شفیق احمد (اسسٹنٹ ایڈیٹر(ریٹائرڈ )حکومت ہند
10جولائی، 2009
بیسوی صدی کے اوائل میں ایک ۲۴سالہ نوجوان نے ۱۹۱۲میں اردو صحافت کے ستون کی حیثیت سے ‘‘الہلال ’’ اور ‘‘البلاغ’’ کے ذریعہ تحریک آزادی کا بگل بجا کر انگریزی اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچادی تھی۔ عین اسی وقت ایک سن رسیدہ او رنحیف وتاتواں قائدنے بدن پر صرف دھوتی پہن کر اور ہاتھ میں ایک لاٹھی لے کر دنیا کو ‘‘اہنسا’’ کا پیغام دیا۔ دونوں کے اشتراک سے ہندوستان کی تحریک آزادی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ آگے چل کر نوجوان کو ‘‘امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد’’ اور نحیف و تاتواں لیڈر کو ہندوستانی قوم نے ‘‘مہاتما گاندھی ’’ کا خطاب دیا۔ دونو ں کی پہلی ملاقات پرانی دہلی کے بلی ماران علاقہ میں واقع ایک تاریخی کوٹھی ‘‘شریف منزل’’ میں ہوئی تھی جہاں یوں بھی ملک کے اہم قائدین کسی نہ کسی موقع پر اکتفا ہوکر رفتار وسیاست پر تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے۔ اس کے بعد مولانا آزاد اور مہاتما گاندھی نے اپنی رفاقت کو آخری دم تک نبھایا ۔ہندوستان کی تحریک آزادی اور پھرملک کی آزادی کے بعد پہلے وزیر اعظم اور ایک بلند پایۂ قائد کی حیثیت سے مولانا آزاد نے جو اہم اور باقابل فراموش کردار ملکی سیاست میں ادا کیا ہے ،اس نے بلا مبالغہ انہیں ‘‘ہندوستانی سیاست کا کوہِ نور ’’ بنادیا۔
مولانا آزاد کا کہنا تھا ‘‘غلامی کے چاہے کتنے حسین نام کیوں نہ رکھے جائیں ،غلامی بہر حال غلامی ہے۔’’ اس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑا ۔ہوا یوں کہ مولانا آزاد نے ‘‘ الہلال’’ میں انگریزی اخباروں سے کہیں پہلے ،دوسری عالمی جنگ کی کچھ ایسی خبریں اور تصویریں شائع کردی تھیں جنہیں صحافت کی زبان میں scoop کہا جاسکتا ہے۔اس زمانے میں اگر انٹر نیٹ یا ویب سائٹ ہوتا تو یہ مواد بین الاقوامی اعزاز پاتا۔ مگر مولانا آزاد کو اس کا صلہ یہ ملا کہ فرنگی حکومت نے ‘‘البلال’’ کے خلاف ‘‘بغاوت ’’ اور ‘‘سرکشی’’ کا ‘‘وارنٹ’’ جاری کردیا جس میں غیر مہذب ‘‘ ڈانٹ ڈپٹ’’ کے علاوہ اخبار سے ایک خطیررقم کی سیکورٹی بھی مانگی گئی لیکن مولانا آزاد نے نہ صرف یہ کہ برطانوی حکومت کی گھڑکیوں کو ردّ کردیا بلکہ ضمانت کی رقم دینے سے بھی انکار کردیا بس پھر کیا تھا، انگریزوں نے ‘‘ الہلال ’’ کی اشاعت کو منسوخ کردیا۔ہندوستان کی تاریخ میں ‘‘صحافت کی آزادی ’’ کو کچلنے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔
ہندوستانی رہنماؤں نے آزادی کی جدوجہد کے دوران مصائب برداشت کئے ۔جیل کی سلاخوں کو اپنا گہوارہ بنایا۔ پھانسی کے پھندوں کو خوشی خوشی بوسہ دے کر جام شہادت نوش کیا لیکن کسی بھی قیمت پر آزادی کے سوال پر سودے بازی نہیں کی۔ قیادت کا اصل مقصد ہ یہ تھا کہ ہندوستان ‘‘بٹوارہ’’ کی شکل میں نہیں ‘‘ متحدہ’’ طور پر آزاد آخر وقت تک ڈٹے رہے ۔ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا جبکہ مہاتما گاندھی نے بھی سردار پٹیل اورپنڈت نہرو کی ‘‘ہٹ دھرمی’’ کے سامنے بادل ناخواستہ ہتھیار ڈال دیئے اور ملک کی تقسیم کو قبل کرلیا۔ آزادی کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں جو خون کی ندیاں بہی ہیں اور جتنے بڑے پیمانہ پر آبادی کا تبادلہ عمل میں آیا، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اس کے بعد ملک کے حالات کو ساز گار بنائے رکھنے اور ہندوستانی مسلمانوں کو ڈھارس بندھانے میں مولانا آزاد نے جو اہم کردار ادا کیا ہے، اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا یہ مولاناآزاد کے تدبر اور فراست کا نتیجہ ہے کہ آج آزادی کے ۶۱سال بھی ہندوستان میں مسلمان نامساعد حالات کے باوجود سرخرو ہے جبکہ نقل مکانی کرنے والے انہی کے بھائی پاکستان میں ‘‘مہاجر’’ بن کر پاکستانی حکمرانوں کے ظلم وستم سہہ رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہےکہ تقسیم ملک کے بعد دہلی میں قرول باغ ،پہاڑ گنج اور سبزی منڈی کے علاقوں میں جہاں مسلمانوں کے اکثریت تھی پاکستان سے آنے والے ‘‘ شرنارتھیوں’’ نے بہت تباہی مچائی ۔سارے علاقے مسلمانوں سے خالی ہوگئے وہاں سے نقل مکانی کرنے والے کچھ لوگ تو جامع مسجد کے علاقے میں آگئےاور کچھ کو پرانا قلعہ کیمپ میں ٹھہرا یا گیا بہت ہوں نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا ۔آزمائش کے ان لمحات میں مولانا آزاد کی ہی وہ شخصیت تھی جنہوں نے منظر عام پر آکر دہلی کی جامع مسجد میں مسلمانوں کو مخاطب کیا اور کہا۔
‘‘کیا تمہیں یاد ہے کہ میں نے تم کو سمجھانا چاہا تو تم نے میری زبان پرتالے لگادیئے ۔ میں نے قلم اٹھایا تم نے میرے ہاتھ قلم کردیئے ، میں نے آگے بڑھنا چاہا تم نے میرے پیر پابد زنجیر کردیئے ،میں نے پلٹنا چاہا تم نے میری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔ پھر بھی میں تم سے پوچھنا چاہتاہوں کہ تم اس مسجد کے میناروں کو کس کے حوالے کر کے جانا چاہتے ہو ؟ کیا تم کو یقین ہے کہ وہاں تم کو وہی مقام ملے گا جس کے تم مستحق ہو؟ ہر گز نہیں ،اس لیے یہیں رہو اور حالات کا پامردی سے مقابلہ کرو۔’’
ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ کتنی دوراندیشی تھی مولانا آزاد کی سوچ میں وہ جانتے تھے کہ ملک کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کا کیا حشر ہوگا؟ ان کی پیشین گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی جن کو جذبات سے کھیل کر اپنی مطلب برآرمی کرناتھا، وہ تقسیم کے بعد نئے ملک میں چلے گئے اور ہندوستان کے مسلمان ایسی کشتی میں سوار ہوگئے جس کا کوئی ناخدانہ تھاسوائے مولانا آزاد کے ،جن کا ہر موقع پر دل توڑا گیا تھا اس لئے یہ بات مان لینی چاہئے کہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی وزن اوروقار ہے تو وہ مولانا آزاد کا مرہون منت ہے۔
مولانا آزاد کی بصیرت افروز شخصیت کے متعلق دلی میں ۵ نومبر ۱۹۴۷کو پیش آنے والا ایک اور واقعہ بھی سنئے ۔تقسیم ملک کے وقت سبھی مرکزی ملازمین سے دریافت کیا گیا تھا کہ وہ ہندوستان میں رہنا پسند کریں گے یا پاکستان جانا چاہیں گے ۔ جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ‘‘مستقل’’ ہوگا یا ‘‘عارضی’’ ،عارضی فیصلہ چھ ماہ کے اندر تبدیل کیا جاسکے گا لیکن ‘‘فائنل ’’ میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔ گنتی کے چند مسلمان افسرو ں نے جو پاکستان کے حامی نہیں تھے ‘‘انڈیافائنل’’ لکھا۔ چپراسی اور دفتری ملازمین نے زیادہ تر ‘‘ہندوستان ’’ ہی لکھا تھا لیکن تقسیم کے بعد فسادات ایسے ہوئے کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ بعد مسلمان یہاں رہ نہیں سکتے اوردلی میں تو یہ ناممکن ہی معلوم ہوتا تھا ایسی حالت میں جب کہ گھر سے نکلنا بھی انتہائی دشوار ہوکر ،دفتر جانے کا کیا سوال تھا لہٰذا ان مسلمان افسروں نے پہلے مولانا آزاد سے مل کر امداد طلب کرنے اور پھر پنڈت نہر و سے مل کر مسئلہ کا کوئی حل نکالنے کا فیصلہ کیا۔ وہ لوگ مولانا آزاد کی قیام گاہ ،مولانا آزاد روڈ پہنچے جوآج کل نائب صدر جمہوریہ کی رہائش گاہ ہے وہاں مو لانا احمد سعید اور مولانا حفظ الرحمٰن بھی موجود تھے ۔ مولانا آزاد جب اپنے آفس روم میں تشریف لائے تو ان افسروں نےکہا ‘‘ ہم سرکاری افسر ہیں ہم نے ہندوستان میں رہ نا چاہا تھا ’’ اس لئے کہ ہم کانگریسی ہیں ۔‘‘مولانا آزاد نے یہیں بات کا کاٹ کر فرمای :‘‘ میرے بھائی ،بھول جائیے کہ آپ کانگریسی ہیں یا لیگی ’’ اس وقت سوال سیاسی مسلک کا نہیں ہے بلکہ مذہب کا ہے آج بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی صاحب حیثیت یا تعلیم یافتہ مسلمانوں کو ہندوستان میں دیکھنا نہیں چاہتے وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ اور صاحب حیثیت مسلمانو ں سے ہندوستان خالی ہوجائے اور اس کے بعد غریب اور ان پڑھ مسلمانوں سے وہ کام لیں جو آج تک ہریجنوں سے لیتے آئے ہیں اگر ایسے لوگوں کی خواہش پوری کرنی ہے تو آپ کاجہاں دل چاہے چلےجائیں اور اگر اسلام کا اور مسلمانوں کا بھلا چاہتے ہیں تو یہی رہے۔چاہے کچھ بھی حالات ہو ں ۔ہم مسلمان ہیں یہ ہماراملک ہے ۔ہم تو یہیں رہیں گے ۔یہ میرا فیصلہ ہے ۔ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ آپ مجھ سے امداد چاہتے ہیں میں خود نہیں جانتا کہ میں اس کرسی پر (یعنی وزیر تعلیم) کب تک ہوں ۔’’ اور دنیا نے دیکھا کہ جن لوگوں نے مولانا آزاد کے مشورہ کو مان کر اپنی کشتی کو حالات پر چھوڑ دینے اور اپنے وطن ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا وہ آج بھی یہاں رہ رہے ہیں بہت بہتر حالات میں ہیں ۔مولانا آزاد کے ان نایاب خیالات کا تذکرہ مسعود حسن صدیقی صاحب نے اپنی کتاب ‘‘کچھ یادیں’’ میں کیا ہے جو ان افسروں کی قیادت کررہےتھے وہ پرتگال ،بلجیم ،اٹلی ،شام ،اور سعودی عرب میں ہندوستان کے سفارت کاررہ چکے ہیں ، ان کا نومبر ۲۰۰۸میں انتقال ہوا۔
مولانا آزاد ۱۹۳۹سے ۱۹۴۷تک سات سال کانگریس کے صدر رہے ‘‘ ابوالکلام ’’ کانگریس کی سب سے بڑی فراست کا نام تھا۔ وہ کانگریس کو طوفان سے نکال لیتے اور اسے مخاطبین کےدل میں لے آتے لیکن یہ اس عظیم قائد کی بدنصیبی بھی کہ مولانا آزاد نے ‘‘مسیح ’’ کے مانند صلیب پائی اور ‘‘سقراط’’ کے مانند زہر کا جام پیا۔
مولانا سے ‘‘ہندو ذہن’’ مذہب کے فاصلے پر تھا تو مسلم لیگ نے بھی مسلمانوں کو ان سے اتنا برگشتہ کردیا تھا کہ ان کاسلوک اخلاق اور تہذیب کے حدود کو پار کر گیا تھا۔
مسلمانوں کیلئے تحفظات کا منصوبہ:۔
تقسیم ملک سے پہلے جب مولانا آزاد نے دستور کے نقشہ میں مسلمانوں کیلئے تحفظات کا نقشہ بنایا تو گاندھی جی نے مولانا آزاد سے کہا:‘‘ اس نے پاکستان مان لینا بہتر ہے ۔’’ مولانا نے جب توضیحات پیش کیں تو گاندھی جی نے کہا ‘‘آپ کا ذہن تو یہی ہے تو آپ کی جگہ لیگ میں ہے۔ آپ کانگریس سے مستعفیٰ ہوکر لیگ میں چلے جائیں۔’’ مولانا آزاد کے فارمولے کے مطابق ملک جب ‘‘متحدہ ہندوستان ’’ کی شکل میں آزاد ہوتا تو سارے صوبوں کو تین زمروں میں اے ،بی اور سی میں بانٹ دیا جاتا ۔حکومت دفاقی طرز کی ہوتی ۔ مرکزی حکومت کے پاس امور خارجہ ،دفاع اور مواصلات کے محکمے ہوتے۔ صوبائی حکومتیں خود مختاریونٹوں کی شکل میں کام کرتیں ۔جن یونٹوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی وہاں کا وزیر اعلیٰ مسلمانوں کی اکثریت والی یونٹوں سے کسی ہندو کو وزیر اعلیٰ بنایا جاتا ۔ یونٹوں کو آبادی کے تناسب سے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیا جاتا ۔سرکاری ملازمتوں ،تعلیمی اداروں اور اسمبلیوں میں نمائندگی بھی آبادی کے تناسب سے ہوتی ۔ظاہر ہے ،اس سے مسلمانوں کا موقف مضبوط ہوجاتا ۔اس لئے فارمولے کو نہ تو کانگریس کی حمایت حاصل ہوسکی اور نہ ہی انگریزوں کو یہ فارمولہ پسند آیا وہ تو ملک کے بٹوارہ کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔اسی طرح فارمولے کی منظوری کی صورت میں جناح کو بھی سرخروی کا موقع نہ ملتا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فارمولہ ردی دان کی نظر ہوگیا۔ اور آزادی تو ملی لیکن ملک دوحصو ں میں تقسیم ہوگیا ۔ایک پاکستان کہلایا اور دوسرا ہندوستان ۔بڑے پیمانہ پر آبادی کے تبادلہ کے نتیجہ میں جو خون خرابہ ہوا وہ الگ ۔
مولانا آزاد نے ملک کی آزادی کے بعد نظام حیدر آباد کے مسئلہ کو بھی پرامن طور پر حل کرانے کی کوشش کی تھی۔ حیدر آباد کا مسئلہ یہ تھا کہ نظام مکمل آزادی چاہتے تھے جب کہ حکومت ہند اور خاص طور پر سردار پٹیل اس با ت پر مصر تطے کہ حیدرآباد کا بھی دیگر ریاستوں کی طرح ہندوستان میں مکمل الحاق عمل میں آئے ۔مولانا نے تجویز کیا کہ نظام امور خارجہ دفاع اور مواصلات حکومت ہند کے حوالے کردیں اور بقیہ امور میں انہیں خود مختاری حاصل رہے ۔ریاستی اسمبلی اور سرکاری ملازمت میں نمائندگی آبادی کے تناسب سے رہے ۔لیکن نہ تو نظام نے مولانا آزاد کی بات مانی اور نہ ہی سردار ٹس سے مس ہوئے۔ آخر کار ۱۹۴۸میں ہندوستان افواج نے ‘‘پولس ایکشن’’ کے ذریعہ حیدرآباد پر قبضہ کرلیا۔جنرل جے این چودھری حیدرآباد کے فوجی گورنر بنائے گئے اور نظام ‘‘عام آدمی’’ بن گئے۔
مولانا آزاد سے متعلق ایک اور دلچسپ واقعہ ‘‘چٹان’’ لاہور کے ایڈیٹر شورش کا شمیری مولانا کے زبردست مداح تھے دہلی میں کی ہوئی ان کی ہر تقریر چٹان کے اگلے شمارہل میں شائع ہوجاتی نہیں تو ایک بار مولانا نے دہلی کی جامع مسجد سے پھر مسلمانوں کو مخاطب کرنے کا پروگرام بنایا لیکن کسی وجہ سے جامع مسجد نہیں پہنچ پائے۔ اس لیے پروگرام منسوخ کردیا گیا۔ البتہ چٹان میں مولانا کی وہ تقریر شائع ہوگئی جو انہوں نے کی ہی نہیں تھی کسی نے چٹان کا وہ شمارہ مولانا کی وہ تقریر شائع ہوگئی جو انہوں نے کی ہی نہیں تھی کسی نے چٹان کا وہ شمارہ مولانا کی خدمت میں پیش کر کے کہا کہ اس میں آپ کی تقریر شائع ہوئی ہے جو آپ نے کی ہی نہیں مولانا نے رپورٹ کو غور سے پڑھ کرکہا کہ : ‘‘اگر میں نے تقریر کی ہوتی تو وہی کچھ کہتا جو شورش نے لکھا ہے۔’’ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں کی سوچ میں کتنی یکسانیت تھی اب یہ شورش کاشمیری کا مقدر کہ انہیں پاکستگان کے لیگی ماحول میں اپنی زندگی گزارنی پڑی۔
مولانا آزاد کی کردار کشی میں اپنوں اور پرائیوں ،دونوں نے برابر کا رول ادا کیا۔ نیتاجی سبھاس چندر بوس نے جب گاندھی جی سے لڑائی کے بعد کانگریس کی صدارت سے مستعفیٰ ہوکر گرما گرم بیان دیا تو اس میں مولانا آزاد کو ‘‘مغل آعظم’’ کے نام سے یاد کیا ۔گو مغل اعظم نہ تھے مگر ان میں مغلوں کا شکوہ اور ضمطراق ضرور تھا ۔محمد علی جناح نے جب مولانا آزاد کو ‘‘شوبوائے’’ کہا تو ملک میں ہنگامہ ہوگیا ۔لوگوں نے چاہا کہ جناح کو اس گالی کا جواب ملنا چاہئے ۔لیکن مولانا کا ظرف دیکھئے ۔انہوں نے کہا ‘‘چھوڑیئے مسٹر جناح نے اس سے اپنی عزت میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔’’اس کے برخلاف قوم پرستوں کے دل میں مولانا آزادکے لئے بڑی جگہ تھی ۔جہاں مہاتما گاندھی نے مولانا آزاد کو علم کا بے پناہ سمندر قرار دیا تو ہیں ڈاکٹر رادھا کرشنن نے ان کو ‘‘جدید وقدیم کی علمی ذہانتوں کا سنگم’’ مانا خود مولانا آزاد کی مہاتما گاندھی کے بارے میں یہ رائے تھی ، مجھے جو چیز ان کی پسند آئی وہ ستیہ (سچائی) تھی’’مولاناآزاد ‘‘آن بان کی شخصیت’’ کے حامل تھے۔ خود اپنے بارے میں ان کی یہ رائے ہے : میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں ۔بہر حال یہ مرد مجاہد ساری عمر ان شعر کی جیتی جاگتی تصویر بنارہا :
دشمنوں کواپنایا،دوستوں کے غم کھائے
پھر بھی اجنبی ٹھہرے ،پھر بھی غیر کہلائے
(مجیب خیر آبادی)
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مولانا آزاد کی تعلیمات اور ان کے فلسفہ کو عام کیا جائے ملک کے اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے مولانا آزاد نے جو خدمات انجام دی ہیں انہیں مشعل راہ بنایا جائے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہندوستان میں مولانا آزاد پر اتنا کام نہیں ہوا جس کے وہ مستحق تھے۔حیرت اس پر ہے کہ پاکستان میں مولانا آزاد پربہت زیادہ کام ہوا ہے۔ مولانا آزاد کے فلسفہ کو اب پاکستان میں تسلیم کیا جانے لگا ہے اب جبکہ حکومت ہند نے مولانا آماد کے یوم پیدائش کو ‘‘یوم تعلیم’’ کے طور پر منانے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو انہیں عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ وہ جس قوم سے تعلق رکھتے تھے اور جو آج مسائل کے گرد اب میں گھری ہوئی ہے اسے تمام جمہوری اور آئینی حقوق کے ساتھ ملک کی تعمیر وترقی کی سرگرمیوں میں شریک ہونے اور ان سے استفادہ کرنے کے بھرپور مواقع فراہم کئے جائیں۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/kohinoor-indian-politics-/d/1538