New Age Islam
Mon Feb 10 2025, 06:57 AM

Urdu Section ( 6 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Understanding Fiqh of Muslim Minorities مسلم اقلیتوں کی فقہ کی تفہیم


شیخ عبداللہ ابن بیعہ

10 دسمبر، 2012

مسلم اقلیتوں کی فقہ کی کچھ لوگوں کے ذریعہ تردید کی گئی ہے ، جبکہ کچھ دوسرے لوگ  اسے  اس کی حد سے باہر لے جاتے ہیں۔ لہٰذا ، یہ ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں  اعتدال پسندی حاصل کرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ اس کی بنیادیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم اقلیتوں کی فقہ کی بنیادیں مقاصد اور اصولوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں ۔

مقاصد یہ ہیں:

سب سے پہلا، ایک عام مقصد ہے ، جوانفرادی اور معاشرتی  دونوں سطح پر مسلم اقلیت کی مذہبی زندگی کے تحفظ کے لئے ہے ۔

دوسرا، آبادی کی اکثریت کے درمیان اسلام کی اشاعت کرنا ۔

تیسرا، ، باہمی اعتماد اور قبولیت کی ایک صورت حال تلاش کرنے کے لئے ، دوسروں کے ساتھ، اور ثقافتی اور بین الاقوامی سطح کی صورت حال کے درمیان تعلق کی بنیاد قائم کرنا ، جو کہ ایک ایسا  معاملہ جسے بین الاقوامی صورت حال کی وجہ سے مسلم اقلیتوں کے معاملے تک ہی محدود نہیں کیا جا سکتا ۔

چوتھا، مسلم اقلیتوں کی زندگی میں ایک مشترکہ فقہ قائم کرنا؛، جو کہ انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف  بڑھ رہا ہے۔

قوانین :

سب سے پہلے، اس  کا مقصد نئی فقہی یا قانونی قواعد ایجاد کرنا  نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب تلاش کے دوران، ان قواعد پر توجہ مرکوز کرنا ہے، جو ہمارے فقہی، قانونی ورثے میں موجودہ ہیں ،اور اس طرح  اس کی دوبارہ جانچ کرنا اور اقلیتوں کے حالات سے نمٹنے کے امکانات دریافت کرنا ۔

فقہ کی دیگر شاخوں کی طرح، مسلم اقلیتوں کی فقہ بھی، شریعت کے  دو مصادر سے تعلق  رکھتی  ہے، یعنی قرآن اور سنت ۔ لیکن تفصیلات کے لحاظ سے، یہ شریعۃ کی آفاقیات سے منسوب ہے، جو مشکلات کو دور کرنے،  ضرورت کے احکام کے اطلاق، عبادت اور لین دین جیسے دونوں عام مسائل پر  غور کرنے، وقت کی تبدیلی کے مساوی  جگہ کی تبدیلی پر غور کرنے، برائیوں کے خاتمے اور  دو برائیوں سے کمتر کی جانب مائل ہونے کا مطالبہ کرتا ہے ، جسے  کچھ لوگ توازن کی فقہ کہتے ہیں، اور قابل توجہ عوامی مفادات پر غور کرتا  ہے،غیر اہم پر نہیں ۔

ابن القیم نے اعلام الموقعین میں کہا کہ ‘‘ شریعت  حکمت، اور اس دنیا میں اور آخرت میں لوگوں کے مفادات کے حصول پر مبنی ہے،’’۔

شریعت بے شمار نصوص میں ان آفاقی اصولوں کی جینس سے  تصدیق شدہ ہے۔

دوم، مسلم اقلیتوں کا فقہ، ان مخصوص نصوص سے منسوب  ہے،  جو ان مسائل پر لاگو ہوتے ہیں جو اقلیتوں کے ممالک میں پائے جاتے ہیں اور مسلم اکثریت کے ذریعہ شریک  کئے جاتے  ہیں ۔

تیسرے یہ کہ مسلم اقلیتوں کی فقہ سے وہ خاص اصول مراد ہیں، جو ایسے بعض علماء کے ذریعہ  اپنائے گئے ہیں ، جو غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی صورت حال کے بارے میں ، یہ خیال کرتے ہیں کہ، وہ چند شرعی  احکام کی علت ہیں ۔ جسے "مسکن"، کے مسائل کے طور پر جانا جاتا ہے، جسے ہم " جگہ کی حکمرانی" کہتے ہیں ۔ یہ پوزیشن، عمرو بن العاص کی مسند میں مذکور ہے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی ہیں، اور ایک روایت کے مطابق، النخعی الثوری ، ابو حنیفہ ، محمد ،  احمداور  عبدالمالک  ابن حبیب ، جو کہ ایک مالکی عالم ہیں ،کی طرح دوسرے علماء  کی مسند میں بھی مذکور ہے ۔

یہ غیر مسلم ملک میں  سزا دینے کے  عمل کی ممانعت جیسی بعض احادیث پر مبنی ہے۔ ابو داؤد ، ترمذی، اور امام احمد نے  اس حدیث "سفر کی حالت میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔" کی روایت راویوں کے ایک مضبوط سلسلے کے ساتھ کی ہے۔

ان اصولوں پر مبنی، آفاقی اور خاص شواہد پر، اور اہل علم کی رائے پر، اجتہاد منتخب یا اختراعی  بنیاد پر اہمیت دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ میں ذاتی طور پر پہلی قسم کو ترجیح دیتا ہوں اور گزشتہ عالمانہ رائے  کو چھوڑ نے کی بنیاد پر دوسرے کو نہ اپنانے کی ہمت کرتا ہوں ، اس لئے کہ پہلی قسم میں کوئی بھی شخص ، اپنے اس مفاد کے حصول کے لئے علماء کرام کی رائے میں سے کسی ایک کا  انتخاب کرتا ہے ، جو اس کی پسند کی ضرورت ہے، یا اس ایک  برائی کو  دور رکھتا ہے جو دوسروں کی غلط رائے پر عمل کرنے  کا  نتیجہ ہو سکتی ہے۔

زیادہ موزوں ہونے کےلئے ، اجتہاد کی تین قسمیں  ہیں:

1۔ نئے مسائل سے متعلق نئے خیالات ظاہر کرنے کے لئے، قرآن اور سنت میں بیان کردہ احکام کے ساتھ، قیاس کے عمل کو استعمال کرتے ہوئے نیا اجتہاد ۔

2۔ ایک اجتہاد اور ہے جس  کا تعلق مسئلے کے حکم کے معقول  اجراء سے ہے ۔ جیسا کے شاطبی نے کہا  کہ یہ اجتہاد کبھی موقوف نہیں ہوتا ،کیونکہ اجتہاد کی اس  قسم کا تعلق صورت حال کے ایک متفق علیہ  فیصلے کے اجراء کے ساتھ ہے  ۔ یہ اجتہاد پہلی قسم کی طرح نہیں ہے ، جسے صرف  مجتہد ہی فرض کر سکتے ہیں  بلکہ  یہ ایک ایسا اجتہاد ہے کہ اس سلسلے میں مجتہدین اور مقلدین  دونوں برابر ہیں۔

3۔ تیسری قسم کا اجتہاد ، کسی شخص کی قانونی پوزیشن کو اہمیت دینا ہے ۔ اس کی پوزیشن کبھی  کمزوری کی وجہ سے غیر اہم بھی ہو سکتی ہے ، بنیاد کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں ۔ لہٰذا ، علماء کرام اس مفاد کے لئے اس کا انتخاب کرتے ہیں ، جسے اس انتخاب کی  ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی کو مالکیوں کے ذریعہ ‘‘جاری معمول’’ کہا جاتا ہے ۔

لہٰذا اجتہاد کے ان تین اقسام کااستعمال ، تین پہلوؤں کی روشنی میں ہونا چاہیے، جو فتوی کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں  یعنی مسلم اقلیتوں کی صورت حال، عالمگیر دلیل، اور مخصوص دلیل۔

ان مسلم اقلیتوں کو انفرادی سطح پر سخت مشکلات کا سامنا ہے، جو  ایک ایسے ماحول میں رہتے ہیں جو مادی  فلسفہ کا حامل ہے  ۔

ان تمام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ  فتوی منطقی استدلال، اتصال باہم، اور آپسی گفت و شنید  کے درمیان ظاہر ہوا، جس کا نتیجہ دلیل اور حالات کے درمیان ایسا توازن  ہے جو  فقیہ کو فتوی ترتیب دینے اور  ضرورت ، دلیل   اور حکم جاری کرنے کے معیار  کے ذریعہ ، اور عالمی اور مخصوص  کے درمیان توازن قائم کرنے کے ذریعے بھی حکم تلاش کرنے کے قابل  بناتا ہے  ۔ یہ سلوک کی باریک نوعیت ہے ، جہاں ان میں سے کسی کو نظر انداز نہیں  کیا جا سکتا، بلکہ حکم مرتب کرتے وقت ان دونوں پر  باقاعدہ غور کیا جانا چاہئے۔ لہذا، مالکیوں نے ، اس کی تشکیل جسے وہ ‘‘ وسطی حکم ’’ کہتے ہیں ،اس کے مطابق کی ہے کہ ، جب کوئی ایک مسئلہ ہو جس کے دو پہلو ہوں، تو دو دلیل کی موجودگی کی وجہ سے دو مختلف حکم دئے جانے چاہئے  ۔

شادیاں، مالی لین دین، خوراک اور پہناوے کی عادت، لوگوں کے ساتھ پیش آنے،  خوشی کے اوقات میں مبارک باد پیش کرنے، اور غم کے اوقات میں تعزیت پیش کرنے، سیاسی جماعتوں میں حصہ لینے، نامزدگیوں اور انتخابات وغیرہ کے معاملے میں آپ اس قسم کا اجتہاد ، مسلم اقلیتوں کی صورت حال کے مشاہدے کے ذریعہ دیکھیں گے۔

ان مسلم اقلیتوں کو انفرادی سطح پر سخت مشکلات کا سامنا ہے، جو  ایک ایسے ماحول میں رہتے ہیں جو مادی  فلسفہ کا حامل ہے ، جہاں مذہبی محرکات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور خاندانی سطح پر، ایک ایسے معاشرے میں ایک ساتھ رکھنے کی کوشش کرتا ہے، جہاں خاندانی رشتتے  توڑ دئے گئے ہیں ، اور دو میاں بیوی کے درمیان اور والدین اور ان کے بچوں کے درمیان کا رشتہ زیادہ وقت نہیں گذرا کہ  مثبت سرپرستی پر مبنی ہو گیا ہے ۔ جہاں تک چھوٹی مسلم کمیونٹی کی سطح کی بات ہے ، جو ان معاشروں میں بستی ہے، وہ منتشر ، غیر منظم اور غیر مجتمع ہے۔ مسلمان ہونے کے معنوں میں ،  معتقدات کے چیلنجز کا بھی سامنا ہے، جو ایک اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پرایمان رکھنے والے ہیں، خواہ اشعری ، سلفی اور معتزلی کے  طریقہ کار یا ایسی تشریحات کے مطابق جو عام انسان کو متذبذب  کر دیتے ہیں ۔

شاید ایمان کا وہ اقرار جو  محمد بن ابو زیدالقروانی نے  اپنے رسالہ میں لکھا ہے ، جس کا حوالہ  قرآن سنت کی نصوص میں ہے ،وہ  تنازعات سے پرے ہیں ، مسلمانوں کو ان  ممالک میں سیکھنا چاہئے، جہاں، وہ  اس کی سادگی اور اس کے تذبذب سے آزاد ہونے کی وجہ سے ہجرت کرکے گئے ہیں ۔

وہ عبادات کے ایسے اعمال پر بھی منطبق ہوتا ہے جو  مسلم جماعتوں اور مساجد، اسکولوں اور مراکز جیسے اسلامی اداروں کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ یہ دوسرے کے ساتھ تعلق پر بھی منطبق  ہوتا ہے، اور اس بات پر بھی منطبق ہوتا ہے کہ ، کس طرح بقائے باہمی کے اسباب تلاش کئے جائیں جو دوسری ثقافت میں مسلمانوں  کوتحلیل ہونے  سے دور  رکھے ، اور ایک ہی وقت میں معاشرے میں ایک فعال رکن بننے کے لئے تنہائی اور خلوت نشینی کے خلاف اس کی حفاظت کرتا ہے، نبی حضرت  یوسف (علیہ السلام ) کے التماس کی پیروی کرتے ہوئے جب انہوں نے مصر کے بادشاہ سے یہ کہاتھا،{(یوسف نے) کہا مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیئے کیونکہ میں حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں ۔} (یوسف 12:55)

یہ سب قانونی قابلیت اور دلیل اور حالات کے درمیان  تقوی کے ساتھ توازن قائم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے،یہ  ہچکچاہٹ سے آزاد ہے اور بے باک ہے ۔

شیخ عبداللہ ابن بیعہ دی انٹر نیشنل  یونین آف مسلم اسکالرس کے نائب صدر ہیں۔

ماخذ:

https://www.onislam.net/english/shariah/contemporary-issues/islamic-themes/460351-on-the-fiqh-of-muslim-minorities.html

URL for English article

https://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/understanding-fiqh-muslim-minorities/d/9742

URL for this article

https://newageislam.com/urdu-section/understanding-fiqh-muslim-minorities-/d/11434

 

Loading..

Loading..