شمس جیلانی
13 جولائی، 2014
میرے انتہائی قابل احترام دوست او ربھائی جناب صفدر ھمدانی نے پھر ایک فرمائش مجھ جیسے کم علم سے کرڈالی ہے جو کہ میرے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے کہ میں اسلامی شاعری پر کچھ لکھوں ؟ جو کہ بڑا مشکل کام ہے مگر اللہ مالک ہے اور اسی کے بھروسے اور اسی کے مہربان نام سے شروع کرتاہوں ۔ ان لاکھوں شاعروں سے معذرت کے ساتھ او رعلماء کرام سے اس درخواست کے ساتھ کے میں ایک طالب علم ہوں اور میری یہ جسارت چھوٹا منہ اور بڑی بات کے مترادف ہے لہٰذا میری کوتاہیوں کو معاف فرمادیں ؟
ہمارے یہاں چودہ سو سال سے یہ مسئلہ علماء کے سامنے زیر بحث ہے کہ شاعری حرام ہے یا حلال؟ جسے وہ آج تک طےنہیں کر پائے کیونکہ کہ شاعری کے خلاف واضح آیات موجود ہیں ۔ اب دوسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ وہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے اسورہ حسنہ میں شاعری کو تلاش کریں؟ اور وہاں بھی جب جواب نفی میں ملتا ہے کہ بہت ہی سخت شاعری کے خلاف احادیث بھی تو اتر سے ملتی ہیں؟
کیونکہ عہد جاہلیہ سے لے کر اب تک جو شاعری رائج رہی ہے وہ ایسی ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ نہ یہ پیغمبر شاعر ہیں نہ ہم نے انہیں شاعری سکھائی کہ یہ ان کے شایان شان نہیں ہے اور قرآن تو نصیحت سے پرہے ( سورہ یٰسین آیت 69) تو اس کے سوا ہمارے علما ئے کرام کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ شاعری ہی کو حرام قرار دیدیں ؟ جبکہ اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے جس چیز جو حرام قرار نہ دیا ہو اسے کسی اور کو حرام قرار دینے کاکوئی اختیار نہیں ہے؟
بات صرف اتنی سی ہے کہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) جو کہ تمہاری علوم اور اخلاق کی اکملیت کے درجہ پر فائر تھے ، انہیں اس وجہ سے خالق نے شاعری نہیں سکھائی کہ عوام کا ان ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر جو اعتماد ہے وہ قائم و دائم رہے جو کہ رسالت کے لئے ضروری ہے؟ اسی لئے بار بار اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں نفی فرمائی ہے کہ نہ وہ شاعر ہیں او رنہ ہی شاعری انہیں زیب دیتی ہے اس لئے کہ وہ ان کے شایان شان نہیں ہے؟ وجہ بھی بیان فرمادی ہے شاعر عام طور پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ، جو کہتےہیں وہ کرتے نہیں ہیں ۔ جب کہ مسلمہ طور پر نبوت عطا ہونے سے پہلے ہی سے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) صادق القول اور امین مشہور تھے اور ہیں اور اللہ سبحان تعالیٰ نے ان کی شخصیت کو بنایا ہی صرف صدق اور امانت کے لیئے ہے۔
جب کہ عربوں کو اپنی زباندانی، فصاحت و بلاغت اور شاعری پر یہاں تک ناز تھاکہ وہ اپنے علاوہ ساری دنیا کو گونگا سمجھتے او رکہتے تھے؟ چونکہ آپ قرآن دیکھیں گے کہ جہاں جو سوال یا چیلنج حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو پیش آیا اس کا جواب اللہ سبحان تعالیٰ نے بذریعہ وحی عطا فرما دیا۔ یہاں پر بھی اس کی وہی سنت کا رفرما ہے کہ اسے کفار کے اس زباندانی کے غرور کو خاک میں ملانا تھا، لہٰذا انہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) معجزہ بشکل قرآن عطا فرمایا جس کی نقل کسی مخلوق سے ممکن ہی نہ تھی؟
کیوں؟ اس لیے کہ یہ مخلوق کی بساط سے باہر ہے؟ اس پر بہت کم لوگوں نے غور کیا ، اگر غور کرتے تو بات سمجھ میں آجاتی کیونکہ قرآن کی تلقین ہی یہ ہے کہ اس پر غور و فکر کرو، ہے کوئی غور و فکر کرنےوالا؟ یہ وہی چیز ہے جو ہم نے چھوڑی ہوئی ہے؟ اسی لیئے ہم اس راز تک نہیں پہنچ سکے ، جب کہ کفار تک ایک چھوٹی سی سورہ دیوارِ کعبہ پر چسپا ں دیکھ کر چیخ اٹھے کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا ۔
وجہ یہ تھی کہ عربی شاعری ہمیشہ سے عروض و قوائد کی پابند تھی اور ا س کی کوکھ سے جنم لینے والی زبانیں بھی اب اسی کی پابند ہیں جیسے کہ پہلے فارسی اور پھر اردو؟ اس کے بغیر نہ شعروں میں روانیت ہوتی ہے نہ حسن اور نہ ہی وہ معیاری شعر کہا جاسکتا ہے ۔ چونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہر چیز کرنے پر قادر ہے اور وہ صرف اس کے کن کہنے سے دور ہوجاتی ہے ۔ اس لیے اس نے ان کی زباندانی کے جواب میں قرآن کی شکل میں ایک نمونہ نازل فرمایا کہ قوائد کا پابند نہ ہونے کےباوجود ہر سقم سے پاک کیونکہ خالق کا کلام ہے جو ہر کام کرنے پر بغیر اسباب کے قادر ہے۔
اس میں عرب شعرا کے کلام کے مقابلہ میں بدرجہ اتم بلاغت ،فصاحت اور روانی ہے جب کہ انسان کے کہے ہوئے اشعار قوائد کی پابندی کریں تبھی یکساں ہوسکتے ہیں اور ان میں روانی آتی ہے ،غِنایت پیدا ہوتی ہے ! جب کہ اس کی پابندی کیئے بغیر بھی وہ تمام صفات قرآن میں موجود ہیں جب کہ اس میں کوئی آیت چھوٹی ہے کوئی آیت بہت بڑی ہے ،مگر ہر آیت ہر ایک کے کانوں میں رس گھول رہی ہوتی ہے؟
پھر اس میں پند نصائح ہیں، قوانین ہیں ، پورا ضابطہ اخلاق ہے، دوسری قوموں کے سچے قصے ہیں جو ہمیں محتاط کرنے اور سبق حاصل کرنے کے لیے سنائے گئے ہیں؟ جو اس کا اتباع کرے گا وہ شاعری مستحب ہے جو زمانہ جہالیت کے شعراء کا اتباع کرے گا؟
ا س کے لئے حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ ‘‘وہ امراو بن قیس کی قیادت میں جہنم میں جائے گا ’’چونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ‘‘ ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں؟ لہٰذا فحش اور مبالغہ آمیز شاعری کا الٹ اسلامی اور فلاحی شاعری ہے جس کو حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پسند فرمایا ہے او رجو مسلمان شاعران ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے وابستہ تھے ان کو حکم بھی دیا ہے کہ کفار کی بد گوئی کا جواب دو اور خود حضرت حسان ( رضی اللہ عنہ) بن ثابت اور اس سلسلہ میں دوسرے شعراء کی ہمت افزائی بھی فرمائی ہے۔
پھر جس طرح ہر فرد پر عمل چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس کے نتیجہ کے طو رپر جہنم میں جانا پسند کرتاہے یا جنت میں اسی میں شاعری بھی آتی ہے کہ وہ امراؤ بن قیس کااتباع کرتاہے یا حضرت حسان ( رضی اللہ عنہ)بن ثابت کا؟ جبکہ یہ قرآن ہے اور حدیث بھی کہ ‘‘ جو جس کا اتباع کرے گا اسی کے ساتھ کا حشر ہوگا’’اب فیصلہ خود بندے کوکرنا ہے کہ اسے اللہ سبحان تعالیٰ نے اگر شاعری کی صلاحیت ودیعت فرمائی ہے ، جسے حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک حدیث میں شاعری کو پیغمبر کا چالیسواں حصہ بھی فرمایا ہے ’’ خود فیصلہ کرے کہ وہ کس گروہ میں جانا چاہتا ہے ! امر اؤ بن قیس کے ساتھ یا حضرت حسان ( رضی اللہ عنہ) بن ثابت کے ساتھ !
چونکہ اللہ سبحان تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جس قوم میں جس وقت چیز کا چرچا تھا ویسے ہی معجز ے بھی عطا فرمائے ۔ چونکہ یہاں عربوں کو زباں دانی پر ناز تھا لہٰذا ان کے لئے قرآن بطور معجزہ نازل فرمایا او وہ بھی ایسے بندے کے ذریعہ جس کو بچپن سے تعلیم سے دور رکھنے کے باوجود اپنی رحمت سے وہ حکمت عطا فرمائی جس کو علم لدنی کہا جاتا ہے ، یہ وہ علم ہے جو کہ اللہ سبحان تعالیٰ کے علمِ خاص میں سے ہے او روہ جس سے جتناکام لینا چاہتا ہے اس کو اتنا ہی عطا فرماتا ہے ؟ کسی کو کم تو کسی کو زیادہ ، مگر وہ عطا ہر ایک کو فرماتا ہے جو کہ مخلوق کی زندگی کےلئے ضروری ہے ، جیسے پرندوں کو ہوا میں اڑنا یا بطخ کے بچے کو تیرنا وغیرہ یہاں بھی باقی علوم حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو بطور اتم عطا ہوئے جو کہ ان کی رسالت اور تا روزِ قیامت شفاعت کے لیے ضروری تھے۔
مگر شاعری بالکل عطا نہیں فرمائی لہٰذا بقول حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ ) بھی کسی دوسرے شاعر کا شعر پڑھتے بھی تھے تو ہمیشہ پڑھتے ہوئے کسی لفظ کی اضافت کر کے غلط پڑھتے تھے ؟
اس میں ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارادے کو میری ناقص رائے میں کوئی دخل نہ تھا بلکہ یہ اللہ سبحان تعالیٰ کا وہ فضل خاص تھا جو ان پر نگراں تھا؟ کیونکہ وہ اگر حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو اعلیٰ درجے کا شاعر بنا دیتا تو جو کہ ان کی شان اکملیت کا تقاضہ بھی تھا کے وہ آخری نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور انسان کامل تھے؟جن پر دین ختم ہوا ، انسانیت ختم ہوئی ، اخلاق ختم ہوا لہٰذا شاعری بھی ان پر ختم ہو کر اپنی انتہا کو پہنچنا ضروری تھی۔ لیکن اس سےمسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) تو بہت عظیم شاعر ہیں ، لہٰذا اوروں کی طرح شعر کہتے ہیں اور جو دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں وہ ایک خیالی دنیا ہے !۔
اس نے ان ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس سے دو ر رکھ کر اور ان سےشاعری کرانے کے بجائے ، قرآن اپنی طرف سے نازل فرمایا اور ساری دنیا کو دعوت مقابلہ دی کہ تم بھی آجاؤ اور تمام شیاطین کو جمع کرلو اور اس جیسی دس سورتیں تو بنا لاؤ؟سب اپنے دعوؤں کے باوجود اس میں ناکام ہوے تو یہاں تک آسان فرما دیا کہ اچھا ‘‘ اس جیسی ایک آیت ہی بنا لاؤ؟ اور نہ صرف عرب بلکہ عجم میں بھی آج تک کوئی نہیں بناسکا؟ یہ قرآن کے اللہ کے کلام ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
کیونکہ قرآن قادر الکلامی کا وہ نمونہ ہے جو کہ صرف اس ذات باری کی شان ہے اور کسی کے لیے ممکن ہی نہیں ہے ۔ اسی لیئے جوکفار شاعروں میں سے کچھ بھی ضمیر رکھتے تھے وہ پہلے تو پکار اٹھے کہ یہ انسا ن کا کلام نہیں ہوسکتا پھر بعد میں مصلحت غالب آگئی ۔ اور اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بہت سو ں نے دل میں مانتے ہوئے عوامی طور پر اعتراف نہیں کیا؟ چونکہ ہمیں ہر بات میں حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم )کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا لہٰذا وہیں سے روشنی لیتے ہوئے جو آج کل قوم نہیں لیتی ہے اس پر بات ختم کرتاہوں کہ جب سورہ الشعراء کی آخری آیات نازل ہوئیں جو 224 سے لے کر 227 تک ہیں۔ جن میں شاعری اور شاعروں کی مذمت کی گئی ہے اور عہد جاہلیہ کے شاعروں کے پیروی سے روک کر فرمایا گیا ہے کہ ‘‘ جھوٹے لوگ شاعروں کی پیروی کرتے ہیں ( آیت 224) پھر اگلی آیتوں میں پیروی سے روکنے کی وجہ بھی ظاہر فرمائی گئی ہے کہ وہ ہر ( میدان میں حلال اور حرام کی تمیز کے بغیر) طبع آزمائی کرتے پھرتے ہیں ( 225)اور تم نے دیکھا نہیں کہ جو وہ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں (226)؟
تو مسلمان شعراء حضرت حسان بن ثابت ( رضی اللہ عنہ) حضرت کعب بن مالک (رضی اللہ عنہ) اور عبداللہ بن رواحہ جن میں شامل تھے، حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور یہ کہہ کر رونے لگ گئے کہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہم تباہ ہوگئے ، ہم برباد ہوگئے ۔ تو حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے آیت نمبر 227ِکے آخری حصہ کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے لیے اس آیت کا یہ حصہ ہے کہ ‘‘ وہ جو ایمان لائے او راچھے کام کئے اور ظلم کا بدلہ اتنا لیا جتنا وہ ظلم کیئے گئے تھے’’ ان میں سے پہلے دو نے تو سمعنا اوراطعنا کا رویہ اختیار کیا اورتمام ممنوع قسم کی شاعری چھوڑ دی مگر عبداللہ بن رواحہ نے کچھ عرصہ کے بعد دین ہی چھوڑ دیا ، وہ مکہ معظمہ واپس چلے گئے اور شاعری کا وہ بدترین استعمال کیا کہ ان آٹھ افراد میں شامل ہوگئے جو فتح مکہ کے موقعہ پر حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے واجب قتل قرار دیئے گئے تھے ۔ مگر حضرت عثمان ( رضی اللہ عنہ) نے ان کو پناہ دے دی جس پر حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ کراہیت ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ان کی جان تو بخش دی ،مگر تاریخ میں وہ ہمیشہ متنازع رہے ، جب کہ وہ حضرت عثمان ( رضی اللہ عنہ) کے دور میں مصر کے گورنر اور امیر البحر بنے صحابہ ( رضی اللہ عنہ) کی ایک مقتدر جماعت نے ان کی قیادت میں لڑنے اور حکم ماننے سے انکار کردیا؟
13 جولائی، 2014 بشکریہ : روز نامہ خبریں ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/poetry-islam-/d/98241