شریف ارشد ، نیو ایج اسلام
عظیم ترین شعری و نثری ادب پاروں کے معنی کی تلاش discovery))بہت ہی ادق ، مشکل اور دشوار عمل ہے ۔ الفاظ کے معنی کی تلاش غواصی چاہتی ہے اعلی درجے کی، جو نفس اور دم روک کر سطح کے تحت الثری تک آنکھیں کھول کرمچھلیوں کی طرح جائے اور معنی مٹھی میں بھر کر اوپر آجائے کہ معنی کبھی الفاظ کے قدموں کے نیچے دبے ہوئے ہوتے ہیں۔ الفاظ کے دریا کی گہرائیوں کی سو ڈگریاں تصور کرلیجئے تو معنی لفظ کی گہرائی کی اسی ڈگری پر ملے گا ۔ اس ڈگری سے ایک ڈگری اوپر اور نیچے نہ ملے گا۔ سو اتنی لمبی سانس بھر کر منہ بند کرکے دریا کی گہرائی میں نیچے اترئیے کہ ٹھیک اس ڈگری پہ پہنچ کر معنی پکڑ لیجئے ۔
معنی کبھی اطراف میں یعنی دریا کی دیواروں سے چمٹے اور چپکے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی دیواروں کی ایک سے سو تک پرتیں اور تہیں ہوسکتی ہیں ۔ پیاز کے باریک چھلکوں کی طرح ایک غلاف ہٹائیے ایک معنی وہاں لیٹا ہوا ملے گا۔ دوسرا غلاف ہٹائیے دوسرا معنی وہاں لیٹا ہوا ملے گا۔ تیسرا غلاف ہٹائیے ایک معنی وہاں لیٹا ہواملے گا اور اسی طرح سو تہیں کھولتے چلے جائیے اور معنی آپ کو ملتے چلے جائیں گے۔ جو معنی آپ کے لفظ کے تناظر سے چپک جائے اسے چن لیجئے ۔ لفظ کے معنی کی تلاش نفاست ، عمدگی اور خوش نمائی کی تلاش ہے ۔ لفظوں کے معنی کے سو افق ہیں ان میں سے کسی افق معنی کو اس لفظ سے قریب کردیتاہے ۔ اس طرح کہ وہ ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہواور پڑھنے والے اور سننے والے یہ باور کرلیں کہ ہاں یہی اس لفظ کے معنی ہیں ۔ یہی اس معنی کا لفظ ہے ۔ پھر یہ فلسفہ لفظ و معنی بھی یاد رہے کہ معنی اسی وقت تک معنی ہے جب تک آپ نے اسے روشنائی سے کاغذ کے معنی کو لکھ دیا تو پھر وہ معنی بھی لفظ بن گیا اور ڈکشنری میں الفاظ کے ذیل میں لکھ لئے گئے اور اس کا دوسرا متوازی parallel معنی طالب علم کو بتادیا یا ڈکشنری میں لکھ دیا۔ ڈکشنری میں الفاظ کے ذیل میں لکھے ہوئے الفاظ ہوتے ہیں۔ پھر اسکے معنی یا تشریح لکھ دی جاتی ہے ۔یعنی تفہیم یا تشریح کیلئے لکھے جانے والے الفاظ معنی کہے جاتے ہیں ۔قابل تشریح حروف کی املا کولفظ کہاجاتاہے ۔
معنی کبھی سطح آب پر ہی تیررہاہوتاہے جسے آسانی سے گرفت میں لیا جاسکتاہے ۔ اسے چنداں دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ مگر یہ معنی سطحی ہوتے ہیں اور عموماً بی اے ایم اے کے طلبا ء یہی سطحی معنی نکالتے ہیں اپے ذہن ودماغ یا روایتی و سہیل ڈکشنری سے ۔ یہ سہل ڈکشنریاں ذہین بچوں کو خراب کردیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرزاغالب دہلوی نے غیاث اللغات کو ’’ حیض کا لتہّ ‘‘ کہاہے ۔معنی کبھی حرف کے بیچوں بیچ یعنی جوف سینہ ہوتاہے اور آدمی اسے اطراف لفظ میں تلاش کررہاہوتاہے ۔مرزا غالب نے اپنے درج ذیل شعر میں یہی راز سمجھایاہے کہ معنی ہر چیز میں الگ الگ مقام پہ ہوتاہے ، عطراور سرمہ شیشی کے اندر بیچ میں ہوتاہے لیکن تلوار کی آبداری اور تیزی سینہ ء سشمشیر سے باہر اس کے کنارے پہ ہوتی ہے ۔ (یہی تلوار کی روح اور معنی ہے )۔
سینہ ء شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا (غالب )
دنیا کی عظیم ترین منصرف (drived ) زبانوں مثلاً سنسکرت ، یونانی ، عربی اور لاطینی کے ادبی الفاظ کثیر الافق معنی رکھتے ہیں ۔ عربی ادب میں بعض لفظوں کے ستر ستر معنی بتائے گئے ہیں ۔ لفظی معنوں کے علاوہ محاورتی استعمال ان کے کئی طرح کے ہیں ۔ مثلاً عربی میں ’’ج ‘‘ اور ’’ن‘‘ جہاں جمع ہوتے ہیں وہاں پہ چھپنے چھپانے اور coverage کے معنی دیتے ہیں ۔
(۱) جن ۔۔۔۔۔ قرآن کی مخاطب مخلوق انسانوں کی طرح کی ایک مخلوق ہے جسے جن اس لئے کہا گیاہے کہ یہ آنکھوں کو نظر نہیں آتی اپنی جسمانی لطافت کی وجہ سے ۔
(۲) مجنون ۔۔۔۔ اس آدمی کو کہاجاتاہے جس کی عقل پر پردہ پڑگیاہے ۔ بے ہوشی ، بد مستی کا اور اس کی عقل چھپ گئی ہے اس طرح ایسا آدمی پاگل کی طرح حرکتیں کرتاہے ۔
(۳) جنت ۔۔۔۔۔ بہشت کے باغ کو جنت ا سلئے کہتے ہیں کہ یہ خوب صورت درختوں اور فروٹ کی شاخوں اور زیتوں کے درختوں سے ڈھکاہوا ہے کہ ہرجوڑا دوسرے جوڑے سے الگ ہنگام طرب میں مشغول ہو وغیرہ ۔ کثیر الافق معنی کے اعتبار سے چار ممکنہ گروپ میں تقسیم کردیاجائے اور تفہیم کی آسانی کے لئے طلبا کے ذہن نشین کردیاجائے ۔
(۱) 25 افق معنی الفاظ
(۲) 50 افق معنی الفاظ
(۳) 75 افق معنی الفاظ
(۴) 100 افق معنی الفاظ
سہل و سبک کم قیمت ڈکشنریاں اسکولی بچوں کے علمی کھیل کی چیزیں ہیں ۔ منفرد و ذہین کالج کے طلباء دانشور ، یونیورسٹی پروفیسر ادیب و محقق و نقاد کے لئے عربی میں لسان العرب ڈکشنری ہے جو تقریباً بیس جلدوں میں ہے اور تقریباً ایک ڈھائی اور ڈیڑھ حروف ہجا letter of spelling سے بیشمار منصرف الفاظ کے اکہرے مرکب اور محاوراتی معنوں پر ایک جلد محتوی ہے ۔ یہ طے ہے کہ ایک ایک لفظ کے 25,50,75,100 اور سو سے زائد معنی قاموس نگاروں lexicographers نے اپنی ذہنی خلاقی سے دریافت کئے ہیں ۔
اسی طرح انگریزی زبان میں جاری و ساری اکسفورڈ اور چیمبرس اور دیگر عام ڈکشنریاں ہیں لیکن منفرد اذہان محقق دانشور وں کے لئے اکسفورڈ ڈکشنری ہے جو بیس جلدوں میں مدون ہے اور اسی طرح ایک دو ڈیڑھ حروف ہجا پر ایک جلد مدون ہے جس کی قیمت تقریباً دس ہزار ہے ۔ کوئی ایک لفظ کسی معنی کی تمام وسیع تر طول و عرض و حجم کی مطلقیت کو احتوا نہیں کرتا۔ کوئی ایک لفظ محض اپنے 25, 50, 75, 100 افق معنی میں سے کسی ایک افق کو چھوتاہے ۔ معنی کے وسیع ترین مطلق آفاق کو کوئی ایک لفظ نہیں چھوتا ۔ اسکولی طلبا ء کو پہاڑہ کی طرح ہر لفظ کے ایک ایک قریب الفہم معنی بتادئیے جاتے ہیں۔ معنی وہ ہزار دائرے ہیں جو کسی پرسکون ندی اور تالاب میں کوئی پتھر پھینکنے سے ابھرتے ہیں ۔ جب کوئی لفظ کسی کی زبان سے نکلتاہے تو اس کی گونج سے سماعت میں معنی کے رد عمل کے سلسلے سے بننے شروع ہوجاتے ہیں ۔ جیسے کسی نے درخت کی شاخ ہلادی ہو اور معنی کے بے شمار پرندے اڑنے لگے ہوں اور آدمی حیران ہوگیاہو کہ کسے پکڑیں اور کسے چھوڑدیں ۔
معنی نیلے آکاش کی طرح وسیع ترین ہیں ۔ آنکھوں کے لئے سمندروں کی طرح گہرے ہیں ۔ اس لئے صحیح اور تناظر نواز معنی کی تلاش دریافت اور انتخاب مشکل عمل ہے ۔ معنی کی تلاش ادبی تنقید اور تحقیق کی طرح ایک تحقیقی عمل ہے اور ادبیات کے یونیورسٹی شعبے بنام ’’کرسی معنی ‘‘ ایک پروفیسر عہدے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ تلاش معنی در اصل الفاظ کو اپنے تناظر کے چوکھٹے میں چپکا نا ہے یعنی معنی کی تلاش ایک خلاقانہ عمل ہے ۔ معنی کبھی الفاظ سے پرے اطراف میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں قاری انہیں سمیٹتاہے ۔ پانی میں پھیلے ہوئے تیل کی طرح جسے قاری اپنی ذہنی سائنسی عمل سے لفظوں کی شیشی میں پھر سے بھر دیتاہے ۔ یہ معنی کی دریافت ایک سائنسی کیمیائی عمل بھی ہے ۔
لفظ و معنی کے تئیں جو نظریات اور فلسفے ادیبوں اور دانشوروں کے سامنے آچکے ہیں ان کی روشنی میں لفظوں کو سیدھا، چپٹا ، ترچھا رکھ کر اس پر معروضی اور موضوعی (objective and subjective)نگاہ ڈالی جائے ۔مفسرین کے ضمیر پہ جو الفاظ کی لہریں ابھرتی ہیں اس پر خالص تکنیکل اور اکیڈمک علمی اجزا اور تجربات زندگی کی صیقل کی جائے ۔ اس طرح قرآن کریم کی تفہیم سائنٹفک کہی جائیگی لیکن خیر سے ہمارا روایتی مشرقی ذہن لفظ سائنٹفک سے ڈرتارہاہے اور مفسرین یہ بھول جاتے ہیں کہ بڑے ادیبوں شکسیبیر ، تلسی داس ، مرزا غالب ، علامہ اقبال ، ہومر ، دانتے ، ٹیگو روغیرہ کے کلام کے الفاظ کی تعبیر اور تفہیم معنی کتنی مشکل ٹھہرتی ہے ۔
پھر قرآن (وحی الہی ) کے الفاظ کے تناظر ، پس منطر ، کلام کے لفظی و محاوراتی معنی تک پہنچنا اور پھر انسانی الفاظ و معانی و اسلوب میں لکھ کر اسے متوسط درجہ کے دانشوروں تک faxکرنا کتنی مشکل بات ہے ۔
قرآن کریم کے ہزاروں نادر اسلوب جملوں تک تو آج تک ہماری رسائی نہ ہوسکی ۔ تقریر بولنے والے کی روح کی تجسیم ہے تویہ نتیجہ نکلا کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اپنے بولنے والے (اللہ تعالی ) کی روح مجسم ہے ۔
اس طویل تر تمہید کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کی بیشتر آیات متاشا بہات اور لطیف ترین ادبی پیرایہء اظہار تک ہمارے قاری پہنچ نہیں سکے ہیں اور ہمارے روایتی مفسرین قرآن کے صد افق معنی الفاظ کی تحقیق کی صلاحیت نہیں رکھتے اور محض سطحی اور روایت معنی کی مدد سے اس کلام کی نادر عبارتوں کی تفہیم کی کوششوں میں مصروف ہیں جو آج کی متحدہ دنیا کے آفاقی ادبیات کے لئے معیار استناد ہے ۔میرے سامنے قرآن کی درج ذیل آیت میں دو لفظ ہیں ۔ (۱) معروف (۲) منکر ۔۔۔۔ اور ان دونوں قرآنی الفاظ کی معنی کی تلاش میری طالب علمانہ جستجو ہے ۔ محولہ آیت ۔۔۔۔ کنتم خیر امتہ اخرجت اللناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکرلعلکم تفلحون ۔ ترجمہ : تم بہترین امت ہو ، عام عالم انسانیت کے لئے تیار کئے گئے ہو کہ عالم انسانیت کو معروف تک لاؤاور منکر سے روکو شاید تم فلاح پاجاؤ )۔ معروف اور منکر کے روایت و سطحی اور اکہرے معنی نیکی اور برائی کے روایتی مفسرین قرآن یا علمائے ادبیات قرآن نے ہمیں بتائے ہیں ۔ آئیے ہم ان دونوں کثیرالافق معنی الفاظ کے معنی کو دریافت کریں ۔
ماہنامہ الرسالہ (جون 93)میں علامہ وحیدالدین خان ’’ہندو مسلم ڈائیلاگ ‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں کہ پیش بندی اور مستقبل کے فائدے کے لئے ہمیں اپنے بعض ملی مسائل کا بشکل ’’صلح حدیبیہ ‘‘ حل تلاش کرلینا چاہئے ۔ انہوں نے یہ بھی فرمایاہے کہ اب وقت آگیاہے ہمیں ’’انسانی ایشو ‘‘ کو ’’ملی ایشو ‘‘ پر ترجیح دینے کا عمل اختیار کرنا چاہئے ورنہ ہم خیر امم نہ کہلاسکیں گے ۔
’’خیر امم ‘‘ کی حیثیت سے اگر ہم مندرجہ ذیل آیت میں معروف اور منکر کے سطحی معنی نیکی اور بدی کے لیں وہ یہ کہ پوری دنیا نماز ، روزہ، حج ، زکوۃ اور اسلامی تھیولوجی کو قبول کریں تو ہم ان دونوں ’’صد افق معنی ‘‘ الفاظ کا وسیع تر انسانی معنی نہ دریافت کرسکیں گے ۔ قرآن کے بعض بنیادی الفاظ کے اور معنوں کی کئی تہیں ہیں ۔ ان کا ایک معنی اگر ’’ملی ایشو ‘‘ ہے دوسرا معنی ’’انسانی ایشو ‘‘ اور فلاح کی توثیق کا ۔ ’’خیر امم ‘‘ کی حیثیت سے ہمیں ‘‘ملی استحکا م ‘‘ کے لئے ایک عہد تک کوشش کرنا تھی اب انسانی ایشو کی وسیع تر معنی کے لئے قرآنی الفاظ کا استعما ل ضروری ہے تو مندرجہ ذیل الفاظ کی چند مندرجہ ذیل قاشیں اور چھلکے اہل نظر نصاب نویسوں کے لئے لکھتاہوں اور اہل نطر کے سامنے دست بستہ کھڑا ہوں کہ اگر میں نے یہ معنی غلط تحقیق کئے ہیں تو اہل نقد ہمیں علمی درے لگائیں میں اف تک نہ کروں گا۔
(الف ) لفظ ’’ معروف ‘‘ کے چند ممکنہ معنی
(۱) اعلی ترین انسانی اقدار
۲۰) اعلی انسانی افکار
۳۰)اعلی ترین انسانی اخلاقی اعمال
(۴)اعلی ترین سیاسی فلسفے
(۵)اعلی ترین سیاسی کردار
(۶) حسن اسلوب کار
(۷) حکمت عملی
(۸) پیش بینی
(۹) تناظر سیاسی
(10تناظر اسلامی
(11)تناظر ملی
(12) منشاء الہی
(13)تہذیب اسلامی
(14) لطافت فکری
(15 ) معیار ثقافت عہد
(16)دستور ربانی
(17)وطیرہ ء دین
(18)وحی ء الہی کی متحدہ روایت
) (19آخری کتاب الہی
(20)سیرت انبیاء
(21)شوری
(22)اجماع
(23)فکر جمہوری
(24)مکارم اخلاق
(25)نیکی
(ب) لفظ ’منکر ‘ کے ممکنہ معنی ہر چند یہی لکھ دینا کافی تھا کہ جو معانی لفظ معروف کی ضد ٹھہرے وہ معنی لفظ ’’منکر ‘‘ کے ہونگے لیکن کسی لفظ کا معنی دریافت کرنے کا یہ ’’منفی رویہ ‘‘ ٹھہرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ منفی طریقہ تعریف بہت مہلک رویہ ہے کسی لفظ کی تعریف کا۔ علامہ اقبال نے’’ اسرار خودی‘‘ میں خودی کے مثبت اسرار و رموز لکھ دئیے ۔ ’’رموز بے خودی ‘‘لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اقبال ’’تضادات عہد‘‘ سے بخوبی واقف تھے اس لئے خودی اور بے خودی کے مابین ایک علمی فاصلہ کی مثبت وضاحت کے لئے انہوں نے الگ سے رموز بے خودی لکھی تاکہ پروفیسر خودی اور بے خودی کی صحیح اور مثبت تفہیم کرسکیں ۔
علامہ مودودی نے بھی ’’سرمایہ داری ، اشتراکیت اور اسلام ‘‘ میں سرمایہ داری اور اشتراکیت ‘کی الگ الگ مثبت تعریف کرنے کے بعد اسلام کے بارے میں صرف اتنا لکھ دیا کہ اسلام ایک معتدل اور متوازی نظام ہے ان دونوں نظاموں کے درمیان عہد حاضر کے طلبا ء کو اسلام سمجھانے کے لئے پہلے دونوں نظاموں (سرمایہ داری اور اشتراکیت ) پہ مثبت لکچر دینا پڑے گا ۔ یہ مقالہ لکھنا پڑے گا دونوں نظاموں کی تفہیم تعریف کے بعد اسلام کے بارے میں محولہ بالا جملوں میں اسلام کی تفہیم ممکن ہوسکے گی ۔ یہ تعریف بھی منفی رویہ کی تعریف ہے اس لئے 19ویں صدی تک روایتی ریسرچ فیلو پروفیسر اورطلباء کو اسلام کی مثبت تعریف معلوم نہ ہوسکی ۔ تو اس لئے معروف کے بعد منکر کی مندرجہ ذیل معنی لکھے جارہے ۔معنی لکھنا بھی ایک طرح کی تعریف لکھنا ہے لفظ کی ۔
(ب) لفظ منکر کے ممکنہ معنی
(۱) بدترین انسانی اقدار
( (2بدترینانسانی افکار
(3) بدترینانسانی اخلاقی عملی نمونے
(4)بدترینسیاسی فلسفے
(5)بدترین سیاسی کردار کریہہ ترین اسلوب کار
(6)کریہہ ترین اسلوب کار
(7)بد بینی
(8)منفی حکمت عملی
) (9بدترین مناظر سیاسی
(10)تناطر اسلامی کے خلاف رویہ عمل
(11)تناظر عملی کے خلاف رویہ ء عمل
(12)منشا ء الہی کی ضد
(13)تہذیب و تمدن غیر اسلامی
(14)کراہت فکری
(15)معیار ثقافت عہد کے خلاف رویہ ء عمل و نظر
(16)دستور ربانی کے خلاف رویہ عمل ونطر
(17)وطیرہ ء دین کے خلاف رویہ ء عمل و فکر
) (18وحی الہی کی متحدہ روایت کے خلاف رویہ ء عمل و فکر
(19)آخری کتاب الہی کے خلاف رویہ ء عمل وفکر
(20)سیرت انبیار کے خلاف رویہ ء عمل و فکر
(21)شوری کے خلاف
(22)اجماع کے خلاف
(23)فکر جمہوری کے خلاف
(24)مکارم اخلاق کے خلاف
(25)بدی
اس طرح معروف و منکر کے الفاظ کے کم از کم 25معنی دریافت کئے گئے اور قاری ان لفظوں کو حسب ضرورت استعمال کرکے قرآنی ادب کے فہم و ادراک کی صلاحیت اپنے اندر پاسکے گا۔میں دراصل اکیسویں صدی کے دانشور ، لغت نویس، اساتذہ ، دارالعلوم اسلامی اور طلباء طالبات کو قرآن کے الفاظ (جو کہ کثیرالافق معنی کی جہتیں رکھتے ہیں ) کے معنی کی تحقیق و دریافت کا ایک رویہ بتانا چاہتاہوں ۔ یہ روایتی معنی نویسی اور لغت نویسی اکیسویں صدی کے کام نہ آسکے گی۔ اہم ادبیات عالم کے الفاظ کے معنی مرغی کے ڈربوں میں بند نہیں ہوتے ہیں ۔ یہاں معی شش جہات میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ایک ایک بنیادی لفظ کے کثیر الافق معنی ہوتے ہیں۔
پھر لفطوں کے معنی اور تلفظ کہیں کہیں نزاکت شعری ،ایجاز اور دیگر شعری اور ادبی ضرورتوں کے لئے معروف اور مشہور زمانہ معنوں کے خلاف کرنا پڑتا ہے جو قلب ماہیت کہلاتاہے ۔ دانندہ ء حادثات و قدیم شاہنامہ ایران کے خالق علامہ فردوسی نے ضرورت شعر ی کے تحت ’’باختر‘‘ کے لفظ کو پورب اور مشرق کے معنی میں لکھا ہے جبکہ ’’باختر ‘‘ کے معنی ’’خاور ‘‘ کی ضد پچھم اور مغرب کے ہیں ۔
میرا مقصد تو در اصل ’’معروف اور منکر ‘‘ کے الفاظ کے معنی (کثیر الافق معنی ) لکھنا تھا لیکن چند مزید الفاظ قرآن کے معنی بھی تلاش کرلئے جائیں تو مناسب یہی ہوگا کہ ان لفطوں کے معنی کرتے وقت بھی سوچنا پڑتاہے ۔
(ض)’’ الحمد شریف‘‘ پڑھتے وقت ’’مالک یوم الدین ‘‘ پر نگاہ رکتی ہے کہ ’’دین ‘‘ کے معنی علماء نے ’’وہ بنیادی نظام حیات ‘‘ بتائے ہیں جو حضرت آدم و نوح سے حضرت محمد ﷺ تک خدا کی طرف سے انسانوں کو وحی کی گئی لیکن یہ معنی یہاں adjustنہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ یہاں تناظر ہے روز جزا ء و سزا ، یوم ،عدالت یوم محاسبہ کا۔
(د) اوپر معروف کے لفظ کے معنی کی دریافت کا مسئلہ تھا۔ چلئے ایک دوسرے مقام پر لفظ ’’معروف ‘‘ کے معنی دریافت کریں ۔
’’الطلاق مرتا ن فاِمساک بمعروف ‘‘ یہاں معروف کے معنی دینی حکمت عملی کے ہیں ۔ معنوں کے دریافت کے روئیے میں تبدیلی کے بغیر اہم ادبیات عالم اور قرآن و زبور ، توریت ، انجیل اور صحف الاولین (بشمول وید ) کے صد افق معنی الفاظ کے ضمیر تک رسائی ممکن نہ ہوسکے گی۔ قرآن کے الفاظ کے ضمیر تک ہماری رسائی اس وقت تک نہ ہوسکے گی جب تک ہم معنی کی دریافت کا مجتہدانہ ، محققانہ اور تناظر نواز وطیرہ نہ اختیار کرینگے ۔عہد حاضر کی شاطر قومیں اپنی قومی مصالح کے لئے دوسری قوموں کی ادبیات ، تہذیب ، تمدن و ثقافت کو غلط معنی دینے کے لئے لفظوں کے معنی غلط لکھ کر گذرجاتی ہیں اور عام قاری ان کی علمی قد و قامت کو چیلنج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔
(شریف ارشد مرحوم اردو ، عربی اور فارسی کے عالم تھے ۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کی تھی اور مولانا اسعد مدنی اور مولانا علی میاں کے شاگرد تھے۔انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیاتھا ۔ ادبی حلقوں میں وہ ایک شاعر اور نقاد کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے )-
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism