شیخ محمد عبداللہ مکونجا
20 جون 2013
( ا نگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
رواداری اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ یہ ایک مذہبی اخلاقی فریضہ ہے۔ اسلام، یہودیت اور عیسائیت کی طرح، انبیاء اور خدا کے رسولوں میں یقین رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے، پہلی جنگ عظیم کے بعد اس وقت کے واقعات نے مغربی دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جہاں اسلام دہشت گردی کے ایک مذہب کے طور پر جا نا جاتا ہے ، اور عام طور پر مسلمانوں پر دہشت گرد کا لیبل لگا یا گیا ہے ۔ تاریخ کی کتابیں خاص طور پر مستشرقین مسلمانوں کی تصویر ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار کے ساتھ پیش کرنا چاہتے ہیں۔
عدم برداشت آج دنیا میں عروج پر ہے جس کا نتیجہ موت، نسل کشی، تشدد، مذہبی ظلم و ستم اور ساتھ ہی ساتھ مختلف سطحوں پر تصادم بھی ہے۔
کبھی کبھی یہ نسلی ہوتا ہے، کبھی کبھی یہ مذہبی اور نظریاتی ہوتا ہے اور کبھی یہ سیاسی اور سماجی ہوتا ہے۔ ہر حال میں یہ برا اور تکلیف دہ ہے۔ ہم عدم برداشت کے مسئلہ کو کس طرح حل کر سکتے ہیں؟ ہم دوسروں کے تئیں عدم رودار ہوئے بغیر کس طرح اپنے عقائد اور مناصب پر اصرار کر سکتے ہیں؟ آج ہم کس طرح دنیا میں رواداری پیدا کر سکتے ہیں؟
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، یہ ایک مکمل روادار مذہب ہے۔ اسلام کا منشاء دنیا میں امن کو غالب کرنا ہے ۔ قرآن اسلام کی راہ کو "امن کے راستے" (5:16) قرار دیتا ہے ۔
اگر لوگوں میں روادار رویہ فقدان پایا جاتا ہے تو امن کی صورت حال کسی معاشرے میں غالب نہیں ہو سکتی۔ صرف رواداری ہی امن کی بنیاد ہے، جس معاشرے میں رواداری کا فقدان ہے ، امن بھی اسی طرح معدوم ہو جائے گا ۔ امن کائنات کا مذہب ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر مذاہب کے ساتھ معاملات کو قرآن کی آیت میں بہترین طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے:
"تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر۔" (109:6)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جزیرہ نما عرب میں مختلف مذاہب موجود تھے ۔ وہاں عیسائی، یہودی، پارسی، مشرک اور دیگر ایسےتھے جو کسی بھی مذہب کے ساتھ منسلک نہیں تھے ۔
جب کوئی نبی محمد (اللہ علیہ وسلم )کی زندگی پر نظر ڈالتا ہے، تو وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو پیش کئے گئے اعلی سطح کی رواداری کا خاکہ پیش کرنے کی کئی مثالیں حاصل کر سکتا ہے ۔
اس رواداری کو سمجھنے اور اس کا فیصلہ کرنے کے لئے، اس زمانہ پر غور کرنا ضروری ہے جب اسلام مخصوص قوانین کے ساتھ ایک باقاعدہ ریاست تھا جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک مذہب کے اصولوں کےمطابق خاص قوانین نافذ کئے گئے تھے ۔ کو ئی بھی مکہ میں تیرہ سال ان کے قیام کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیش کردہ رواداری کی بہت ساری مثالوں کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔
ایک سب سے خوبصورت مثال اس مسیحی وفد کی ہے کہ جب انہوں نے مدینہ منورہ میں مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے اجازت دی ۔
در اصل حقیقی اسلامی نقطہ نظرتمام مذاہب کے پیروکار کو مل جل کر امن سے جینے دیتا ہے۔ شروع سے ہی دین اسلام نے مذہبی جماعتوں کی بقائے باہمی پر روشنی ڈالی ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے حقوق کی مساوات کا اعادہ کیا جب انہیں مدینہ منورہ میں خدا کے آخری پیغمبر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا ۔
انسانی حقوق کی گفتگو کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک احترام اور رواداری ہے جو معاشرے کو دوسرے لوگوں کے مذاہب کے تئیں ظاہر کرنی چاہئے بلا شبہ اس میں مذہب کی آزادی کا مسئلہ بھی شامل ہے۔
مرحوم امام خمینی جنہوں نے اس وقت روحانیت کو بحال کرنے کے لئے اسلامی انقلاب کی قیادت کی جب دنیا سماجی اور اخلاقی اقدار کے زوال کا شاکار تھی وہ ایک دوسرے کے مذہب کے احترام کی اہمیت پر زور دیتے تھے ۔
یہ بات قابل ذکر ہے اسلامی انقلاب نے مشرق اور مغرب کے دو سپر پاورکے غلبے اور دنیا میں مذہب کو ترکرنے اور اس سے علیحدگی کےتاریخ کے ایک انتہائی حساس موڑ پر فتح حاصل کی ۔
اس عظیم رہنما نے کسی بھی قسم کی فرقہ واریت کی سختی مذمت کی اور اسے مسترد کر دیا اور تمام مسلمانوں اور دیگر آسمانی مذاہب کےپیروکاروں کے درمیان اتحاد کا نقیب بن گیا ۔
امام خمینی نےاس بات پر زور دیا کہ تمام آسمانی مذاہب ایک ہی مصدر سے نازل کئےگئے تھے اور ان کے بنیادی جوہر اور تعلیمات بھی ایک ہی طرح تھے۔
انہوں نے اپنے اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کئی قرانی آیات کا حوالہ دیا کہ ابراہیم، موسی، عیسی اور محمد (علیہم السلام ) جیسے عظیم پیغمبروں نے جن مذاہب کی تبلیغ ان کا جوہر ایک ہی تھا ۔
انہوں نے دین کو اس کی اصلی حیثیت دینے اور دنیا میں مادہ پرستی اور سامراج سے علیحدگی کو واضح کرنے کے لئے سنجیدہ اور عملی طور پر ٹھوس اقدامات بھی اٹھائے ۔
غالباً کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ صدیوں سے دنیا اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی جیسا ایک روحانی رہنما اور عظیم شخصیت پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔
کرسمس کے موقع پر امام خمینی دنیا بھر کے تمام عیسائیوں کو مبارکباد کا پیغام بھیجتے تھے ، ان پیغامات میں سے ایک اس طرح ہے؛
"حضور مسیح علیہ السلام پر خدا تعالی کی مبارک بادیاں ہوں جو مریم کے بیٹے، خدا کے روح ، اورایسے معزز پیغمبر تھے جنہوں نے مردوں کو جلایا اور اور کوڑھیوں کو شفا دی!۔
خدا کی مبارکبادیاں ہو ں ان کی باوقار ماں، کنواری، نیک اور بزرگ صفت مریم پر جنہوں نے الہی سانس کے ذریعے، رحمت کے پیاسوں کے لئے اتنے عظیم بیٹے کو جنم دیا !
علماء، پادریوں اور راہبوں کو مبارک ہو جو یسوع مسیح کی تعلیمات کے ذریعے سرکش روحوں کو امن کی طرف بلاتے ہیں !
مسیح کی آزاد قوم کو مبارک ہو، جو خدا کی روح مسیح کی الہی تعلیمات سے لطف اندوز ہوتے ہیں ! "
امام خمینی نے ان کی قیادت کے دوران، انسانی وقار، مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کی آزادی کے مسائل پر خصوصی توجہ دی۔
"بمشکل ایک ہی مذہب اور نسل کے تمام لوگ ایک ہی ملک کے باشندیں ہیں اور بمشکل ہی وہ ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ مشترکہ ثقافت، زبان اور مذہب کے لوگوں کا ایک گروپ کسی بھی ملک کی اکثریت کو جنم دیتا ہے ۔ متنوع زبان، نسل اور مذہب کے ساتھ چھوٹے گروپ اقلیت کی تشکیل کرتےہیں ۔ "
اسی وجہ سے اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی جماعتیں ، آج پرامن بقائے باہمی پر امام خمینی کے خیالات سے بہت زیادہ تحریک لیتی ہیں اس لئے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے خلاف کسی بھی امتیازی سلوک سے بچنے کے لئے اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں ۔
جیسا کہ لوگ یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ پوری دنیا میں مختلف نسلی گروہوں اور قوموں کے پرامن بقائے باہمی کے لئے انتظامات کئے جا رہے ہیں خاص طور پر یو این ڈائلاگ آن فیتھ اینڈ رلیجیس ٹریڈیشنز جیسے اقوام متحدہ کے فورم کے ذریعے بھی ۔
امام نے ہمیشہ سختی سے توہین مومنٹ کی مذمت کی جس کا مقصد مذہبی تعلیمات، علامات اور حساسیت تھا ۔ انہوں نے عیسائیت، یہودیت اور کئی دیگر مذاہب کے روحانی رہنماؤں کو مدعو کیا، اور عالمی تکبر کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے توحید کے پرچم کے تحت متحد ہونے کے لئے انہیں دعوت دی۔
اس کے علاوہ، وہ مذاہب کے درمیان مماثلت اجاگر کرتے تھے اور مادی، سماجی اور روحانی دباؤ اور انسانیت کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لئے انہوں نے متحد کرنے کے لئے تمام کو توحید کے پیروکاروں اور مومن قرار دیا ۔
1978 میں ڈچ ڈائی ویلٹ گرانٹ اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں، امام خمینی نے کہا کہ:
"کسی بھی ایرانی کو شہری حقوق سے لطف اندوز ہونا چاہئے اور مسلمان، یہودی، عیسائی یا کسی بھی دوسرے مذہب کے پیروکار کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے۔"
تاہم، یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں مقدس نبیوں یا آسمانی صحیفوں کی توہین کے مقصد سے کسی بھی غیر مودبانہ یا گستاخانہ اقدام کے خلاف انتہائی سخت موقف اختیار کیا ۔
اس تناظر میں ماہرین اور پنڈتوں کا یہ یقین ہے کہ امام خمینی کو آنے والی صدیوں اور نسلوں کے لیے رواداری، روحانیت اور اخلاقی اقدار کے حقیقی ماڈل کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران نے گزشتہ 34 سال میں سماجی و ثقافتی شعبے میں زبردست کامیابیاں حاصل کی ہے ۔
ہم سب کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ابتداء میں اخلاق اور روحانیت پر مبنی ایک ریاست کا قیام کوئی آسان کام نہیں تھا، خاص طور پر جب سابق حکومت نے مذہبی اقدار پر عمل نہیں کیا ۔
لہذا، اس طرح کے مقاصد میں کامیابی کا حصول غیر معمولی عزم کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ بات ناقابل تردید ہے کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران میں دنیا جن کامیابیوں کا مشاہدہ کررہی ہے وہ مسلم دنیا اور ایرانی عوام کی حمایت کے ساتھ انقلاب کے رہنما امام خمینی کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے جو کہ ایک قیمتی میراث ہے جو ان پیچھے ان کے ذریعہ چھوڑا گیا ہے۔
آج ان کے انتقال کے تقریبا 24 سال بعد، دنیا کی مظلوم عوام اس نایاب مثالی شخصیت کے ذریعہ چھوڑے میراث سے مسلسل اپنی فکری کے تحریک دے رہی ہے جو کہ تاریخ نے شاید ہی کبھی جنم دیا ہے ۔
شیخ عبداللہ مکونجا فاطمہ زہرہ (ع) کالج کے رہائشی امام ہیں۔
ماخذ: http://www.herald.co.zw/index.php?option=com_content&view=article&id=83471:islam-preaches-tolerance-&catid=42:features-news&Itemid=134#.UclY4tLfDSs
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-spiritualism/islam-preaches-tolerance/d/12351
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/islam-preaches-tolerance-/d/13168