شکیل شمسی
27 جولائی، 2016
ہم تو ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ اسلام اور انسانیت ایک ہی سکےکے دو رخ ہیں۔ دنیا کو انسانیت کا سبق سکھانے میں اسلام نے ہی رحم دلی کو اس کرۂ ارض پر عام کیا ہے۔ اسلام نے ہی کہا ہے کہ اگر وضو کرنےکا پانی رکھا ہو او رکوئی کتا پیاسہ ہو تو کتے کو پانی پلا دیا جائے اور نماز تیمم کرکےپڑھ لی جائے ۔
یہ اسلام ہی جس نے اس کی اجازت نہیں دی کہ کسی پیاسے کو پانی پلانے یا کسی بھوکے کو کھاناکھلانے سے پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ وہ مومن ہے یاکافر ، لیکن دہشتگردی کو بڑھا وادینے والے ملاؤں نےاسلام کی شبیہ کو مسخ کرنےکےلئے دہشت گردی جو بل ڈوزر دوڑائے ہیں ان کے پہیوں تلے اسلام کے انسانی اوراخلاقی پیغام کو بھی کچلا جارہا ہے۔
میری حیرانی کی اس وقت کوئی انتہا نہیں رہی کہ جب پاکستان کی ایک کالعدم تنظیم کے ایک مفتی کو یہ کہتے سنا کہ جو بھی فلاحی کام انسانیت کے نام پرہوگا وہ ناجائز ہے۔ صرف وہی فلاحی کام قابل قبول ہے جو اسلام کے نام پر ہوگا۔ اس لیڈر نے جہالت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی خنزیر پیاسہ ہے تو اس کو پانی پلادیا جائے ، لیکن پیاس سے تڑپتے ہوئے کسی ایسے انسان کو پانی نہیں پلایا جاسکتا جو منکر خدا ہو۔
اس مفتی نے یہ سب باتیں عبدالستار ایدھی کے امدادی کاموں کو مسترد کرتے ہوئے کہیں ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایدھی مرحوم کا اسی مہینے کی آٹھ تاریخ کو انتقال ہوا ہے۔ کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے مفتی نے مرحوم ایدھی کی طرف سے لاوارث بچوں کی پرورش اور ان کو گود پالنے کا انتظام کیا ہوا ہے۔ اصل میں دہشت گردوں کو تربیت دینے والے ملا انسانوں کو حیات دینے کی بات سوچ بھی نہیں سکتے ۔ ان کے عقائد کی بنیاد میں جو پتھر لگائے گئے ہیں ان کو سیمنٹ سےنہیں انسانوں کے خون سے جوڑا گیا ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو مسلم نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے انہیں جنت کی حسین وادیاں دکھا کر خود کش دھماکے کرواتے ہیں اور ان کو جہنم میں بھیج دیتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ قارئین عبدالستار ایدھی کے نام سے واقف نہ ہوں او ران کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ، لیکن جو لوگ پاکستان جا چکے ہیں انہوں نے وہاں کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی ایمبولینس گاڑیوں پر ‘ایدھی’ لکھا ہوا ضرور دیکھا ہوگا۔ دو امدادی ہوائی جہازوں اور ایک ہیلی کاپٹر کا تحفہ پاکستان کے عوام کو عبدالستار ایدھی کی قائم کردہ ‘‘ایدھی فاؤنڈیشن ’’ نے ہی دیا ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس گاڑیاں صرف کراچی شہر میں ہی ہر دن 6000 سے زیادہ لوگوں کو اسپتال پہنچاتی ہیں ۔ عبدالستار ایدھی گجرات کی جونا گڑھ کے بنتوا گاؤں کے ایدھی نام کےمحلے میں رہا کرتے تھے ۔ گجراتی زبان میں ایدھی کامطلب کاہل یا کام چور ہوتا ہے (اب ایدھی نام کا وہ محلہ باقی نہیں ہے) لیکن ایدھی نے اس لفظ کے معنی بدل کر انسانیت ، امداد اور ہمدردی کردیا۔ گجرات میں تو ایدھی نام کا کوئی محلہ نہیں ہے لیکن پاکستان کےکئی شہروں میں ‘‘ایدھی ویلج’’ کے نام سے ایسی جگہیں آباد ہوگئی ہیں ، جہاں لاوارث بچوں، ذہنی مریضوں اور ضروت مندوں کو مختلف سہولیات فراہم کرنے کا کام ایدھی فاؤنڈیشن کرتی ہے۔
واضح ہو کہ تقسیم وطن کے وقت اسی گاؤں سےعبدالستار ایدھی ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے تھے ۔ وہاں انہوں نے کمسنی میں ہی ضرورت مندوں کی خدمت کرنے والی رضا کارانہ تنظیم ‘‘بنتوا چیرٹیبل ڈسپنسری ’’ میں لوگوں کی خدمت کرنا شروع کردی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اس ڈسپنسری میں آنے والے ضرورت مندوں کے ساتھ تفریق برتی جاتی ہے اور جو واقعی امداد کے مستحق ہیں ان کو طبی امداد نہیں ملتی ہے تو انہوں نے اس ڈسپنسری سےعلاحدگی اختیار کرکے خود ایک تنظیم قائم کی او ر طبی امداد پہنچانے کے کام کو آگے بڑھایا۔ انسانوں کی خدمت کرنے کے اسی جذبے کو وہ عمر کے آخری حصے تک نبھاتے رہے او راربوں روپئے حاصل کرنے کے باوجود ہمیشہ سادہ زندگی گزارتے رہے۔ ان ہی خصوصیات کی وجہ سے پاکستان کے عوام ایدھی کابہت احترام کرتے ہیں، مگر دہشت گردوں کے حامیوں کی نگاہ میں تو خون بہانا ہی اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہے، اس لئے وہ بھلا ایدھی کی خدمات کو اسلامی کیسے قرار دے سکتے ہیں ؟
27 جولائی، 2016 بشکریہ :انقلاب، نئی دہلی
URL: