شیتلا سنگھ
17دسمبر،2018
سینئر صحافی شیتلا سنگھ رام مندر تنازع کا حل تلاش کرنے کی کوششوں کے لئے جانے جاتے رہے ہیں ۔ حال ہی میں آئی ان کی کتاب ’’ ایودھیا: رام جنم بھومی بابری مسجد وواد ( تنازع ) سچ‘‘۔یہ کافی مقبول ہو رہی ہے ۔ مندر کے لئے نیا قانون لانے کی مانگ کو لے کرگرماتے ماحول کے بیچ شیتلا سنگھ سے کرشن پرتاپ سنگھ نے بات چیت کی ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی رام جنم بھومی تنازع کا کوئی حل نہیں نکالا جاسکا نہ عدالت کے اندر نہ ہی باہر ۔ کیوں؟
اب تک سارے حل اسے دو مذہبوں کا تنازع مان کر ڈھونڈے جارہے ہیں ، جب کہ سیاست نے اس سے مذہبی جذبات کااستحصال کیا اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے ۔ اس سیاست کا عکس آپ 22۔23دسمبر، 1949کو بابری مسجد میں مورتی رکھے جانے میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ ایک فروری 1986کو اس میں بند تالے کھولے جانے میں بھی، 10نومبر1989کو کئے گئے سنگ بنیاد میں بھی ، 6دسمبر،1992کو بھی مسمار میں بھی اور اس کے بعدآرڈنینس لاکر مندر تعمیر کرانے کے وعدوں میں بھی۔
ایک وقت توآپ بھی اس کے حل کی کوشش میں جڑے تھے ؟
میں ہی کیوں ،1986میں بابری مسجد کے تالے کھولے جانے کے بعدجیسے ہی یہ تنازع ناسور بنتا گیا ،ایودھیا/فیض آباد کے کئی لوگ اس کے پر امن حل کے لئے سرگرم ہوگئے تھے۔ عدالت کے باہر حل کے لئے تب ایودھیا وکاس ٹرسٹ بنا ، جس کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس تھے، میں سکریٹری تھا۔ مہنت نرتیہ گوپال داس اب وشو ہندو پریشد رام جنم بھومی مندر نیاس کے صدر ہیں، لیکن تب انہیں کی صدارت میں تنازع کے مخالف پرم ہنس داس کے دگمبراکھاڑے میں ہوئی دونوں فریقین کی میٹنگ میں سمادھان کا فارمولہ بنا تھا۔
کیا تھا یہ فارمولہ؟
یہ کہ متنازع ڈھانچے کو اونچی دیواروں سے گھیر کر اس کے قریب رام چبوترے پر مندربنے۔ مسلمانوں نے کہہ دیا تھا کی وہ یہ بھی نہیں پوچھنے والا کی جن دیواروں سے ڈھانچے کو گھیرا جا رہاہے، اس میں دروازہ کدھر ہے ۔ شرط بس یہ ہے کہ ایسا دعویٰ نہیں کیا جائے گاکی ہندووں کی فتح ہوگئی ہے یا مسلمان ہار گئے ہیں ۔ اتر پردیش کے آج کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی گئو رکچھا پیٹھ کے اس وقت کے ادھیشور مہنت اویدھ ناتھ اور پرم ہنس رام چندر داس کے ساتھ وشو ہندو پریشد کے جسٹس دیوکی نندن اگروال ، داؤد دیال کھنا اور نارائرن اچاری جیسے لیڈر تو اس سے اتفاق تھا ہی ،مسلم فریقین کے سید شہاب الدین ، صلاح الدین اویسی اور سی ایچ محمد کو یا وغیرہ بھی متفق تھے۔ سبھی نے اس کا استقبال کیا تھا۔
پھر بات بگڑی کیسے ؟
بعد میں وشو ہندو پریشد کے لیڈر وشنو ہری ڈالمیا نے خواہش ظاہر کی وہ بھی ٹرسٹ میں حصہ لینا چاہتے ہیں ۔ انہیں بتایا گیا کی چونکہ وہ ایودھیا/فیض آباد کے نہیں ہیں اس لئے اس میں حصہ نہیں لے سکتے ۔ بعدمیں ، کہتے ہیں کہ دلی کے جھنڈے والان واقع کیشو کنج میں ہوئی سنگھ کی میٹنگ میں بالا صاحب دیو داس نے اشوک سنگھل کو پھٹکارا کہ انہوں نے تنازع کا حل کیوں قبول کیا۔کہا کے رام مندر تو دیش میں بہت ہے، اس لئے ہمیں اس کی چنتا چھوڑ کر ، اس کے آندولن کے ذریعہ ہندوؤں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے۔
پھر بھی بات بگڑنی ہی تھی۔
ہاں ، اس کے بعد وشو ہندو پریشد نے یہ کہہ کر فارمولے کومسترد کر دیا کی اس میں یہ بھی طے نہیں ہے کی مندر کا گربھ گرہ کہاں بنے گا ۔ پھر تو اسے عقائد کے ٹکراؤ کاتنازع بنا کر وہی لوگ اس کو عدالت میں لے گئے تھے، کہنے لگے کی عدالت اس کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔
آپ کو تنازع کا حل کرنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے یا نہیں؟
اٹل بہاری واچپئی نے اپنی حکومت کے دوران یہ سجھاؤ دیا تھا کہ متنازع زمین پر کچھ بھی نہ بنے ۔میں کہتا ہوں کی ’ اسکند پوران ‘ میں دی گئی رام جنم بھومی کی زمین کو پیمائش کراکر وہاں رام مندر بنا لیجئے،کوئی اعتراض نہیں کرنے والا۔یوں سمجھ لیجئے کی جس دن رام مندر نرمان کو مسلم مخالف سے جوڑ کردیکھنابند کر دیا جائے تنازع کاحل ہوجائے گا۔
Source:blogs.navbharattimes.indiatimes.com/nbteditpage/interview-with-sheetla-singh-on-ram-mandir/
URL for Hindi article: https://www.newageislam.com/hindi-section/anti-muslim-sentiment-obstacle-building/d/117227
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/anti-muslim-sentiment-obstacle-building/d/117379
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism