New Age Islam
Mon Sep 16 2024, 08:27 PM

Urdu Section ( 22 Jun 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Repression in Marriage and Separation شادی اور علیحدگی میں جبر


شمیم طارق

22 جون ،  2012

بر طانیہ  کی حکومت ایک ایسا قانون بنانے کی سمت پیش رفت کر چکی ہے جس کے نافذ ہونے کے بعد شادی کے سلسلے میں لڑکا یا لڑکی پر جبر کرنے والے جرم کے مرتکب سمجھے جائیں گے۔  جبر کی شادی غیر قانونی پہلے بھی تھی مگر مشرق کی روایت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کو جرم  نہیں قرار دیا گیا تھا۔  مگر اب اس کو جرم قرار دیا جارہا ہے ۔  اس کانتیجہ  یہ ہوگا کہ برطانیہ میں کسی لڑکے یا لڑکی کو اس کی پسند کے بغیر شادی پر مجبور کرنے والے مجرم قرار پائیں گے۔  غیر قانونی ہونے اور جرم ہونے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ غیر قانونی ہونے کی صورت میں  پولیس یہ تو کرسکتی ہے کہ اس لڑکے یا لڑکی کو تحفظ عطا کر ے جس کی شادی اس کی مرضی کے بغیر جبراً کرائی جارہی ہے اور جبر کرنے والوں کو متنبہ کرنے کے ساتھ ایسی شادی نہ ہونے دے لیکن جرم قرار دیئے جانے کی صورت میں پولیس کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ شادی کے سلسلے میں جبر کرنے والوں کو گرفتار کرلے، ان پر مقدمہ چلا کر سزا دلوائے اور جبراً کرائی گئی شادی کو شادی نہ تسلیم کرے۔

ہندوستان میں محبت کی شادیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ الگ الگ برادریوں کے لڑکے لڑکیوں میں بھی شادیاں ہوتی ہیں لیکن زیادہ تروالدین ایسی شادیوں کو اپنی ناک کٹ جانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ پنچایتیں یہاں تک کرتی ہیں کہ ایسی شادی کرنے والوں کو جدا ہونے پر مجبور کرتی ہیں۔  ایک پنچایت ایسے لڑکےلڑکی کو بھائی بہن قرار دے چکی ہے جو 5,،  6سال تک میاں بیوی کے طور پر گزار چکے تھے ۔ اس پنچایت میں لڑکے لڑکی کے والدین بھی بلائے گئے تھے اور فیصلہ یہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے بیٹی کی نئی شادی کروائیں اور ایک نئی زندگی شروع کرنے میں ان کی مدد کریں ۔ دو الگ الگ مذاہب سے تعلق  رکھنے والوں کی شادی کی بنیاد پر تو اکثر فرقہ وارانہ فسادات ہوجاتے ہیں ۔   سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں ویسا ہی قانون بنایا او رنافذ کیا جاسکتا ہے جیسا برطانیہ میں نافذ کیا جانے والا ہے؟ او رکیا ایسا قانون ہندوستان میں نافذ کیا جانا مفید ہوگا؟ پہلےسوال کاجواب یہ ہے کہ  حکومت اکثریتی فرقہ کی مرضی کے خلاف کوئی قانون بنانے کی ہمت نہیں کرسکتی ۔ کہنے کو تو حکومت کہتی ہے کہ وہ کسی بھی فرقے یا طبقے کی مرضی کے خلاف اس کے عائلی قانون میں مداخلت نہیں کرے گی مگر ہو یہ رہا ہے کہ عدالتوں کے ذریعے وہ مسلمانوں کے قانون میں مداخلت کرتی رہتی ہے مگر جب مسلمانو ں کے علاوہ کوئی معاملہ آتا ہے تو وہ روایت پرمپرا کے نام پر بہت کچھ کرنے کی اجازت دے دیتی ہے۔

حکومت اور سیاسی پارٹیاں پنچایت کے چودھریوں کو اپنی طاقت کا منبع سمجھتی ہیں اس لئے روایت اور پرمپرا کے علاوہ ان چودھریوں کی اَنا او رمفاد کا بھی لحاظ رکھتی ہیں اس لیے نہ صرف شادی بیاہ کے معاملے میں بلکہ کئی دوسرے اُمور میں بھی چودھریوں کی چودھراہٹ ہی کو روایت او رپرمپرا کا نام دے دیا جاتا ہے ۔  نتیجتاً نہ صرف عاشقوں کے خوشنما خوابوں کا بلکہ انسانی آزادی او ربنیادی انسانی حقوق کا بھی خون ہوتا ہے ۔ اَب رہا یہ سوال کہ کیا ویسا ہی قانون ہندوستان میں بھی نافذ کیا جاناچاہئے جیسا برطانیہ میں نافذ کیا جارہا ہے تو جواب ہےکہ ابھی نہیں۔  اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس ملک میں اول تو اس کانفاذ مشکل ہے اور پھر اس قانون کے دائرے میں جبر کی شادی ہی نہیں میاں بیوی کی جبری علاحدگی بھی لائی جانی چاہئے ۔  دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اگر ایک طرف گاؤں یا برادری کی پنچایت سچے عاشقوں کا جینا دوبھر کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف اس ملک میں ایسے مکروہ لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو معصوم لڑکی کو عشق میں مبتلا کر کے شادی کا فریب دیتے ہیں او رپھر اس لڑکی کو جہنم میں دھکیل دیتے ہیں۔  اخبارات میں ایک شخص کے کئی کئی شادیاں کرنے اور کسی بھی بیوی کے ساتھ وفا او رانصاف نہ کرنے بلکہ اس پر ظلم کرنے والوں کے چہرے بے نقاب ہوتے رہتے ہیں ۔ ہم ہندوستانی چاہے کتنے روشن خیال  ہوں لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ یہاں بچیاں بہت جلد فریب میں آجاتی ہیں اس لئے شادی بیاہ کے معاملے  میں بڑی بوڑھیوں ، خاندان اور معاشرے کی نگرانی بہت ضروری ہے۔ اس پس منظر میں پنچایتوں کا ایک دوسرا روپ بھی سامنے آتا ہے لہٰذا پنچایتوں او رخاندانوں کے مشوروں کی حدود تو متعین کی جاسکتی ہیں مگر اپنی بچیوں کے فیصلے پر آنکھ بند کر کے ہاں کرنے کے لئے خاندان او رمعاشرے کے اٹھائے ہوئے سوالوں کی اَ ن دیکھی نہیں  کی جاسکتی ۔

برطانیہ او رہندوستان کے لوگوں کی سوچ اور طرز زندگی میں بھی بنیادی فرق ہے۔  ہندوستان میں لڑکی اور لڑکے کے بالغ کہلانے کے لئے 18 اور 21 سال کا ہونا او ررضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرنے کے لئے 18سال کا ہونا ضروری ہے۔ جب کہ  WHO یعنی عالمی صحت تنظیم کے مطابق 13 سے 19 سال کی عمر کو غفوان شباب تسلیم کیا گیا ہے اور بشمول برطانیہ مغرب میں 13,14سال کی عمر میں بچیاں جنسی تعلق کا تجربہ حاصل کر لیتی ہیں۔  ان کا معاشرہ اس کو برداشت کرتا ہے ۔ ہندوستان میں ایسا نہیں  ہے لیکن ہمارے یہاں برداری واد کی گرفت اتنی مضبوط ہے او رآج بھی پیدائش کے سرٹیفیکٹ سے اسکولوں کے فارم پر نام لکھوانے تک برادری اور ‘‘سرنیم’’ پر اتنا اصرار کیا جاتا ہے کہ ایک خاص قسم کی ذہنیت سے پوری عمر نجات نہیں ملتی ۔ اسلام تو اَنا عقیدہ تو حید او رمساوات کے عملی نمونوں کے ساتھ ہندوستان آیا لیکن یہاں آنے کے بعد برادری واد کے چکر میں اس طرح پھنس گیا کہ ‘‘ بتان رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا’’ کا نعرہ ایک تماشا بن کر رہ گیا اور ایک برہمن زادہ یہ نعرہ بلند کرنے والوں کو ‘‘ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن ’’یا ‘‘ مانند بتا ں پجتے ہیں کعبے کے برہمن’’ کا طعنہ دینے پر مجبور ہوا ۔  آج حالت یہ ہے کہ ہندوستان کے تمام لوگوں کو چاہے وہ کسی بھی مذہب ومسلک سے تعلق رکھتے ہوں اکرام انسانیت ، انسانی مساوات او ربنیادی انسانی حقوق سے زیادہ ‘ہڈی’ خاندانی روایت او ربرادری عزیز ہے۔ ایسی صورت میں شادی بیاہ کے معاملے میں جبر کا ہونا لازمی ہے ۔ حکومت اگر جبر ختم کرنا چاہتی ہے تو بہتر ہے کہ وہ برتھ سرٹیفکیٹ اور اسکول کے نام سے ایسے خانوں کو ختم کردے جن کو پر کرنے سے انسانی وحدت کے تصور پر ضرب اور شادی بیاہ کے معاملات میں جبر کی بنیاد فراہم ہوتی  ہے۔  اس کے بعد ان لوگوں پر گرفت کرنے میں مزید مستعدی کا مظاہرہ کرے جو شادی میں جہیز پر اصرار کرتے ہیں یا جہیز حاصل کرنے کےلئے کئی کئی شادیاں کرتے ہیں یا اس لئے شادی کا ڈھونگ رچاتے ہیں کہ گھر آنے والی لڑکی کو روپے کمانے کا گھناؤنا ذریعہ بنالیں ۔

برطانیہ میں عریانی ہے، جنسی بے راہ روی ہے مگر ریا کاری نہیں ہے۔ ہندوستان میں ریا ری او ردھوکا دہی بہت زیادہ ہے جس سے سب سے زیادہ نقصان نو عمر لڑکے لڑکیوں کو پہنچتا ہے۔  اس نقصان کو بڑے بوڑھوں کے مشوروں سے ہی کم کیا جاسکتا ہے اس لیے دونوں ملکوں میں شادی کا  ایک جیسا قانون بنائے جانے کا مشورہ قبول نہیں کیا جاسکتا ۔

22  جون، 2012     بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/repression-marriage-separation-/d/7706

Loading..

Loading..