شیخ راشد احمد
ایک مفکر قرآن بات سمجھانے کے لئے ایک تمثیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘‘ بلا کی کالی رات تھی سامنے پہاڑ کی پگڈنڈی سے دو آدمی نیچے اُتررہے تھے، ایک کے پاس روشنی تھی اور اندازے سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ دوسرے شخص کو راستہ دکھانے کی غرض سے ساتھ چل رہا ہے ، دوسرے آدمی نے کہا بھائی ! روشنی میرے آگے آگے رکھو تاکہ میرے سامنے کا راستہ روشن ہو، روشنی پیچھے رکھنے سے تو اُلٹا خود میرے سائے سے راستہ تاریک تر ہو تا چلا جارہا ہے ۔ پگڈنڈی بل کھاتی ہوئی جارہی تھی ، تھوڑی دیر میں وہ دونوں نظر سے اُوجھل ہوگئے، پھر وہی تاریکی اور وہی سناٹا تھا، لیکن اس جانے والے کا فقرہ ابھی تک میرے دماغ میں گونج رہا تھا، میں نے سوچا کہ روشنی کامقصد یہ ہے کہ وہ تاریکیوں کے پردے کو چاک کرتی چلی جائے، لیکن یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ روشنی کو اس کے صحیح مقام پر رکھا جائے ، اللہ رب عالمین نے اپنے آخری رسول کے قلب پر اپنا آخری پیغام بذریعہ جبریل ( انسان کی ہر شکستگی کو قوانین کی کپھچیوں (Splints ) میں رکھ کر جوڑ نے والا) نازل کیا ، قرآن حکیم کو تصریف آیت سے پڑھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ نے اپنے پیغام کے مجموعہ قرآن حکیم کو کہا ہے۔ اور اُس پیغام کو جن صالح کردار افراد نے قبول کیا اُ س انسانی گروہ کو اللہ نے خیر اُمت کے منصب پر فائز کیا اور اُن کو حکم دیا۔
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (110۔3) تم خبر کا مآخذ ( سرچشمہ) رکھنے والے لوگ ہو تم نکلو نوعِ انسان کی خیر کے لئے ظلم کے خلاف خروج اپنا عین دینی فریضہ سمجھو، تم پیش قدمی کرو تمہیں انسانوں کو ہلاکت اور تباہی کے عمیق غاروں سے بچانے کے لئے ایک مشعلِ ہدایت ، ایک سراج منیر ، ایک نورِ مبین عطا کی گئی ہے، تم اِ س سرچشمہ ہدایت کو اپنی زندگی کے ہر معاملے میں پیش پیش رکھو، اور زندگی کےہر شعبہ میں جو بھی قدم اُٹھاؤ اِس کی روشنی میں اُٹھا ؤ تاکہ نسلِ انسانی راستے کی پرُ خطر گھاٹیوں سے محفوظ رہتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچ جائے ۔ ‘‘ اُمت’’ صحیفہ آسمانی کی روشنی میں عملی اقدام اُٹھانے والے انسانوں کے اُس گروہ کو کہتے ہیں جو صحیفہ آسمانی کے عظیم مآخذ سے احکامات اخذ کر کے نسلِ اِنسانی کی امامت کرے۔ مگر جب اُمت کے منصب پر فائز انسانی گروہ کی نظر میں وحی کی روشنی کے مآخذ ( سرچشمے) آسمانی صحیفے کی اہمیت نہ رہے اور وہ اُس مآخذ کو پسِ پشت ڈال دے تو وہ انسانی گروہ جو وحی کو خَیْرَ اُمّۃ (خیر کے مآخذ؍ منبع) ماننے کی نسبت سے ‘‘خیر اُمت’’ کے معصب فضیلت پر فائز کئے گئے ہوں،اُن کی اُس خیر اُمت کے منصب سے معزولی عمل میں آجاتی ہے۔
اللہ فرماتے ہیں قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (16۔15۔5) اور تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور یعنی ایک کتابِ مبین آئی ہے جس کے ذریعے اللہ ایسے لوگوں کو جو قانونِ ربانی کا اتباع کریں، سلامتی کی راہ بتاتا اور انہیں اس کتاب کی روشنی میں ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔ لیکن اگر لوگ اِس روشنی کو بجائے سامنے رکھنے کے جس سے اُن کاراستہ روشن ہونا ہے، اپنے پیچھے رکھ چھوڑ یں تو ظاہر ہے کہ قطع شدہ منزل ( جس راستے سے وہ گزر کر آئے ہوں وہ)وہ تو ضرور درخشندہ تابناک نظر آئے گی، لیکن سامنے کا راستہ پہلے سے بھی زیادہ تاریک ہوجائے گا، اس لئے تنہا عقل کی دھندلی سی روشنی میں عام طور پر جس قدر راستہ نظر آسکتا ہے اس طرح وہ بھی اُن کے اپنے سائے سے ظلمت ناک (تاریک ترین) ہوجائے گا، یہی مطلب مندرجہ ذیل آیت مبارکہ کاہے جس میں سابقہ اُمت کے متعلق کہا گیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی کتاب کو پیٹھ کے پیچھے رکھ چھوڑ ا تھا تاکہ ان کا ماضی درخشندہ رہے لیکن مستقبل خوفناک حد تک تاریک ہوجائے۔
وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (101۔2) اور جب اِن کے پاس من جانب اللہ وہ رسول آیا جو سچ کر کے دکھاتا ہے اُسے جو کتاب اُن کے پاس ہے تو اہل کتاب کے ایک فریق نے خود ‘‘ کتاب اللہ ’’ ہی کو پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا، جیسا کہ انہیں کچھ علم ہی نہیں ۔ سابقہ اُمت جو بعد میں یہودی کہلائی اُن کا جرم کیا تھا؟ یہی ناکہ اُنہوں نے وحی کو پسِ پشت ڈال دیا تھا اور جب اُن سے کہا گیا کہ آؤ اِس مقدس روشنی کو اپنی زندگی کا نصیب العین بناؤ جس سے تمہارا حال اور مستقبل روشن ہوجائے اور تمہیں نظر آجائے کہ صحیح راستہ کون سا ہے، تمہیں تو تمہاری اندھی تقلید نے غلط راستے پر ڈال رکھا ہے ، تو اُنہوں نے وحی کی روشنی کو قبول کرنے سے انکار کردیا او رکہہ دیا کہ جس ڈگر پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں وہی صراط مستقیم ہمارے لئے کافی ہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (170۔2) اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو نازل کیا ہے اِس کی اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اِس طریقے پر چلیں گے جس پر ہم نےاپنے باپ دادا کو پایا ہے، اگر چہ اِن کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت ۔ یہی چیز ہے جسے اس اگلی آیت میں اللہ رب العالمین نے کفر سے تعبیر کیا ہے وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً ۚ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (171۔2) جو شخص کفر کرتا ہے اِس کی مثال اِس شخص کی طرح ہے جو ایسے (جانور) کے پیچھے چلا جارہا ہو سوائے بُلا نے اور پُکارنے کے اور کسی بات کو نہیں سمجھ سکتا ( اسی طرح یہ لوگ بھی ) بہرے ہیں، گونگے ہیں اندھے ہیں اور نہیں سمجھتے ۔ تقلید کی یہ راہ انسان کو حیوان کی سطح پر پہنچادیتی ہے جو عقل و فکر سے کام لینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے یعنی اِن کی اور اِن کے پیشواؤں کی مثال یوں سمجھئے کہ بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ ہے جس کے پیچھے چرواہا ہے، چرواہے نے اپنے بڑے بوڑھوں سے کچھ آوازیں سیکھ رکھی ہیں ‘‘ بلا الفاظ’’ اور کچھ الفاظ یاد کر رکھے ہیں ‘‘بلا مطلب’’ وہ یہ آواز یں نکالتا ہے اور اِن الفاظ کامطلب کیا ہے، اور نہ ہی بھیڑ بکریاں اِن آوازوں کے علاوہ کچھ اور سمجھنے کے قابل ہوتی ہیں ۔
کفر اِسی روش کا نام ہے کہ جو چیز جس مصرف کے لئے دی گئی ہے، اُسے اُس مصرف میں نہ لایا جائے مثلاً آنکھیں دیکھنے کے لئے ہیں اور اُن سے دیکھا نہ جائے، کان سننے کے لئے ہیں اور اُن سے سنانہ جائے، زبان بولنے کےلئے ہے اور اُس سے بولا نہ جائے اور عقل تجزیہ کرنے کے لئے ہے اور اُس سے حق اور باطل کا تجزیہ نہ کیا جائے ، صحیح مصرف کی دوسری مثال یہ کہ اللہ ربّ العالمین کے عطا کردہ مال و دولت اور دیگر نعمتوں کا صحیح مقصد اور مصرف یہ ہے کہ اسے نوعِ انسان کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جائے، لیکن جو قوم اجتماعی طور پر یا جو لوگ انفرادی طور پر اس کے برعکس مال و دولت کو دبا کر چھپا کر رکھتے ہیں اور اِن نعمتوں کو صحیح مقصد اور مصرف میں نہیں لاتے انہیں قرآن حکیم نے کفار قرار دیا ہے۔
الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا (37۔4) یعنی وہ لوگ جو بخل ( کنجوشی؍ تنگ دِلی) کرتے ہیں اورلوگوں کو بخیلی (بخیل ؍ خسیس بننے) کی تعلیم دیتے ہیں اور اُس چیز کو چھپاتے ہیں جو اللہ نےاپنے فضل سے انہیں دے دی ہے او رہم نے ایسے کفار کے لئے ذلت آمیز عذاب مقرر کر رکھا ہے۔ قرآن حکیم نے انفاق ( کمزور انسانوں کی ضروریات زندگی مہیا کرنے) کی تاکید اور بخل (کنجوسی) کی مذمت کو مختلف انداز میں پیش کیا ہے، انسان اپنی محنت کی کمائی کو اللہ کے حکم کے مطابق ، نوع انسانی کی پرورش عامہ کے لئے کھلا رکھے یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، یہی تقویٰ ہے اسی سے دنیا کے مشکلات حل ہوتی ہیں اور اسی سے انسان کی آخرت سنورتی ہے، لہٰذا اپنی زندگی میں قرآن حکیم کو اِ س کی صحیح جگہ پر نہ رکھنا ہر معاملے میں خالی الذہن ہوکر اِس کی روشنی میں قدم نہ اُٹھانا قرآن کی نظر میں کفر ہے ایمان نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ‘‘ کتاب اللہ ’’ کو پسِ پشت ڈالنے یا پشِ پشت رکھنے کا مطلب کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی مسلمان ایسا نہیں ملے گا جو اس بات کا اعتراف کرے کہ اِس نے قرآن حکیم کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے یا اِس کا قرآن حکیم پر ایمان نہیں ہے، لیکن قرآن صرف زبانی اعتراف کو کوئی وقعت او راہمیت نہیں دیتا، اس کے نزدیک کی صداقت کاثبوت یہی ہے کہ انسان کےکام اور معاملات اِس اعتراف کی شہادت دیتے ہوں۔ مثلا دیکھئے وہ اہل ایمان کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اگر تم اللہ کی واضح ہدایت کےباوجود ہدایت کی مخالف سمیت میں قدم اٹھا کر ‘‘ الرِّبوا’’ میں الجھ گئے تو تمہارے لئے بھی وحی جہنم ہے جو کفار کےلئے تیار کی گئی ہے یعنی اُس آگ سے ڈرو جو اللہ کی آیات ؍ احکام کو نظر انداز کرنے والوں کے لئے تیا ر کی گئی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (130۔3) اے ایمان والوں ! ربو مت کھاؤ دوگنا کئے ہوئے اور اللہ سےڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔ یعنی اے جماعتِ مومینن ! تم ربو کے ( سرمایہ دارانہ) نظام کو اختیار نہ کر لینا تم ہمیشہ اللہ کے احکام کی نگہداشت کرنا، یہی کامیابی کی راہ ہے، اگر تم نے محنت سے دولت پیدا کرنے کے بجائے سرمائے کے زور پر دوسروں کی محنت کی کمائی غصب کرنا شروع کردی تو ہر اُس قو م کی طرح جو احکام رَبّانی کی مخالفت کرتی ہے، تمہارا معاشرہ بھی جہنمی معاشرہ بن جائے گا، لہٰذا تم غلط طرز زندگی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو اور اللہ کے اُس نظام کی اِطاعت کرو جسے اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متشکل کر کے دکھا یا تھا، اس سے تمہاری انسانی صلاحیتوں کی صحیح نشو نما ہوسکے گی اور اِس قرآن کے ذریعے اپنے رَب کے سائے حفاظت میں جلدی پہنچ جاؤ اور رَب کی اُس جنت کو حاصل کر لو جو کائنات کی پستیوں او ربلندیو ں میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے، جنت صرف اُن لوگوں کے لئے ہے جو اللہ کے احکام کی نگہداشت کرتے ہیں۔
عام طو ر پر آپ کو دو قسم کی جماعتیں ملیں گی، ایک وہ لوگ جو دنیا میں صحیح اور غلط کا معیار اپنی مفاد پرستیوں ہی کو سمجھتے ہیں ۔ زندگی میں پیش آنے والے ہر معاملے کا اپنی مصلحت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں او راِنہی فیصلوں کے مطابق عمل پیرا ہوتے ہیں چونکہ یہ لوگ اپنی عقل کا بیجا اور ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اس لئے انہیں ظالم کہا گیا اور اِن کے متعلق ارشاد ہوا بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ فَمَن يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ (29۔30)
لیکن اِن ظالموں نے بغیر علم و دلیل اپنی خواہشات کا اتباع کر رکھا ہے، سو جو گمراہ ہوجائے اُسے کون راہِ راست پر لاسکتا ہے، ان کا کوئی مدد گار نہیں ہوسکتا ۔ چونکہ تنہا عقل کے فیصلے یقینی ، روشن اور صاف شفاف (Crystal Clean/Clear ) نہیں ہوتے کیونکہ اِنسانی عقل فی الحقیقت انسان کی خواہشات کی لونڈی ہے یا اِن خواہشات کو پورا کرنے یا اِنہیں بروئے کار لانے کا ایک آلہ ہے ۔ اِس کاکام یہ ہے کہ وہ اِن مقاصد اور ذرائع کو ہمارے لئے مہیا کردے جنہیں ہمارا نفس ( ہماری سوچ و فکر) ہمارے لئے تجویز کررہا ہے او روہ بھی اِن انداز سےکہ جو ہمارا نفس غیر شعوری ( بغیر غور و فکر ) طور پر کرناچاہے اور عقل اِس کے جواز میں دلائل تراش دے۔ اس لئے قرآن حکیم نے یقینی اور حقیقی علم ‘‘ علم الکتاب’’ کوکہا ہے جو علم الکتاب نہیں رکھتا یعنی جس علم کی پشت پر اللہ کی کتاب نہیں ہوتی، اس کے متعلق کہا کہ وہ علم محض قیاس آرائیاں کرتا ہے اور انسانی خواہشات کا پیروکار بنتا ہے ، وہ ذہنِ انسانی فریب کاری سےطرح طرح کی منطقی موشگافیوں اور قسم قسم کی فلسفیانہ نکتہ آفرینیوں کے حلقہ دامِ فریب میں اُلجھتا رہتا ہے اور حقیقت (Factual Realities ) اِس کے سامنے کبھی بے نقاب نہیں ہوتی ۔
وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (78۔2) اور اِن میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو کتاب کاعلم تو کچھ نہیں رکھتے سوائے اس کی لفظی تلاوت کے یہ لوگ محض قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن ظن (قیاس آرائی ؍ اندازہ Presumptions ) حقیقت کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ (36۔10) اور ان میں سے اکثر محض ظن کا اتباع کرتے ہیں، اور یقیناً ظن ، حق کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا اور اللہ اِن کے کاموں سے واقف ہے۔ خیر اُمت کا لقب جو کبھی صرف کا نبوت کاحصہ اور جزو تھا ، ظن کے سبب اب محض ایک گروہی شناخت بن کر رہ گیا ہے۔
جس طرح سابقہ اُمتیں جو اپنے ظن کے سبب محض یہودیت یا عیسائیت کی قومی شناخت کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ بیٹھے تھے ، اب مسلمانوں کے یہاں بھی یہ ظن (خیال اور قیاس آرائی ) عام ہے کہ ہر مسلمان دیر یا سویر ، سزایافتہ یا انعام یافتہ ، گھوم پھر کر بالآخر جنت ہی میں پہنچے گا۔ حالانکہ قرآن نے واضح الفاظ میں ظن پر مبنی محض گروہی شناخت کے فخر ، یقین اور تصور ( Credibillity ) کو یہ کہہ کر ساقط یعنی رد ( Reject) کردیا ہے وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (135۔2) کہ اُس اللہ کو نہ تو یہودیت مطلوب ہے، نہ ہی عیسائیت اور نہ ہی موجود مسلمانی ۔ بلکہ اُس کامطالبہ ‘‘ مِلَّۃَ اِبْرٰھمَ حَنِیْفًا ’’ کا احیا ء ہے ، وحی ربانی جو عہد رسول میں منتشر اور متفرق انسانیت کو وحدت میں پروتی تھی ،جو بر ملا اِس بات کا اعلان کرتی تھی کہ تمام سابقہ پیغمبر اور ان کے صالح صفات پیروکار ایک ہی کاروانِ ’ لآَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے رُکن ہیں، نوح علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام ، لوط علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام ، اسمٰعیل علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، یونس علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام ، اِدریس علیہ السلام، صالح علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام ، یہ سب کے سب اُن صالح صفات کے حامل افراد کی جگمگاتی کہکشاں ہیں ۔ جو زندہ ضمیر صفات افراد کے اِس کارواں میں شامل ہونا چاہتے ہوں ان کےلئے ممکن نہیں کہ وہ تمام سابقہ ‘‘ ملت ابراہیم حنیفا ء ’’ سے لا تعلقی کا اظہار کریں بلکہ قرآن کے اِس اِعلان نے کہ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ (285۔2)
ہم رسولوں میں سے کسی میں کچھ فر ق نہیں کرتے۔ہر قوم اور ہر خطے کے مسلم حنیف کو ایک وحدت میں پرو دیا ہے ۔ یہودیوں کا نسلی تفاخر ہو یا عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ نجات صرف اِن ہی کے فرقے سے وابستہ ہوجانے میں ہے ، قرآن کے اِس آفاقی دعوت کے تناظر میں اپنا وزن کھو چکا ہے۔ قرآن کااصرار ہے کہ یہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ئی نئی دعوت یا نیا دین لے کر نہیں آیا اور نہ ہی یہ کوئی نئی اُمت بنانا چاہتا ہے، بلکہ اس کا کام دین براہیمی کا احیا ء ہے ۔ وہی ابراہیم جو ہر دور کے مسلم حنیف کے لئے ایک لائق اتباع مثال ہے۔ قرآن کے مخاطب ہونے کا یہ انداز دُنیا میں موجود مختلف فرقوں اور گروہو ں میں پائے جانے والے مسلم حنیف کو جوڑ نے کی ایک کامیاب کوشش ہے جس کی قیادت پر اب تاریخ کے آخری لمحے تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فائز کیا گیا ہے 23 سالوں کی مختصر نبوی زندگی کی حیرت انگیز کامیابی کی کنجی (Key) اسی وسیع النظر قرآنی میں ہے۔
لیکن افسوس یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح مسلمانوں نے بھی یہ سمجھ رکھا ہے کہ مسلمان چونکہ ‘‘ خیر اُمت ’’ ہیں ، حالانکہ مسلمانوں کو خیر اُمت کے منصب فضیلت سے در بدر ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں پھر بھی یہ اب تک پچھلی اُمتوں کی طرح اِس خوش فہمی اور خبط میں مبتلا ہیں کہ خیر اُمت کے لقب کے سبب رحمت مغفرت اِن کے لئے لکھ دی گئی ہے ، وجہ یہ کہ جس طرح حضرت اِبراہیم علیہ اسلام بنی اسرائیل کی نجات کے لئے تلمودی لٹریچر میں محترک نظر آتے ہیں تو مسلمانوں کے یہاں بھی بخاری او ر ترمذی لٹریچر میں محمد رسول اللہ کو شافع محشر قرار دیا گیا ہے، حالانکہ آسمانی صحیفو ں میں انعامات و مغفرت کا وعدہ ، نام نہاد مسلمان ، نصاریٰ یا اہل بہبود کے لئے نہیں بلکہ نبی کے مقصدِ حیات اُس کے کام اور پیغام کو جاری رکھنے والوں کےلئے ہے۔ لیکن جو لوگ کار نبوت کو محض نظریاتی علامت یا نشان بنا ڈالیں اِن کے لئے اللہ کے انعامات اور وعدوں میں اپنے لئے ایسی گنجائش پیدا کر لینا کچھ مشکل نہیں ۔ حالانکہ قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر ، مختلف اندازِ بیان میں اِس مفروضہ جانبداری کو رد (Reject ) کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے انعامات کےمستحق صرف اصحاب عمل ہیں نہ کہ کوئی فرقہ اور نہ کوئی مخصوص قوم ۔
وحی جو مشعل ہدایت، سراج منیر ، نورِ مبین اور ھدی للناس ہے اس کا اصل فریضہ تو یہ ہے کہ وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی راہیں منور کرے۔ وحی کی روشنی آگے آگے کچھ اِس طرح انسان کی رہنمائی کرے کہ ظلمات سے نور ( اندھیروں سے روشنی) میں داخلے کاسفر بحسن و خوبی انجام پائے ، ‘‘ کتاب اللہ’’ کا یہ مقام ہر گز نہیں کہ وہ تاریخ اور فقہ کی اتباع کرے یا اِن کے پیچھے چلے ۔ آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دین اسلام قرآن حکیم کے ذریعے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (3۔5)
اس لئے اصولی طور پر دین کی تشریح و تعبیر کا خَیْرَ اُمَّۃ ( مآخذ؍ سر چشمہ) صرف اور صرف آسمانی صحیفہ قرآن حکیم ہی ہے اور دِین اسلام کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ‘‘ کتاب اللہ ’’ سے روشنی اخذ اور طلب کی جائے اور اپنی طرف سے تمام تر کیبیں اور تمام قوت دُنیا کے حالات کی اصلاح کی آگ میں جھونک دی جائیں ۔ یہی دِین اسلام ہے اور یہی وحی کی روشنی کامقصد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا غور کیجئے فقہ کا یہ اصول اربعہ جس میں قرآن مجید کے بالمقابل روایات و آثار ، اجماع اور قیاس کو بھی یکساں اہمیت دی گئی ہو اور ان تینوں ظنی مآخذ کو بھی کتاب اللہ کے لازوال ماخذ کی طرح تعبیر و تدوین میں معتبر جانا گیا ہو، بھلا کسی ایسے منہج سے اختلافات کے علاوہ اور کیا بر آمد ہوگا ۔ واقعہ یہ ہے کہ ان ظنی مآخذ نے کتاب ہدایت کی تجلیوں پر التباسات کی شدید دھند قائم کر رکھی ہے ۔ قرآن مجید جو وحی ربّانی کالازوال ، غیر محرف اور حتمی وثیقہ ہے بسا اوقات تاریخ و آثار اور اجماع و قیاس کے تابع ہوکر رہ گیا ہے۔ جب تک اس غیر علمی منہج کو چیلنج نہیں کیا جاتا اور کتاب ہدایت کی غیر مشروط حتمی حیثیت بحال نہیں ہوتی کسی نئی ابتدا کاخیال پرانے از کارِ رفتہ خیالات کی بے لذت جگالی پر منتج ہوگا اور ہم خود کو ایک گردشِ محوری میں مبتلا پائیں گے۔
نومبر، 2013 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-light-revelation-/d/24407