شکیل شمسی
28 ستمبر، 2016
کل پاکستان سے کسی نے مجھے وہاں کے ایک چینل پر ہونے والے اس مباحثے کاکچھ حصہ بھیجا جس میں اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب اور امام مولانا عبدالعزیز او رکچھ مسلم اسکالرز کےساتھ اسلام کی تبلیغ کے طور طریقوں پر گفتگو ہو رہی تھی ۔ اس بحث میں مولانا عبدالعزیز اس بات پر زور دے رہے تھے کہ اسلام کی تبلیغ میں جبر و زبردستی کرناقرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔وہ بدرواحد و دیگر غزوات اور قرآن میں دئےگئے حکم جہاد کےذریعہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ اسلام کی تبلیغ کےلئے مارکاٹ ضروری ہے۔ جب کہ دوسرے علما اور مفکرین کاکہنا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی بھی جنگیں لڑیں وہ سب دفاعی تھیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام قبول کرنے کےلئے کسی کو مجبور نہیں کیا ۔ اتناہی نہیں مولانا عبدالعزیز نےیہ بھی کہا کہ پاکستان کی حکومت کےپاس ہتھیار ہیں اور طالبان کےپاس خود کش دھماکے کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں ہیں،دونوں کو آپس میں لڑائی کرنے کےبجائے ایک ساتھ مل کر دشمنان اسلام سےجنگ کرناچاہئے ۔ اصل میں یہی فکر ہے جو اسلام کو مار کاٹ ، خون خرابے اور قتل و غارت گری کامذہب بنانے کی کوشش میں ہے۔ چودہ سو سال سےجو مذہب امن و سلامتی ، صلح و آشتی اور ایثار و قربانی کےمذہب شکل میں جانااور پہچانا جاتا تھا، اس کو قاتلوں او رجلادوں کے مذہب میں تبدیل کرنے کی ایک ناپاک عالمی مہم چل پڑی ہے اور جب کچھ صالح فکر مسلم لیڈران انتہا پسندانہ نظریات کےخلاف آواز بلند کرتے ہیں تو ان پر الزمام لگایا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان نفاق پھیلارہے ہیں ۔
ابھی حال ہی میں میرے ایک دوست غوث صاحب نے میری فیس بک وال پر لکھا کہ دنیا میں اتنے بڑے بڑے قاتل ہوئے، اٹیم بم گرانے والے سفاک بھی ہوئے ہٹلر جیسے جلادی ذہنیت کے لوگ بھی ہوئے جس کی وجہ سے کروڑوں لوگ مرے لیکن کسی نےان کے مذہب پر کوئی الزام نہیں لگایا ۔ ہندوستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر سکھوں کو مارا گیا لیکن کسی نے ہندو مذہب پر الزام عائد نہیں کیا بلکہ ایک سیاسی پارٹی پر الزام تھوپ دیا ۔ برما میں بودھوں نے مسلمانوں کا خون بہایا لیکن کسی نے اس کے لئے بودھ مذہب پر الزام تراشی نہیں کی ۔ ان کی بات سو فیصد صحیح ہے۔ تملوں نے سری لنکا میں خون بہایا کسی نے ان کے مذہب کو کچھ نہیں کہا ۔سکھوں نے پنجاب میں دہشت گردی کی مگر کسی نے ان کی کتاب اور ان کے عقائد پر حملے نہیں کئے۔ نکسلائٹ نے ہزاروں مار دئے کسی کو کسی کے مذہب کا خیال نہیں آیا، آسام میں الفا اور بوڈو آتنک وادیوں کے بارے میں کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ ان کامذہب کیا ہے، لیکن یہ مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ جب کوئی مسلمانوں کے نام والی کوئی جماعت کہیں دہشت گردانہ کارروائی کرتی ہے تو فوراً اسلام اور اسلامی تعلیمات کا ذکر ہونے لگتا ہے ، مگر اس کی وجہ دوسروں سے زیادہ عبدالعزیز جیسے انتہا پسند ملاؤں پر عائد ہوتی ہے۔ جو نہتوں او ربے قصوروں پر ہونے والے حملوں کو جہاد کا نام دے دیتے ہیں ۔
دہشت گردی کو اسلام سے وابستہ کرنے میں سب سے بڑارول ان دہشت گردوں کا ہے جو کسی کی گردن کاٹنے کےبعد نعرہ تکبیر لگاتےہیں اور خود کش دھماکے کرنے سے پہلے اللہ اکبر کہنا اپنافرض سمجھتے ہیں ۔ اسلام پر جبر و تشدد کا لیبل لگانے کی اسی سازش کے تحت انتہا پسند جماعتیں کشمیر کی سیاسی لڑائی کو بھی اسلامی جہاد کا حصہ بتاتی ہیں۔ کشمیر میں دہشت گردی کا ننگا ناچ دکھانے والے دہشت گردوں کو مجاہد کہہ کر خطاب کرنے والے لوگ اصل میں اسلام کو بدنام کرنے والی عالمی مہم کا حصہ ہیں ، مگر کیا کیا جائے کہ دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اپنے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کےلئے پاکستانی لیڈران ان کو استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستانی لیڈران کشمیر کی جس دہشت گردی کو اسلامی جہاد قرار دیتےہیں، اس میں کھلے عام شریک ہونے سے گریز کرتےہیں اگر یہ جہاد ہے تو پاکستانی جنرل گھروں میں کیوں بیٹھے ہیں کشمیریوں کےساتھ مل کر لڑیں تاکہ براہ راست ہو بالواسطہ نہیں ۔ اللہ جانے پاکستانیوں کی سمجھ میں یہ بات کب آئے گی کہ وہ کشمیر کی علاحدگی پسندانہ تحریک کو اسلامی جنگ سے تعبیر کرکے اسلام کی تضحیک و توہین کا باعث بن رہے ہیں ۔
28 ستمبر 2016 بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL: