شکیل شمسی
27 مارچ، 2016
اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں کا گلا یہ کہتے کہتے خشک ہوا جارہاہے کہ دہشتگردی سے اسلام کا کوئی واسطہ نہیں ہے، لیکن اسلام پر دہشتگردی کا جو لیبل اہل مغرب کی مدد سے دہشتگردوں نے چسپا ں کیا ہے اس کو ہٹانے میں کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ساری دنیا میں مسلم لیڈر دہشتگردی کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، جگہ جگہ اجلاس او رکانفرنسوں کا انعقاد ہورہا ہے، مسلم علما اپنی تقاریر میں دہشتگردی کے خلاف سخت زبان استعمال کررہے ہیں، مسجدوں ، مدرسوں ، خانقاہوں اور امام باڑوں سے دہشتگردی کی بھر پور مذمت ہورہی ہے اور ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحثوں میں بھی مسلم مفکرین اور دانشور حضرات انتہا پسندوں کے خلاف بڑھ چڑھ کر اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں، مگر مسلمانوں کی اتنی کوششوں کے باوجود دہشتگردی سے اسلام کا پیچھا نہیں چھوٹ پا رہا ہے۔ جب کہ اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ دنیابھر کے ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے ( ایک انداز کے مطابق ) 35 سے 40 ہزار طالبانی دہشت گرد افغانستان میں ، داعش کے 50 ہزار عراق میں اور 30 ہزار شام میں ، النصر ہ کے 10 ہزار شام میں ۔ تحریک طالبان کے 30 سے 35 ہزار پاکستان میں ، بوکو حرام کے 5 سے 10 ہزار نائجیریا میں، القاعدہ سے وابستہ تنظیموں کے 30 سے 50 ہزار دہشت گرد صومالیہ ، یمن ، مصر، سعودی عرب، لیبیا، چیچنیا، چین ، انڈونیشیا اور دوسرے ممالک میں موجود ہیں۔
ہندوستان میں بھی دہشتگرد موجود ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے ۔ وکی پیڈیا میں موجود اطلاع کے مطابق ہندوستان میں القاعدہ سے وابستہ تنظیموں کے 300 ممبران موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی جیش محمد ، لشکر طیبہ اور دیگر دہشتگرد تنظیموں نے بھی یہاں حملے کئے ہیں ۔ ان تمام اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث ہونے والے مسلمانوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ ان کا تناسب بھی نکالنا دشوار ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار مسلمان ہیں، اور دہشت گردی کے واقعات کے لئے دنیا کے پانچ سر فہرست ممالک میں سے عراق، افغانستان ، پاکستان اور شام سب سے اوپر ہیں جب کہ نائیجریا ایک ایسا واحد سیکولر ملک ہے جو اس فہرست میں شامل ہے، مگر فکر مندی کی بات یہ ہے کہ حال ہی میں کچھ اسلام دشمن تحقیقی اداروں نے یہ بات کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ 15 سے 25 فیصد مسلمان انتہا پسندانہ نظریات رکھتے ہیں اور یہی لوگ دوسری قوموں کے علاوہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کو کافر کہہ کر ان کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ ان حالات سے دنیا بھر کے مسلمان فکر مند ہیں ، خدا کا شکر ہے کہ ہندوستان کے علما اور اکابرین بھی دہشت گردی کی مخالفت میں مسلسل کانفرنسیں کررہے ہیں ، ویسے تو مسلمانوں کا کوئی جلسہ کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی ہے کہ اس میں دہشت گردی کی مخالفت نہ ہوتی ہو لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ مارچ کےمہینے میں دہلی میں مسلمانوں کے تین مکاتب فکر کی جانب سے تین بڑی کانفرنسیں منعقد ہوئیں ۔ پہلی کانفرنس جمعیت علما کی طرف سے ، دوسری کانفرنس اہل حدیث کے علما کے زیر اہتمام اور تیسری کانفرنس علماو مشائخ بورڈ کی جانب سے منعقد ہوئی ۔ ان کانفرنسوں میں مسلمانوں کےمسائل کے علاوہ دہشت گردی کی عفریت سےنمٹنے کے بارے میں سیرحاصل گفتگو ہوئی ۔ سب سے سخت الفاظ میں دہشت گردی کی مذمت کی، سب نے دہشت گردوں کو خوارج کی جماعت قرار دیا، سب نے تکفیریت کو اسلام کےلئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا او رمسلمانوں میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنے پر زور دیا، لیکن ہمارے خیال میں اب دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ مسلمانوں کی بھیڑ جمع کر کے پر زور نعرے لگانے ، بڑے بڑے جلسوں کے انعقاد اور بین الاقوامی کانفرنسوں سے نہیں ہوسکتا۔
اب مسلمانوں کو اقوام عالم کے سامنے اسلام کی حقیقی تصور پیش کرنا ہوگی جو امن وامان کے پھولوں سے سجی ہو خون کے دھبوں سے نہیں ۔دنیا کے سامنے دہشتگردوں نے اسلام کو بندوق او ربم دھماکوں کا مذہب بنا کر پیش کرنے کا جو کام کیا ہے اس کی رد کے لئے تمام مسلمانوں کو مل کر اسلام کا اصل نظریہ اور قرآنی تعلیمات کو شدت کے ساتھ پیش کرناہوگا۔ دہشت کامقابلہ کرنے کےلئے اسلام کے پیغام اخوت کو عام کرنا ہوگا۔ اب دنیا کو بتانا ہوگا کہ اسلام نسل انسانی کی بقا کا ضامن ہے اس کو فنا کرنے کا قائل نہیں ۔ یہ بات سب پر واضح کرنا ہوگی کہ اسلام انسان کو گمراہی سے بچانے کےلئے آیا ہے گمراہوں کے اشارے پر چلنے کےلئے نہیں ۔
URL: