شکیل شمشی
12 جولائی ، 2015
کچھ برس پہلے کی بات ہے کہ میرےکنبے کے لوگ لکھنؤ سےآنے والے تھے اور میں ان کی ٹرین کے انتظار میں نئی دہلی کے اسٹیشن پر موجود تھا، مگر ٹرین مسلسل لیٹ ہوتی جارہی تھی اس لئے میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے میں کتابوں کی ایک دکان پر رک گیا ۔ وہاں میری نگاہ ہندی میں لکھی ہوئی ایک کتاب پر پڑی جس کا ٹائٹل تھا ‘قرآن سار ’ اور مصنف کا نام ونوبا بھاوے تحریر تھا ۔ میں نے کتاب الٹ پلٹ کر دیکھی تو میر ی حیرانی کی انتہا نہیں رہی ۔ اس کتاب میں بھودان تحریک کے رہنما ، گاندھی جی کے قریبی ساتھی اور جد وجہد آزادی کے ایک سور ما و نوبا بھاوے نے قرآنی آیات کا ترجمہ کیا تھا ، تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ایک بار شروع کرنے کے بعد ختم کرنا میرے لئےمشکل تھا اس لئے میں نے وہ کتاب فوراً خرید لی۔ اس کتاب نے میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، کیونکہ میں اب تک ونوبا بھاوے کو ایک ایسے سنت کے روپ میں جانتا اور پہچانتا تھا جس نے گاندھی جی کے تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جس نے جوانی سےلے کر بڑھاپے تک اپنی زندگی اس ملک کی خدمت میں گزاردی اور کوئی عہدہ قبول نہیں کےکیا ۔میں تو اس ونوبا بھاوے کو جانتا تھا جس نے گاؤکشی روکےجانے کے لئے مرن برت (تادم مرگ بھوک ہڑتال) کرتے ہوئے اپنی جان دی،لیکن اس کتاب کے ذریعہ میرے سامنے ایک ونوبا بھاوے کا بالکل الگ ہی چہرہ تھا ۔
اس کتاب کی تمہید پڑھنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسی کتاب کو انہوں نے روح القرآن کے نام سے اردو میں شائع کیاہے، لیکن اردو کا نسخہ مجھےدکان پر نہیں مل سکا ۔ اس دن پہلی بار ایساہواکہ ٹرین کاانتظار برا نہیں لگا کیونکہ میں اس کتا ب کو پڑھنے میں پوری طرح کھو چکا تھا ۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں ونوبا بھاوے کے قریبی ساتھی اچیوتبھائی دیش پانڈے نے ونو با بھاوے کےبارے میں اتنی دلچسپ باتیں تحریر کی تھیں کہ کتاب کو چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا تھا ۔ اس کتاب نے ونو با بھاوے کے بارے میں میرا نظریہ بالکل بدل کر دکھ دیا ،کیونکہ انہوں نے قرآن سیکھنے کےلئے جتنی جد وجہد کی اتنی تو شاید کوئی مسلمان بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ ‘قرآن سار’ یا روح القرآن میں ونوبا بھاوے قرآن پاک کی صرف ایک ہزار پینسٹھ آیات کو ترجمہ پیش کیا ہے،لیکن ترتیب کا اندازہ بالکل جدا گانہ ہے۔ انہوں نے ایک ہی موضوع کے متعلق جو آیات الگ الگ سورتوں میں نازل ہوئی تھیں ان کو ایک ہی جگہ کردیا ۔ اگر آپ کو شرک کےبارےمیں اللہ کے احکامات دیکھنا ہے تو وہ آپ کو ایک ہی جگہ پرمل جائیں گے ، توحید کے متعلق آیات کی تلاش ہے تو روح القرآن میں سب ایک ہی جگہ موجود ہیں، خواتین کے بارے میں حکم الہٰی کیاہے اس سے متعلق آیات ایک جگہ پر ہیں، جہاد کیا ہے اور کہاں کہاں جہاد واجب ہے اس سےمتعلق آیات بھی ایک ہی جگہ ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اتنی محنت اور تحقیق کاکام کرنے کےلئے انہیں ایک دو مددگاروں کی ضرورت تھی تو انہوں نے اپنے رفیق اچیوتبھا ئی دیش پانڈے کو 1940ء میں ہدایت دی کہ وہ بھی قرآن پڑھنا سیکھیں ۔
انہو ں نے 19 سال کی محنت اور جانفشانی سے قرآن پڑھنا سیکھا اور ان کے ساتھ نرملا تائی دیش پانڈے نے بھی قرآن پڑھنا سیکھا اور ان لوگوں نے قرآن کی ترجمے کی پرنٹنگ وغیرہ میں ونوبا بھاوے کی مدد کی، خیر اللہ کس سےکون سا کام لیتا ہے اورکس کو کس بات کی توفیق دیتاہے وہ تو بس اللہ ہی جانتا ہے لیکن جن حالات میں ونوبا بھاوے نے قرآن کریم کی تلاوت اور مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کی ان کے بارے میں اختصار سےبتانا ضروری ہے ۔پہلی بار ونوبا بھاوے نے 1916ء میں گاندھی جی کا دامن تھاما اور پھر گاندھی جی کےکہنے پر وہ مہاراشٹر کے واردھا ضلع میں قائم کئے گئے آشرم کی نگہبانی میں لگ گئے ۔ اسی آشرم میں ونوبا بھاوے نے مقامی بچوں کو پڑھانا شروع کردیا، ان بچوں میں ان سےدرس لینے کے لئے ایک مسلمان بچہ بھی آتا تھا ایک دن اس بچے نےمعصومیت سے اپنے استاد ونوبا بھاوے سےسوال کیا کہ ‘‘ گروجی کیا آپ مجھے قرآن شریف بھی پڑھا سکتےہیں ’’ ونوبابھاوے اس غیر متوقع سوال پر خود حیران تھے لیکن انہوں نے بچے سے یہ نہیں کہا کہ وہ قرآن نہیں پڑھا سکتے ،بلکہ کہا ضرور پڑھائیں گے ، مگر کچھ دنوں کے بعد پڑھائیں گے۔
اپنے مسلم شاگرد سےوعدہ کرنے کے بعد ونوبا بھاوے کو ایک ہی دھن سوار ہوگئی کہ قرآن پڑھنا کیسے سیکھا جائے ۔ وہ قرآن کا انگریزی ترجمہ بہت پہلے پڑھ چکے تھے ،لیکن عربی سےنابلد ہونے کی وجہ سے قرآن شریف کی تلاوت کرنے سے قاصر تھے ۔ انہوں نے واردھا میں موجود ایک مقامی قاری سےقرآن پڑھنا شروع کردیا اور عربی بھی سیکھ لی، لیکن وہ چاہتے تھے کہ قرآن کی تلاوت میں وہ پوری طرح سے مہارت حاصل کرلیں ، اس لئے انہوں نے ہر دن آل انڈیا ریڈو سےنشر ہونے والی تلاوت کلام مجید کوبغور سننا شروع کیا اس طرح اپنے تلفظ کو انہوں نے صحیح کیا اور پوری طرح عربی لہجہ اختیار کر نے کی زبردست مشق کی۔ اسی انتھک محنت اور کوشش کی وجہ سے ونوبا بھاوے کو ایسی مہارت حاصل ہوگئی کہ جب وہ تلاوت کرتے تھے تو لوگ مبہوت رہ جاتےتھے ۔ ونوبابھاوے کےمعاون اچیو تبھا ئی دیش پانڈے نے لکھا ہے کہ جب ونوبا بھاوے تلاوت قرآن مجید کرتے تھے تو ان کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوجاتے تھے۔ ان کی تلاوت سےسننے والوں پر بھی اس کاایک الگ ہی اثر ہوتا تھا ۔
انہوں نے لکھا ہے کہ جب مولانا ابوالکلام آزاد واردھا کے آشرم میں گاندھی جی سے ملاقات کے لئے آئے تو گاندھی جی نے ونوبا بھاوے سےدرخواست کی کہ وہ مولانا کے سامنے تلاوت کریں ۔ جب ونوبابھاوے نے تلاوت شروع کی تو مولاناحیران رہ گئے، ان کو یقین نہیں ہواکہ گاؤں کے کسی قاری سے قرآن سیکھ کر کوئی اتنی بہترین تلاوت کرسکتاہے ۔ بعد میں ان کو بتایا گیاکہ تلاوت میں اتنی مہارت حاصل کرنے کےلئے ونوبابھارے نے کسی زبردست محنت کی ہے۔ دیش پانڈے نے لکھا ہےکہ سرحدی گاندھی عبدالغفار خا ں اکثر واردھا کے آشرم میں آیاکرتے تھے اورو نوبا سےقرآن شریف کے بارے میں گفتگو کرتے تھے ، اسی گفتگو میں ونوبا بھاوے نے غفار خاں سےکہا کہ ان کو مکی آیات کی تلاوت کرتے وقت بےحد سکون ملتاہے اور ان کو بہت پسند ہے کہ وہ ان آیات کی تلاوت میں ایک خاص سکون ملتاہے ۔ ونوبا بھاوے نے قرآن پاک کو سمجھنے کےلئے عربی زبان کو بھی اچھی طرح سمجھا اور قرآن کریم کےمختلف زبانوں میں موجود ترجموں کامطالعہ بھی کیا ، لیکن ملک کی آزادی کی جدو جہد میں مسلسل جیل جانے اور بھودان کی تحریک کو آگے بڑھانے کےلئے مختلف شہروں کا دورہ کرنے کے باوجود ونوبا بھاوے قرآن کےمطالعہ کے کام میں لگے رہے اور ملک کےکئی حصوں میں قرآن کی تعلیمات پر شاندار لیکچر دینےکی وجہ سے وہ بہت مقبول ہوگئے ۔ بھودان کی مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ بھودان سمّیلن میں شامل ہونے کےلئے اجمیر گئے تو وہاں انہوں نے قرآن کے آفاقی پیغام پر زبردست تقریر کر کے سب کو حیران کردیا۔اجمیر کے روحانی ماحول نے ان کو بہت متاثر کیا اور انہوں نے اپنی شدید مصروفیت کو طاق پر رکھتے ہوئے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ کرنےکا فیصلہ کیا ۔
اس سےپہلے وہ سورہ فاتحہ اور سورۂ اخلاص کامراٹھی میں منظوم ترجمہ کر چکے تھے ۔ ونوبا بھاوے چاہتے تھے کہ وہ قرآنی آیات کا ترجمہ تو کریں، لیکن ان کو ایک انداز میں سجا کےرکھیں ، اسی خیال کےتحت انہوں نے ‘‘قرآن سار’’ اور روح القرآن کے نام سے اردو اور ہندی میں قرآنی آیات کا ترجمہ کرکے ایک موضوع سےمتعلق آیات کو ایک جگہ پریکجا کردیا۔ روح القرآن اور قرآن سار کی پرنٹنگ کے بارے میں دیش پانڈے نےایک بڑا دلچسپ واقعہ لکھا ہے جس کو نقل کر کے اپنی بات ختم کرناچاہوں گا۔ وہ لکھتےہیں کہ میں ایک پیٹی میں قرآن سار کا مسودہ لے کر ٹرین سےبنارس جارہا تھا ، ٹرین میں زبردست بھیڑ تھی جس کی وجہ سے پیٹی ہاتھ سےگر گئی اور ریل گاڑی کو زنجیر کھینچ کر روکا گیا ، لیکن تب تک ٹرین کا پہیہ پیٹی سے سے گزر چکاتھا ۔ پیٹی پوری سے برباد ہوچکی تھی لیکن جب اس کو کھول کر دیکھا تو پہیہ صرف وہیں پرچلاتھا جہاں پر حروف نہیں تھے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ونوبا بھاوے کے اس کارنامے سےمسلمانوں کی نئی نسل بالکل ناواقف ہے۔ جب کہ اس طرح کے لوگوں کے حالات زندگی اور ان کے کارناموں میں تشہیر سےفرقہ وارانہ منافرت کو بڑی حد تک مٹایا جاسکتاہے ۔
12 جولائی، 2015 بشکریہ : انقلاب نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-translator-holy-quran-vinoba/d/103916