شکیل شمسی
3 نومبر 2020
آج صبح سے نیوز چینلوں
کو دو مسلمانوں کی تصویریں کیا مل گئیں کہ وہ ہندووں کو مسلمانوں سے لڑانے کی ہر
ممکن کوشش میں لگ گئے ۔معاملہ یہ تھا کہ متھرا کے نند بابا مندر میں خدائی خدمتگار
نام کی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والے چار لوگ باہمی دوستی اور بھائی چارے کو فروغ
دینے کی غرض سے گئے۔ان میں سے دو ہندو تھے اور دو مسلمان۔مندر میں جاکر اس چار
رکنی وفد نے مہنتوں، پجاریوں، سادھووں،سنتوں اور بھکتوں سے بات چیت کی ۔ وفد میں
شامل مسلمانوں نے ان کا دل جیتنے کے لئے گیتا کے اپدیش اور کرشن جی کی شخصیت کے
بارے میں اپنی معلومات کا اظہار کیا۔ وہاں موجود تمام لوگ اس وفد سے کافی متاثر
ہوئے اور ان کو دوپہر کا کھانا ساتھ کھانے کو کہا مگر دونوں مسلمانوں نے کہا کہ
نہیں ہماری نماز کا وقت ہو رہا ہے ہم پہلے کہیں جا کر نماز پڑھیں گے تو وہاں موجود
بڑے دل کے کچھ ہندوئوں نے کہا کہ آپ اس مندر کے احاطے میں ہی نماز پڑھ لیجئے۔ اس
خیر سگالی وفد نے وہاں مصلیٰ بچھا دیا۔ وہاں سیکڑوں ہندو موجود تھے کسی نے اس بات
پر اعتراض نہیں کیا کہ مندر کے احاطے میں نماز کیوں پڑھی جا رہی ہے؟ نہ کسی
نےپولیس میں شکایت کی کہ مندر کے اندر گھس کرزبردستی نماز پڑھی جا رہی ہے اور نہ
نماز پڑھنے کی اجازت دینے والوں سے کسی نے پوچھا کہ نماز کیوں پڑھنے دی؟ یہ واقعہ ۲۹؍
اکتوبر کا ہے۔ تین دن تک نہ تو کسی کا دھرم بھرشٹ ہوا ،نہ مندر کو کسی نے پوتر
کرنے کی ضرورت سمجھی، نہ کسی کو خیال آیا کہ نماز کی وجہ سے مندر کو شدھ کرنے کے
لئے ہون کی ضرورت ہے۔ چوتھے دن جب کسی نے مندر میں نماز پڑھنے والوں کی تصویریں
سوشل میڈیا پر وائرل کردیں تو گویا نیوز چینلوں کے اندر منافرت کا بم پھٹ گیا۔ سب
نیوز چینل کہنے لگے مندرمیں گھس کر نماز ادا کرنے سے متھرا میں کشیدگی۔ رپورٹر وہاں کے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر ان سے نماز پڑھنے والے
مسلمانوں کے خلاف زہر اگلوانے لگے۔ مندر میں ہون کئے جانے، مندر کو دھوئے جانے ا
ور مندر کا شدھی کرن کئے جانے کے شاٹ سیکڑوں بار دوہرائے جانے لگے۔ ہندو تنظیموں
کے غم وغصہ کے اظہار کرنے والے بیانات جاری ہونے لگے۔ مگر کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہے
کہ آخر جب وہ مسلمان نماز پڑھ رہے تھے تو وہاں موجود ہندووں کے جذبات مشتعل کیوں
نہیں ہوئے؟ سارا غصہ نیوز چینلوں نے ہی کیوں پیدا کیا؟ کیوں خدائی خدمتگاروں کی اس
حرکت سے نیوز چینل میں موجود فرقہ پرستوں کے دلوں پر چوٹ لگی؟ اصل معاملہ یہ ہے کہ
اس ملک کا ایک طبقہ یہ چاہتا ہی نہیں ہے کہ کوئی امن و یکجہتی کی بات کرے، کوئی
نفرتیں مٹانے کی کوششیں کرے اورنیوز چینلز بھی اسی طبقے کا حصہ بن گئے ہیں۔ انھوں
نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا کسی مسجد میں آرتی کرنے کی اجازت ہوگی؟ تو ان سے کوئی
پوچھے کہ شرڈی میں سائیں بابا جیسے مسلمان فقیر کی قبر پر دن رات آرتی ہوتی ہے تو
کیا کسی مسلمان نے آج تک اعتراض کیا؟ کیا شرڈی میں بنی دوارکا مائی مسجد میں
ہندوعقیدتمند اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے داخل نہیں ہوتے ہیں؟ اصل میں جو لوگ
اس ملک کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں وہ اتحاد کو فروغ دینے والی ہر کوشش کے خلاف ہیں ۔
ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو وہ لوگ مٹانے پر آمادہ ہیں جو اس ملک کو ایک
فرقے کا ملک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ مسلمان کسی مندر
میں جاتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی جھوٹا الزام لگا کر پٹائی نہ کردی جائے۔ مجھے
یاد ہے کہ تقریباً ۲۰؍
سال پہلے جب میں ’’راس لیلا‘‘ کے بارے میں دوردرشن کے لئے ایک دستاویز ی فلم
بنانے ورندا ون گیا تھا تو وہاں عملے کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ایک دھرم شالہ ٹائپ
کی عمارت میں ٹھہراتھا۔ وہاں کے منیجر سے میں نے پوچھا کہ میں کیا نماز پڑھ سکتا
ہوں تو منیجر نے کہا ہاں کیوں نہیں بلکہ اس نے مجھے سیتل پاٹی کہی جانے والی سرکی
کی بنی ایک چٹائی بھی لاکر دی تاکہ میں اپنے کمرے میں نماز پڑھ سکوں۔ سوچتا ہوں کہ
اگر اس وقت نیوز چینلز ہوتے تو میرا بھی یہی حال بناتے جو آج خدائی خدمتگاروں کا
بنایا ہے۔ ان واقعات کو دیکھنے کے بعد کیا کسی کی ہمت پڑے گی کہ وہ گنگا جمنی
تہذیب کو فروغ دینے کی ہمت کرے؟
3 نومبر 2020،بشکریہ:انقلاب،
نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/news-channels-tolerate-ganga-jamuni/d/123387
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism