شکیل شمسی
21اکتوبر،2017
ایک بار پھر سے افغانستان
میں طالبان نے اپنے حملے تیز کردیئے ہیں، منگل کو انہوں نیغزنی اور پتیکا علاقوں میں
خود کش حملے اور بم دھماکے کر کے 72لوگوں کو قتل کردیا او راس کے صرف 24گھنٹوں کے اندر
انہوں نے بدھ اور جمعرات کی درمیان رات میں قندھار کے ایک فوجی مستقرپر حملہ کر کے
وہاں محو خواب 43افغان فوجیوں کو ہلاک اور 9کو زخمی کردیا۔ حملے کے وقت فوجی مستقر
میں صرف 60جوا ن موجود تھے، باقی کے 8فوجی لاپتہ ہیں ۔ اس حملے میں 10طالبانی دہشت
گرد کی مارے گئے ۔ واضح ہوکہ طالبان کے حملوں میں تیزی آنے کا سبب یہ بتایا جارہا ہے
کہ طالبان نے چین اور روس سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ چین اور روس کی جانب سے طالبان کے ساتھ
گفتگو کئے جانے پر زور دئے جانے سے بھی اس خبر کو تقویت ملتی ہے کہ کوئی معشوق ہے اس
پردۂ زنگاری میں ۔ روس اور چین کا طالبان کی طرف جھکاؤ اس لئے ہوا ہے کہ ان دونوں ممالک
کولگتا ہے کہ افغانستان میں داعش کو کمزور کرنے کے لئے طالبان کومضبوط بنانا ضروری
ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ روس نے جنوری کے مہینے میں چین اور پاکستان کے نمائندوں کے ساتھ
ایک میٹنگ کر کے داعش کو روکنے میں طالبان کے رول پر غور و خوض کیا تھا ۔
طالبان کے ساتھ ربط ضبط بڑھانے
والی تگڑی میں چین و پاکستان تو ہندوستان کے دشمن ہیں جب کہ روس ہندوستان کا دہائیوں
سے قریبی دوست رہا ہے، مگر ہندوستان کی امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت نے پرانی دوستی
کو کچھ کمزور ضرور کیا ہے۔ روس یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ طالبان ہندوستان کے بہت
سخت دشمن ہیں اور اگر خوانخواستہ کبھی ان کو افغانستان میں پھر سے اقتدار حاصل ہوگیا
تو ہندوستان کے مفادات کوبہت نقصان پہنچائیں گے ،مگر یہ دنیا ہے اور دنیا کی سیاست
میں نہ کوئی ہمیشہ دشمن رہتا ہے اورنہ کوئی دوست ۔ یہی افغانستان تھا، یہی روس تھا
اور یہی طالبان تھے جب اسلام کے نام پر مجاہدین کی ٹولیاں روسی فوجیوں پر ٹوٹ رہی تھیں
، پاکستان کی سرزمین پر اسلام کی حفاظت کرنے والے ٹھیکیدار جگہ جگہ کیمپ لگائے بیٹھے
تھے ، جن کو سادہ لوح مسلمان اپناپیٹ کاٹ کر چندہ دے رہے تھے ، اسامہ بن لادن اور ایمن
الظواہری جیسے امیر لوگ اپنا کام کاج اور کاروبار چھوڑ کر اسلام کے دفاع کے لئے میدان
میں اتر رہے تھے ، امریکی اسلحے اور سی آئی اے کے افسران کی مدد سے افغانستان کی وادیوں
میں مسلمان نوجوان اپنے خون کا نذرانہ پیش کررہے تھے اور پھر ایک دن روس کو وہاں سے
جانا پڑا ، وہاں عمر کو امیر المومنین بنا کر بٹھا دیا گیا، سعودی عرب کے تو شہ خانے
سے رحمت للعالمین کی دستار مبارک نکال کر لائی گئی اور ملا عمر کے سر پر رکھی گئی،
سب خوش تھے کہ اسلام سر خرو ہوا اور مجاہدین کامیاب ہوئے ، لیکن یہ جشن صرف 2001ء تک
ہی چل پایا ۔ نائین الیون کے نام پر امریکہ اور مجاہدین کے درمیان جنگ چھر گئی ، ملا
عمر کے جس سر پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دستار مبارک رکھی گئی تھی اسی سر پر
کئی لاکھ ڈالر کا انعام مقرر ہوا۔
کل تک امریکہ نوازوں کی نظر
میں جو شخص امیر المومنین تھا اور امیر الظالمین کہا جانے لگا، اسامہ نے افغانستان
کی پہاڑیوں میں روپوشی اختیار کی، ظواہری نے ظاہری زندگی سے کنارہ کشی اختیار کی، طالبان
،القاعدہ اور مجاہدین دنیا کے بد ترین انسان قر ار پائے اور پھر افغانستان میں جمہوریت
کے نگاڑے بجنے لگے ۔طالبان سے مایوس ہو کر امریکہ داعش اور النصرہ فرنٹ کی تشکیل کی
اور اس بار افغانستان کی زمین سے دور عراق ،شام او رلیبیا کے شہروں کو مسلمانوں کی
بربادی کا ٹیسٹ کرنے والی لیباریٹری بنایا، مگربدقسمتی سے وہاں دہشت گردی کے انجکشن
نے خود امریکہ کے بدن میں ہی پھوڑے ڈال دئے اور داعش ایک مہلک وباکی طرح ہر طرف پھیل
گئی ۔ اب یہی وبا افغانستان میں بھی پہنچ گئی ہے اورطالبان کولگ رہا ہے کہ اب ان کی
دہشت گردی پھیکی پڑنے والی ہے، اس لئے انہوں نے روس اورچین کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے اور
خود کوافغانستان کی سب سے طاقتور جنگجو تنظیم بتانے کے لئے حملے تیز کردیئے ہیں، یعنی
طالبان بدل گئے اوران کے دشمن بھی بدل گئے، اگرکچھ نہیں بدلا ہے تووہ طالبانی جنگجوؤں
کے ماتھے پر پڑے سجدوں کے نشا ن ہیں جو کل بھی بہت گہرے تھے اور آج بھی بہت گہرے ہیں،
ہاں اتنا ضرورہوا ہے کہ ان کا خدا بدل گیا ہے پہلے امریکہ تھا اورروس اور چین ہیں ان
کے معبود۔
21اکتوبر،2017 ، بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL:
https://www.newageislam.com/urdu-section/taliban-explosive-return-/d/112976