدر شدید ردِ عمل  اور دوسرے حرام  کے خلاف ردِ عمل  تو کجا ، اس کے حرام ہونے کا احساس تک نہیں رہا ؟ آج کل حرام کمائی  میں رشوت  کا نام سرِ فہرست ہے اس کا چلن ایسا  عام ہوگیا  ہے کہ آپ  نےاچھے اچھے  لوگوں کو یہ  کہتے  سنا ہوگا کہ کیا کیا جائے آج کل رشوت  اور سود کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں  ! جو لوگ سور کو حرام سمجھتے ہیں  ،وہ ہی لوگ رشوت ، سود اور دیگر  ناجائز  کمائی سے اپنے پیٹ  بھررہے ہیں او ر انہیں کبھی اس کا احساس نہیں ہوتا  کہ ہم حرام کھارہے ہیں  ۔ پاکستانی معاشرہ  اپنی شدید  بد عملی  او رمالی  بد عنوانی  کے سبب اللہ  کے مقرر  کردہ عذاب  میں مبتلا  کرنے والے قوانین  کی زد میں  ہے، فاحشہ اور منکرات  ( بخل و سرکشی او رعقل  کی فریب  کاریوں) کی کون سی شکل ہے جو  پاکستان  کے لوگوں  میں موجود  نہیں، ہر وہ بات  جو خوش آئند نہ ہو جیسے  دل قبول نہ کرے  اور انسان  کی طبیعت  پر ناگوار گزرے یہاں   موجود ہے ۔یہ لوگ خاص طور پر حرام  کمائی  تو شیر مادر کی طرح  حلال و طیب سمجھ کر رکھا ہے ہیں ۔ سیاست دان ہوں  یا سرکاری اہل کار، بڑے تاجرہوں  یا چھوٹے  ، کوئی ڈاکٹر ہو  وکیل یا مذہبی پیشوا  سب  کے سب  حرام کی کمائی  کمانے  میں پوری  قوت سےلگے ہوئے  ہیں نوبت  یہاں تک  آگئی ہے کہ جو مذہبی علما ء بینکوں کے پے رول پر ہیں،  جنہیں بینک  بڑی بڑی تنخواہیں   ، چند ے اور دیگر بڑے بڑے مراعات  دے رہا ہے انہوں نے اپنے فتوں سے  ربوٰ ( سود) جیسی  قطعی حرام شے کو حلال  و طیب  قرار دے دیا ہے ۔ اللہ  کے احکامات  کی نافرمانی اور حرام کی کمائی  سے بالآخر  جو نتائج  مرتب ہوتےہیں وہ  ہماری آنکھوں  کے سامنے  ہیں، معاشرے سے حرام   و حلال کی تمیز  اُٹھ جانے کے سبب  معاشرے کے ہر شخص  پر مردنی چھا گئی  ہے اور انسانی  رشتوں  کی پیوستگی  ناکارہ  ہوکر وہ گئی ہے جس  کے سبب پورے  پاکستان میں بڑے بےدردی سے انسانی  خون بہہ رہا ہے ، پورا معاشرہ جہنم کی آگ میں   جل رہاہے ، معاشرے  میں پھیلے  ہوئے عذاب سے کوئی شخص محفوظ  نہیں ۔  معاشرے  میں پھیلے ہوئے اس  فساد اور  اس کے نتیجے  میں جاری عذاب  کو روکنے  کی کسی  بڑے سے بڑے دانشور کو کوئی  تدبیر  او رکوئی صورت  ہی نظر نہیں آرہی ہے،  قرآن کےمطابق  معاشرے میں جاری عذاب کو روکنے  کی صرف اور صرف ایک ہی صورت  ہے اور وہ یہ ہے کہ  ، پاکستان  میں رہنے والے اور ہر پیشے سے وابستہ  افراد اپنے اپنے مقام پر ‘‘رِزق حلال و طیب ’’ کمانے او رکھانے تک محدود  ہوجائیں ۔

مال و دولت  شکل و صورت  کے اعتبار سے ہر جگہ  او رہر ایک کے پاس ایک جیسا  ہوتاہے فرق  یہ ہوتا ہے کہ نا جائز  مال  ( رزق حرام ) کے استعمال  پر اللہ کی طرف  سے پابندی  عائد ہے اور جائز مال ( رزق حلال)  کے استعمال  پر کوئی  پابندی  نہیں ، تو کیا یہ  افسوس  کی بات نہیں  کہ جو مال  و دولت  حرام ہے اسے انسان استعمال کرتارہے،  مومن کا یہ شعار نہیں وہ اللہ  کی طرف سے عائد کردہ ہر  پابندی کی یکساں نگہداشت  کرتا ہے ۔ جو لوگ  اللہ کے حرام  کردہ کو پسِ پشت ڈال  کر حرام و حلال  کی اپنی  فہرستیں  تیارکرلیں اور اس طرح اللہ  کے اختیارات  کو اپنے  ہاتھ میں  لے لیں اور  انہیں دنیاوی  مفاد حاصل کرنے کاذریعہ  بنالیں  تو وہ بظاہر  کتنے  ہی خوش حال  اور خد وخال  سے مقدس  کیوں نہ دکھائی دیں، یوں  سمجھو کہ وہ سامانِ  زندگی  نہیں کررہے  بلکہ جہنم  کے انگاروں  سے اپنا پیٹ  بھر رہے ہیں،  آج تو ایسے لوگ  بہت خوش اور فخر یہ انداز  میں زمین پر پھررہے ہیں  ، لیکن  ظہور  نتائج  کے وقت اللہ  ان سے بات تک نہیں کرے گا،  یہ بڑا ہی الم  انگیز عذاب  ہوگا روز محشر انہیں اس  کا احساس  اور اندازہ ہوگا کہ انہوں ن شرف انسانیت  کوجس حرام کی کمائی  کے بدلے بیچا وہ  کس قدر حقیر او رکم حیثیت  تھی ۔ ایسے لوگ عذاب  میں اس لئے مبتلا  ء کئے  جائیں گے  کہ انہوں نے  اللہ کی متعین  کردہ  سیدھی راہ  کو بیچ کر غلط راستوں کو خرید ا، اللہ  کی حفاظت  کے بدلے میں تباہیاں  خریدیں ۔ ذرا سوچئے  کہ سب کچھ دیکھتے بھالتے  جہنم کی  طرف بڑھے ہی چلے  جانا، انسان کی کتنی بڑی  دیدہ دلیری  ہے، ہم نافرمان لوگ اپنی قوت برداشت کے متعلق  کس قدر غلط فہمی  میں مبتلا  ہیں ،  اس کا کس  قدر غلط اندازہ لگا رہے ہیں  ہم اس عذاب  او رتباہی کا مقابلہ کرہی ہیں کرسکیں گے ۔ قرآن کہتا ہے  وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ( 5:87) حد سےنہ بڑھو اللہ حد سے بڑھنے والوں  سے محبت  نہیں رکھتا ،  اللہ نے  اپنی مقرر  کردہ حد سے بڑھ جانے  والوں کو انسان نماپتھر (سخت دل) کہاہے او رکہا  ان انسان  نما پتھروں سے جہنم  بھردو ں گا۔

جون ، 2014  بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق، کراچی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/purity-halal-food-/d/98242

 

Loading..

Loading..