شکیل شمسی
29 اپریل 2020
مہاراشٹر کے پال گھر میں ایک مشتعل بھیڑ کے ہاتھوں دو سادھووں کے بے رحمانہ قتل کو ابھی دس دن نہیں ہوئے تھے کہ بلند شہر کی انوپ شہر کوتوالی کے تحت آنے والے گاوں پرونا میں دو سادھووں کو ایک مندر کے اندر بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ پال گھر کے واقعہ کا کوریج دکھا دکھا کر اور اس پر اسپیشل پروگرام بنا بنا کر عوام کا دماغ خراب کردینے والے چینلوں نے بلند شہر کے معاملے پر ایک دم خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کچھ چینلوں نے تو اس کا ذکر تک نہیں کیا اور کچھ نے صرف اسکرین پر پٹی چلا کر اس خبر کو نمٹا دیا۔ نیوز چینلوں کی جانب سے اس معاملے کو پوری طرح نظر انداز کردئے جانے کی وجہ سےیہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ سادھووں کو مارنے والے قاتل کا تعلق بھی سادھووں کے فرقہ سے ہے، ورنہ نیوز چینلوں پر اس قدر چیخ پکار مچی ہوتی کہ جو لوگ کورونا کے وائرس سے بچ گئے تھے ان کو فرقہ پرستی کا وائرس مار دیتا۔
ذرا سوچئے کہ اگر ان دونوں سادھووں کا قتل( خدانخواستہ) کسی مسلمان غنڈے یا ڈکیت نے کر دیا ہوتا تو ارنب گوسوامی کا اس وقت کیا حال ہوتا؟ یا یہی واقعہ اگر کسی ایسے صوبے میں ہوا ہوتا جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے تو سدھیر چودھری کو فرقہ پرستی کی مرگی کے کیسے کیسے دورے پڑ رہے ہوتے؟ اپنے کو صحافی کہہ کر صحافت کی عصمت دری کرنے والے دیپک چورسیا جیسے اینکرس کس قدر بلند آواز میں بلند شہر کا تذکرہ کر رہے ہوتے؟ وہ ارنب گوسوامی جس سے کل ہی مہاراشٹر کی پولیس نے دس گھنٹے تک پوچھ گچھ کی ،وہی تو پرسوں تک پال گھر کے معاملے پر سونیا گاندھی سے جواب مانگ رہا تھا تو آج وہ چپ کیوں ہے؟ کیوں اس کو مقتول سادھووں پر ترس نہیں آ رہا ہے؟ کیا یو پی میں مارے جانے والے سادھووں اور مہاراشٹر میں قتل ہونے والے سادھووں کے خون کا رنگ لال نہیں ؟ واضح ہو کہ ارنب گوسوامی جیسے کئی ایسے جرنلسٹ یہاں موجود ہیں جو اس ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں، اسی لئے تو جب ممبئی کے باندرہ اسٹیشن کے مہاجر مزدور جمع ہوئے تو اس کو ارنب گوسوامی نے مسجد کے پاس جمع ہونے والی بھیڑ کہہ کر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی اور بار بار چیخ کر پوچھا کہ جب بھی کورونا کے معاملے پر بھیڑ جمع ہوتی ہے تو وہ مسجد کے آس پاس ہی کیوں ہوتی ہے؟ یہی بد بخت انسان جو آج ہندوستانی صحافت کے ماتھے کا کلنک بن گیا ہے، پال گھر کے معاملے کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھرپور کوشش کر چکا ہے اور اسی نام پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو کھینچنے کی کوشش میں اب بھی لگا ہوا ہے۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اپنے چینل کے کیمرے کے سامنے جو شخص بہت بہادر بن رہا ہے وہ اندر سے اتنا سہما ہوا ہے کہ مہاراشٹر میں ہونے والےقتل کے لئے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ سے سوال نہیں کر رہا، بلکہ یو پی اے کی سربراہ سے سوال پوچھ رہا ہے۔ ارنب گوسوامی کو معلوم ہے کہ اگر ادھو ٹھاکرے کی شان میں گستاخی کی تو شیو سینک کانگریس والوں کی طرح کار پر صرف روشنائی پھینک کر احتجاج نہیں کریں گے ۔ویسے ارنب گوسوامی کی بہادری کا عالم اگر آپ کو دیکھنا ہو تو اس کا وہ انٹرویو دیکھ لیجئے جو اس نے ۲۰۱۴ء میں مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے سے لیا تھا۔اس انٹرویو میں راج ٹھاکرے کے سامنے یہی صحافی بھیگی بلی بنا بیٹھا تھا اور آج بھی شیو سینا کے معاملے میں یہ شخص بھیگی بلی ہی بنا ہوا ہے، اسی لئے ادھو ٹھاکرے کےخلاف ایک بھی اہانت آمیز جملہ کہنے کی اس میں ذرا سی بھی ہمت نہیں ہے۔یہ اپنی ساری بہادری کانگریس کے خلاف ہی دکھا سکتا ہے، بی جے پی کے خلاف بولنے کی ہمت بھی نہیں ہے، اسی لئے یو پی میں ہونے والے جرم پر وہی شخص خاموش ہے جو پال گھر کے معاملے پر پور ا ہندوستان سر پر اٹھائے تھا۔ہم ارنب گوسوامی سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ بلند شہر میں قتل ہونے والے سادھووں اور پال گھر میں قتل ہونے والے سادھووں میں کیا فرق ہے؟ کیا یہی کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کی سرکار نہیں ہے اور یو پی میں بی جے پی کی سرکار ہے؟ یا ان سادھووں کے قتل کو فرقہ پرستی کا کوئی اینگل دینا ممکن نہیں ہے ،اس لئے ریپبلک ٹی وی خاموش ہے؟ یا پھر ان دونوں کے قتل پر خاموش رہنے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اس دوہرے قتل کی مذمت میں پر ینکا گاندھی نے پہلے ہی ٹوئیٹ جاری کردیا ہے اور اس میں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یو پی میں اپریل کے ابتدائی پندرہ دنوں میں ۱۰۰؍لوگوں کو قتل کیا جا چکا ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ ارنب اور اس کے جیسے فرقہ پرست صحافی اس معاملے میں کچھ نہیں بولیں گے، کیونکہ ’’یہ زباں کسی نے خرید لی یہ قلم کسی کا غلام ہے‘‘۔
29 اپریل 2020 بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/palghar-buland-shahr-double-standard/d/121710
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism