شمیم طارق
22دسمبر،2018
ہندی کے ایک صحافی شیتلا سنگھ کی ایک کتاب کے بارے میں کچھ لوگوں سے گفتگو ہوئی تھی مگر کتاب دیکھنے اور پڑھنے کااتفاق نہیں ہوا تھا البتہ تجسس تھاکہ اس کتاب میں کیا ہے؟نوبھارت ٹائمز (ممبئی 17دسمبر،2018) میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا تو اس کو پڑھ کر اندازہ ہوگیا کہ کتاب میں کیا ہے۔ کتاب کا نام ہے ’’ ایودھیا : رام جنم بھومی بابری مسجد وواد( تنازع) کا سچ‘‘۔ اس کے مصنف شیتلا سنگھ صحافی تو ہیں ہی ، ایودھیا تنازع کا حل تلاش کرنے کے طویل کوششوں کاحصہ بھی رہے ہیں۔ انٹرویو پڑھنے کے بعد جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ایودھیا میں ایک تنازع کھڑا کردیا گیا اور پھر کوشش یہ کی جاتی رہی کہ تنازع حل نہ ہونے پائے بلکہ اس تنازع کی بنیاد پر ایک ایسی تحریک شروع کی جائے جو ایک خاص پارٹی اور ایک خاص ذہن کے لوگوں کے لئے حصول اقتدار کا زینہ بن جائے ۔ شیتلا سنگھ نے بڑی سچی او رکھری بات اپنے انٹرویو میں کہی ہے کہ ’’ اب تک تمام حل دودھرموں کا تنازع سمجھ کر ڈھونڈے جارہے ہیں جب کہ سیاست نے اسے دھارمک بھاؤناؤں کادھوون کرستّا ارجت کرنے ( یعنی مذہبی جذبات کااستحصال کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنے )کی کوششوں نے پیدا کیا ہے۔ اس سیاست کا عکس آپ 22،23 دسمبر،1949ء کو بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے میں بھی ڈھونڈسکتے ہیں ۔ ایک فروری 1986ء کو اس میں لگے تالے کھولے جانے میں بھی۔ 10نومبر1989ء کو کئے گئے شیلا نیاس میں بھی ،6دسمبر، 1992ء کوکئے گئے ودھونس ( مسماری) میں بھی اور اس کے بعد ادھیا دیش ( آرڈنینس) لاکر مندر نرمان ( تعمیر) کرانے کے وعدو ں میں بھی ‘‘ ۔ ایودھیا کے ہمہ جہت ترقی کے لئے ایک ٹرسٹ قائم کیا گیاتھا جس کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس اور سیکریٹری کتاب مصنف ( شیتلا سنگھ) تھے ۔ مصنف کاکہنا ہے کہ مہنت نرتیہ گوپال داس اس وقت اس ٹرسٹ کے صدر ہیں جو رام جنم بھومی مندر ٹرسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے اور وشوہندو پریشد کا حصہ ہے مگر جس میٹنگ میں فریقین نے ایک خاص فارمولے پر اتفاق کیا تھا وہ پرم ہنس رام چند ر داس کے دگمبر اکھاڑے میں ان ہی کی صدارت میں منعقدہوئی تھی۔ بعد میں وشوہندو پریشد کے لیڈر وشنو ہری ڈالمیا نے اس ٹرسٹ کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی جو ایودھیا کی ترقی کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔ ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ وہ ایودھیا /فیض آباد کے رہنے والے نہیں تھے ۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ دلی کے جھنڈے والان میں واقع کیشو گنج میں ایک میٹنگ ہوئی اور اس میں آر ایس ایس سربراہ بالاصاحب دیورس نے اشوک سنگھل کو پھٹکارا کہ انہوں نے تنازع کا حل کیوں قبول کیا ؟ بقول شیتلا سنگھ دیورس نے یہ بھی کہا کہ ’’ دیس میں رام مندر تو بہت ہیں اس لئے ہمیں اس کی چنتا ( فکر) چھوڑکر اس کے آندولن کے ذریعہ ہندوؤں میں آرہی چیتنا ( بیداری) کا فائدہ اٹھانا ہے‘‘ ۔ اس کے بعد وشوہندو پریشد نے اتفاق پر مبنی فارمولے کو یہ کہہ کر سبوتاژ کردیا کہ اس میں یہی طے نہیں ہے کہ مندر کا گربھ گرہ کہاں بنے گا؟ اس کے بعد وہی لوگ جو اس تنازع کو عدالت میں لے گئے تھے یہ کہنے لگے کہ یہ معاملہ عدالت میں حل نہیں ہوسکتا۔
معاملہ عدالت میں ہے اس لئے کچھ لکھنادرست نہیں ہے مگریہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جو مسلم پرسنل لابورڈمیں ہیں او ررہ رہ کر ’’ اپنی ذاتی‘‘رائے بھی پیش کرتے رہتے ہیں یا اسی قسم کے دوسرے لوگ جن کے نام بھی کبھی نہیں سنے گئے وہ ایک بیان دے کر سرخیوں میں آنے کی کوشش کرتے ہیں یا جو لوگ اپناعہدہ بچانے کے لئے دو مذہبوں او ردو مسلکوں کے درمیان منافرت، پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانامقصودہوتا تو رام مندر کب کابن چکا ہوتا ۔ مگر بقول بالاصاحب دیورس رام مندر تو ہندوستان میں کافی ہیں،مقصد اس مسئلہ کو جذباتی مسئلہ بنا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کا ہے۔ اسی لئے ایک تنازع پیدا کر کے اس کو عدالت میں لے جایا گیا اور اب یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ عدالت میں یہ معاملہ حل کیا ہی نہیں جاسکتا ۔ اس کے لیے مرکزی حکومت کو قانون سازی کرناچاہئے ۔
شیتلا کا انٹر ویو کا عنوان ہے ’’ مندر بننے میں بادھا ہے مسلم ورودھی بھاؤنا‘‘ اس سے زیادہ واضح پیغام ایک صحافی او رکیا دے سکتا ہے؟ خوشی کی بات ہے کہ نوبھارت ٹائمز نے اس کو ادارتی صفحے پر شائع کیا ہے۔ ایودھیا او رکچھ دوسرے مسائل نے واضح کردیا ہے کہ اس ملک میں جہاں ایسے مسلمانوں کی کمی نہیں ہے جو صرف لالچ اور مفاد کے تحت بیان دیتے رہتے ہیں وہیں اپنے غیر مسلم بھی ہیں جو بہر حال سچ کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ اچھا ہے کہ ایسے مسلمان بے نقاب ہورہے ہیں ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اگر چہ ایسے لوگوں نے برأت کا اظہار کرتا رہا ہے مگر بورڈ کو یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ اس کی صفوں سے بار بار ’’ذاتی‘‘ رائے دینے والے کیسے نکلتے رہتے ہیں ۔ راقم الحروف مسلمانوں کی اجتماعی قیادت پر بے اعتمادی کا اظہاقطعی نہیں کرتا مگربورڈ کو یہ مشورہ ضرور دیتا ہے کہ وہ اپنی صف میں گھس پیٹھ کرنے اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم کو کسی سیاسی ذہنی یا پارٹی کو تقویت عطا کرنے والوں سے ہوشیار رہیں ۔ دوسری طرف تمام مسلمانوں کیلئے لمحۂ فکر یہ ہے کہ وہ ان غیر مسلموں سے رابطہ نہیں بنا سکے ہیں جو سچ بولنے او رلکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ کسی صحافی یا قلمکار کی کسی ایک بات سے اتفاق یا اختلاف کایہ مطلب نہیں کہ ہم ہمیشہ او رہر معاملے میں اس سے اختلاف یا اتفاق کریں، لیکن کسی خاص معاملے میں کسی شخص نے کوئی سچ بات کہی ہے تو اس کا اعتراف او ر سچ کہنے او رلکھنے والے کا اکرام ضروری ہے۔ اسی طرح اس بات پر غور کرنابھی ضروری ہے کہ جس شخص نے اس میٹنگ کی صدارت کی تھی جس میں اتفاق رائے سے ایودھیا تنازع کوختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی وہ شخص وشوہندوپریشد میں کیسے چلاگیا؟ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں کون کس وقت پالا بدل دے اس کا بھروسہ نہیں اس لئے انہیں سے محتاط رہنے کی ضرورت نہیں جو مخالفت میں لکھ بول رہے ہیں بظاہر ہم نوالی کرنے والوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
22دسمبر،2018، بشکریہ : انقلاب،نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/hindi-book-ayodhya-dispute-/d/117240
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism