New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 05:28 PM

Urdu Section ( 16 Oct 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Captain Abbas Ali, You will be Remembered a Lot کیپٹن عباس علی کی بہت یاد آئے گی

 

 

 

شیش نارائن سنگھ

16 اکتوبر، 2014

کیپٹن عباس علی 94 سال کی عمر میں اس دنیا کو الوداع کہہ گئے ۔کپتان صاحب ایک بہترین انسان تھے ۔ آزاد ہند فوج کا یہ کپتان جب اپنی بلندی پر تھا تو اس نے کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا اور یہ بلندی ان کی زندگی میں ہمیشہ بنی رہی ۔ ان کی ایک ہی تمنا تھی کہ زندگی بھر کسی پر منحصر  نہ ہوں ۔ عمر کے نوے سال پورے ہونے پر ان کی سوانح عمری کودہلی میں شائع کیا گیا تھا ۔ شاید اس کتاب کا عنوان یہی  سوچ کر رکھا گیا ہوگا ‘ نہ رہوں کسی کادست نگر’ اور  11 اکتوبر کو کپتان صاحب نے آخری سانس لی  اس کےایک  دن پہلے تک چلتے پھرتے رہے اور شان سے چلے گئے ۔ ان کےبیٹے  قربان علی ہمیشہ انکو اپنے ساتھ دہلی میں رکھنا چاہتے تھے لیکن کپتان صاحب علی گڑھ او ربلند شہر کو کبھی نہیں بھولتےتھے ۔ موقع لگتے ہی علی گڑھ چلے جاتے تھے ۔ ان کی زندگی کے  بارے میں شاید بہت کچھ نہیں لکھا جائے گا کیونکہ وہ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی اس سیاسی روایت کے علمبردار تھے جس میں سرکاری عہدے کے لئے سیاستداں کو کوشش نہ کرنے کی ہدایت ہے۔ لیکن اس بہادر انسان کو زندگی کی قلمبند کیا جانا چاہئے تاکہ آنےوالی نسلوں کو معلوم رہے کہ خورجہ قصبے کے قریب کے گاؤں میں قلندر گڑھی میں ایک ایسا  انسان بھی رہتا تھا جس نے انسانی طرز عمل کی ہر بلندی کو طے کیا۔

سماج وادی مفکر آنجہانی  مدھولمیے ان کی بہت عزت کرتے تھے ۔ 1988 میں پہلی بار مدھولمیے کی پنڈارا روڈ والے فلیٹ میں کپتان صاحب سےملاقات ہوئی تھی ۔ راجیو گاندھی کی حکومت اور وشوناتھ پرتاپ سنگھ ان کو چیلنج کررہے تھے ۔ اتر پردیش میں سب کچھ کانگریس کےموافق تھا، کانگریس  کی مخالفت کے نام پر کچھ نہیں تھا لیکن کپتان صاحب کو اعتماد تھا کہ  سب کچھ بدل جائے گا ۔ کانگریس کی ہار کی عبارت ان کو صاف نظر آرہی تھی ۔ کپیٹن عباس علی کو ایک ایسےانسان کے طور پر یاد کیا جاناچاہئے جس نے کبھی بھی امید نہیں چھوڑی اور اسی راستے پر چلے جس کو صحیح سمجھتے رہے ۔ عباس علی کو نوجوان  نسل سے بہت  امیدیں تھیں  آپ نےفرمایا تھا بچپن سے ہی اپنے اس عظیم ملک کو آزاد و خوشحال دیکھنے کی تمنا تھی ،جس میں ذات  برادری، مذہب و زبان یا رنگ  کے نام پر کسی طرح کا استحصال نہ ہوں جہاں ہر ہندوستانی سر اونچا کر کے چل سکے، جہاں امیر و غریب کے نام پر کوئی تفریق  نہ ہو، ہماری پانچ ہزار سال کی تاریخ ذات مذہب کے نام پر استحصال کی تاریخ ہے، اپنی زندگی  میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے اس عظیم ملک کو آزاد ہوتے ہوئے دیکھنے کی خواہش تو پوری ہوگئی، لیکن اب بھی  معاشرے میں عدم مساوات ، بدعنوانی، ظلم و زیادتی و فرقہ پرستی کا جوناسور پھیلا  ہوا ہے، اسے دیکھ کر بے حد تکلیف ہوتی ہے ۔ دوستوں، عمر کے اس پڑاؤ پر ہم تو چراغ سحری ( صبح کا چراغ) ہیں، نہ جانے کب بجھ جائیں ،آپ سے اور آنے والی نسلوں سے یہی گزارش او رامید ہے کہ حقیقت و ایمانداری  کا جو راستہ ہم نے اپنے بزرگوں سے سیکھا ، اس کی مشعل اب تمہارے ہاتھوں میں ہے، یہ مشعل  کبھی بجنے مت دینا’ ۔ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے ایک بار  کپتان صاحب سے کہا تھا کہ ‘ کپیٹن ’ آنے والی نسلوں  کے لئے کھاد بنو ، انہوں نے پوری  زندگی اس بات کو گرہ سے باندھ لی۔

ان کی عمر کے آخری پڑاؤ میں جب بھی ان سے ملاقات ہوئی ایک بات بالکل صاف سمجھ میں آتی تھی کہ ان کو نوجوانوں سے بہت امید تھی ۔ جب وہ خود نوجوان تھے اور غلام ملک کے شہری  تھے تب بھی انہوں نے انہی خوابوں کے ساتھ زندگی جینے کا فیصلہ  کیا تھا ۔ مارچ 1931 میں جب سردار بھگت سنگھ کو انگریز وں نے لاہور میں  پھانسی دے دی تو پورے ملک میں اس کی سیاسی  دھمک محسوس کی گئی تھی ۔ نوعمر عباس علی ان دنوں خورجہ میں پڑھتے تھے ۔ خورجہ میں بھی سردار بھگت سنگھ کی پھانسی پر لوگوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا تھا اور جلوس  نکالا تھا ۔9 سال کے عباس علی اس جلوس  میں شامل ہوگئے  اور دل میں ملک کو آزاد کرانے کا خواب پال لیا ۔ بعد میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھنے گئے جہاں ان کی ملاقات کمیونسٹ لیڈروں سے ہوئی ۔ اس دور کے مشہور کمیونسٹ لیڈر کنور محمد اشرف سے ان کی ملاقات ہوئی ۔ یہیں  پر سامراجیت کی مخالفت کی ٹریننگ لی او رکنور صاحب کی ترغیب سے 1939 میں فوج میں بھرتی ہوگئے ۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی ۔ برطانوی  انڈین آرمی کے افسر کے طور پر ان کی تعیناتی ملایا میں ہوئی ۔ ملایا میں تعیناتی  کے وقت جاپانیوں  کی طرف سے جنگی قیدی بنائے گئے ۔ بعد میں جب جنرل موہن سنگھ  نے آزاد ہند فوج کا قیام کیا تو اس میں شامل ہوگئے اور انگریز ی حکومت کو چیلنج کرنے کی مہم میں لگ گئے ۔ ایسا کرنے  کے لئے انہوں نے برطانوی فوج سے بغاوت کی اور آزاد  ہند فوج کے افسر بن گئے ۔ جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو انگریزوں نے ان لوگوں کو جنگی قیدی بنا لیا اور غداری  کا مقدمہ قائم کردیا، جب کہ حقیقت  یہ ہے کہ آزاد ہند فوج کے لوگ غدار تو قطعی نہیں تھے ۔ جی ہاں ان کو برطانوی سامراج کامخالف ضرور کہا جاسکتا ہے ۔ بہر حال برطانوی فوج نے ان کو 1946 جنگی قیدی بنایا اور پنجاب کے ملتان ( اب پاکستان) کے قلعہ میں قیدی بنا کر رکھا ۔ برطانوی فوج کی  طرف سے کورٹ مارشل کیا گیا اور سزائے موت سنائی گئی ، لیکن اس درمیان ملک آزاد ہوگیا اور 1974 میں ملک کی تقسیم کے بعد جیل سے رہا کئے گئے ۔ لیکن اس بہادر انسان کی زندگی میں مشکلات نے ڈیرہ ڈال دیا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ان کا خاندان بھی بٹ گیا ۔ ان کے والد صاحب، ماں، بھائی اور بہن پاکستان چلے گئے ۔ان پر بھی دباؤ تھا کہ پاکستان جائیں لیکن  انہوں نے کہا کہ اپنا ملک نہیں چھوڑوں گا کیونکہ اس کی آزادی کے لئے ہماری نسل نے قربانی دی ہے اور اپنا گاؤں  نہیں چھوڑوں گا ۔ خاندان بکھر چکا تھا لیکن کپیٹن عباس علی نہیں ٹوٹے ۔ زندگی کو نئے سرے سے جینے کا فیصلہ  کیا ۔ آدھے خاندان کے پاکستان چلے  جانے  کے باوجود اپنی جائے پیدائش ہندوستان میں ہی رہنا پسند کیا۔

1947 میں جب آچاریہ نریندر  دیو،  جے پرکاش نارائن اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے کانگریس پارٹی چھوڑ کر سوشلست پارٹی کی تشکیل کی تو عباس علی اس کے بانی رکن کے طور پر اس پارٹی میں شامل ہوگئے ۔ ڈاکٹر لوہیا کے بہت قریبی دوست کے طور پر کام کرتے رہے ۔ انگریز تو چلے گئے تھے لیکن 1948 سے لے کر یکم  مئی 1977 تک سوشلست پارٹی میں رہتے ہوئے پچاس سے زیادہ بار سول نا فرمانی تحریکوں کے تحت کانگریسی  حکومت کی جیلوں کی ہوا کھائی ۔ جون 1975 میں ایمر  جنسی لگنے کے بعد ‘ میسا’ کے تحت قیدی بنائے گئے اور بلند شہری ، بریلی اور نینی سینٹرل جیل میں 19 ماہ تک رہے 1966 اور 1974 میں دو بار اتر پردیش یونائیٹیڈ سوشلست پارٹی اور سوشلست پارٹی کے ریاستی سیکرٹری منتخب  ہوئے ۔ 1967 میں یونائیٹیڈ لیجسلیٹو کی تشکیل کی ۔ چودھری چرن سنگھ ان دنوں  کانگریس کے رکن  اسمبلی ہوا کرتے تھے ۔ چودھری چرن سنگھ کو توڑ کر انہیں اتر پردیش کاپہلا غیر کانگریسی وزیر اعلیٰ بنوایا۔  اس منصوبہ میں کیپٹن عباس علی کا بڑا کردار تھا ۔

1977 میں لوگ سبھا انتخابات کے دوران جتنا پارٹی  نے بلند شہر سے آپ کو اپنا امیدوار بناناچاہا،  لیکن انکار کر دیا ۔ اسی سال آپ اتر پردیش جنتاپارٹی کے پہلے صدر بنائے گئے ۔ 1978 میں اتر پردیش قانون ساز کونسل کے لیے منتخب  ہوئے ۔ 1984 میں قانون ساز کونسل سے ریٹائر ہوئے ۔ آزاد ہندوستان میں کیپٹن عباس علی نے اگر کانگریس کاساتھ پکڑ لیا ہوتا تو سرکاری عہدوں کی بھر مار ہوجاتی لیکن انہوں نے ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کا ساتھ دیا اور اس کو زندگی  بھر نبھایا۔

 عباس علی زندگی بھر  انسانی بلندی  اور سماجی برابری کی لڑائی لڑتے رہے ۔ ان کو اپنا خاندان راجپوتوں کے اس سلسلہ نسب سےتعلق  رکھتا تھا جس کی جڑیں ایودھیا کے بادشاہ رام چندر تک جاتی تھیں ۔ ان کی پرورش  جاگیردارنہ ماحول میں ہوئی تھی ۔ ان کی اپنے گاؤں  قلندر گڑھی  میں بھی بہت زیادہ کاشت تھی لیکن  انہو ں نے  سوشلزم کی لڑائی کامن بنایا اور اخیر تک اسی مہم  میں شامل رہے ۔ لیکن  ان کی سیاسی زندگی  میں جاگیر دارانہ  تہذیب کے لئے کوئی جگہ نہیں  تھی ۔ اتنے بلند انسان کے جانے کے بعد عام آدمی کی برابری کی لڑائی میں ایک خلاء تو ضرور آیا ہے۔

16 اکتوبر، 2014  بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/captain-abbas-ali,-be-remembered/d/99563

 

Loading..

Loading..