شکیل شمسی
23اکتوبر،2017
فیروز اللغات کے مطابق ’ شرعی
حکم لگانے ، مذہبی قانون کے مطابق فیصلہ دینے اور مفتی کے اس شرعی فیصلے کو فتویٰ کہا
جاتاہے جو کسی بات کے جواز یا عدم جواز میں دیا جاتا ہے۔ ان ہی فتوؤں کے ذریعہ صدیوں
سے علماء اور مفتیان دین عوام کے مسائل کو حل کرتے آئے ہیں ، البتہ ان میں سے کچھ فتاویٰ
ایسے بھی تھے جو حکومت وقت کو خوش کرنے کے لئے یا کسی ظالم و جابر حکمراں کے غیر شرعی
کام کو دین کے دائرے میں لانے کے لئے دئے گئے تھے، مگریہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت
ہے کہ ایسے متنازعہ فتوؤں کو ملت اسلامیہ نے پہچان کر مسترد بھی کیا ۔ یہ بھی سچ ہے
کہ فتوؤں اور جوابی فتوؤں کا ایک سلسلہ مسلمانوں میں رہا ہے اور ماضی میں کچھ فتوے
باعث فسق و فجور بھی بنے ہیں ۔اس کے باوجود یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ ہر مسلک کے
مولوی، مفتی یا عالم دین کے ایک ہی معاملے میں الگ الگ فتاویٰ ہوتے ہیں اور فتوے پر
عمل درآمد وہی کرتے ہیں جو مولوی کے مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں تک کہ اب تو عالم
یہ ہوگیا ہے کہ ایک ہی مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء کی طرف سے ایک ہی موضوع پر الگ
الگ فتوے جاری کئے جارہے ہیں او ر کہیں کہیں ان کو باعث نزاع بھی بنایاجارہا ہے ، خاص
طور پر سوشل میڈیا کے ذریعہ علماء کے فتاویٰ کولے کر خوب خوب بحثیں چل رہی ہیں۔
ہمارے خیال میں جب تک یہ بحثیں
علمی او رمذہبی حدود میں رہیں تو قابل قدر ہیں ،لیکن جب فتوؤں پر مباحثے لعن طعن اور
دشنام طراز ی تک پہنچ جائیں توپھر فتوے کے فتنہ بننے میں دیر نہیں لگتی، لیکن اب تو
فتوؤں کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے کاکھیل شروع ہوگیا ہے اور اس کھیل میں پیش پیش
ہیں ہمارے ملک کے نیوز چینلز ، جن کا کام خبر رسانی تھا ، مگر ناظرین کی تعداد بڑھانے
کیلئے وہ اب سنسنی پھیلانے کو اپنا پیشہ سمجھنے لگے ہیں اور جب کوئی سنسنی خیز خبر
نہیں ملتی تو وہ خود سنسنی پھیلانے والی کوئی خبر گڑھ کر عوام کی توجہ اپنی طرف مرکوز
کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی سازش کے تحت نیوز چینلز نے ایک نیا کام یہ شروع کیا ہے
کہ اب وہ اپنے نمائندوں کے ذریعہ ملک کے مختلف دارالافتاء سے رابطہ قائم کرتے ہیں ا
ور ان سے کسی ایسے معاملے پر فتویٰ مانگتے ہیں جن سے کوئی متنازعہ جواب نکلنے کی امید
ہوتی ہے او رجیسے ہی جواب موصول ہوتاہے اس کو نیوز چینلوں پر سارے مسلمانوں کامسئلہ
بنا کر اچھا لنا شروع کردیاجاتا ہے ، جبکہ ہر آدمی جانتا ہے کہ اسلام میں72فرقے ہیں
اور کسی ایک فرقے کا فیصلہ 71دوسرے فرقوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا۔
لیکن نیوز چینلوں پر اس کا
عالم اسلام کا مسئلہ قرار دے کر مباحثے شروع کردئے جاتے ہیں او ران میں ایسے مسلمانوں
کو مدعو کیا جاتا ہے جو دفاع کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتے اور اگر کبھی کسی قابل مسلمان
کو بلابھی لیا جاتا ہے تو اس کی اتنی بے عزتی کی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ نیوز اسٹوڈیوں
میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کرتا ۔ اتنا ہی نہیں اکثر نیو ز چینلوں کے رپورٹرس اور اسٹرنگرس
(جزوقتی نامہ نگار) نیوز چینل کی خبر کو اثر دکھانے کے لئے الگ الگ شہروں میں مظاہرے
بھی کرواتے ہیں ، خاص بات یہ ہے کہ مظاہروں میں دس پندرہ آدمیوں سے زیادہ لوگ نہیں
ہوتے او ریہ سب وہی لوگ ہوتے ہیں جو چینل کی مرضی کے مطابق بیان دے کر اپناچہرہ ٹی
وی پر دکھانے کے فراق میں رہتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کی
تصاویر ڈالنے کے فتوے پر دارالعلوم دیوبند کا نام جس طرح اچھالا گیا وہ بھی نیوز چینلز
کے ایک اسٹرنگر کی فتنہ پروری کا نتیجہ تھا ۔ آپ نیوز چینلوں کی ذہنیت کا اندازہ اسی
بات سے لگاسکتے ہیں کہ کوئی مسلم نام والی برقع پوش خاتون پوجا کرتے تو سوبار دکھائیں
گے او رمسلم مولویوں سے جان بوجھ کر اس پر سوال کریں گے، لیکن اجمیر کی درگارہ اور
حضرت نظام الدین کی درگاہ گلہائے عقیدت پیش کرنے والی لاکھوں ہندو خواتین کے دھرم پر
سوال نہیں اٹھائیں گے ؟ کیا کسی نے کبھی دکھایا کہ سائیں بابا جیسے مسلم فقیر کی قبر
پر سر جھکانے والے کون ہیں، کیوں اس پر سادھوؤں کوبلا کر بحث نہیں کرتے؟ یہ اس ملک
کی بد قسمتی ہی ہے کہ یہاں کے بیشتر نیوز چینلوں نے یہی سمجھ لیا ہے کہ کسی شخص یا
کسی فرقے کو بدنام کرنا ہی صحافت ہے۔
23اکتوبر،2017 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/an-effort-corrupt-fatawa-/d/113004