ساومیر خان
5فروری، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام )
رسول رحمت پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کو ایک فطری حالت نہیں قرار دیا ، اور ایک ہی وقت میں، جنگ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی مصلح یا روحانی رہنما اس کے مظالم کو کم سے کم کر سکتا ہے ۔ رسول رحمت نے خدا کے حکم پر امن قائم کرنے کے لئے اور انمول انسانی زندگی کی قیمت کو کم کرنے کے لئے ایسے قوانین بنانے کی کوشش کی جو کہ ممکنہ حد تک جنگ کو انسانی بنا سکے ۔
کچھ علامات کو دیکھ کر جنگ کے متعلق نبوی نقطہ نظر کی بہتر تعریف کی جا سکتی ہے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کئی مواقع پر عسکری انداز میں اپنا دفاع کرنے پر مجبور تھے ، جبکہ نتیجے کے طور پر انسانی تاریخ میں اسی طرح کی لڑائیوں اور جنگوں میں انسانی نقصان کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہے ۔ تمام 28 لڑائیوں اور 38 مہمات میں ان جنگوں نے دونوں اطراف سمیت کل ہلاکتوں کی تعداد تقریبا 287 ،1زندگیاں ہیں ۔
کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ جانی نقصانات کی تعداد میں کمی واقع ہونے کی وجہ اتنی ہی تعداد میں جنگجوؤں کا حصہ لینا ہے جو مختلف مہمات میں حصہ لے چکے تھے ۔ لیکن ایک محتاط تجزیہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں حصہ لینے والے افراد کی تعداد کی بہ نسبت ان جنگوں میں مارے گئے لوگوں کی شر ح 5 .1 فیصد ہے ۔ چونکہ ان لڑائیوں میں سے اکثر میں رسول رحمت ہی فاتح تھے لہٰذا ہلاکتوں کی تعداد سے یہ ظاپر ہوتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ کے بے رحم اور وحشی سپہ سالار، فاتح، اور فوجی جرنیلوں میں سے نہیں تھے اور در حقیقت وہ ان سے بہت دور تھے ۔
انسانی تاریخ میں دوسری جنگوں کے ساتھ مندرجہ بالا میں مذکور تعداد کا موازنہ کریں۔ مثال کے طور پر، صرف دوسری عالمی جنگ میں، (عام شہریوں سمیت ) مارے گئے لوگوں کی تعداد کے درمیان اور ان جنگجوؤں کے درمیان تعلق جو اس جنگ میں ملوث تھے 351 فی صد تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس جنگ میں 10,600,000 لوگوں نے حصہ لیا جبکہ انسانی ہلاکتوں کی تعداد 54,800,000. ہے ۔
وحشیانہ جنگ کو فروغ دینے کے برعکس، دوسروں کے خلاف تشدد کے استعمال اور اسباب کو یکسر محدود کر کے رسول رحمت نے جنگ کے اصول میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کیں ۔ بالکل آج کی طرح، رسول رحمت ایک ایسی دنیا میں رہتے تھے جس میں سفاکانہ جنگ اپنے عروج پر تھی ۔ اس وقت کے رومی اور فارسی سلطنتوں کی طرح ، اور آج کی سلطنتوں کی طرح، عرب قبائل بنیادی طور پر کسی اعلی اخلاقی مقصد کے بجائے مادی فوائد کے لئے جنگ میں مصروف تھے ۔ تاہم، رسول رحمت اسے یکسر بدلتے تھے ۔
رسول رحمت نے جنگ کے ہنگامے میں بھی کئی اہم اخلاقی اصولوں کی پابندی پر زور دیا۔ سب سے پہلے، انہوں نے بنیادی طور پر جنگ کی بنیادی سمجھ اور اس کے تصور کی دوبارہ وضاحت کی ۔ جہاد فی سبیل اللہ (خدا کی راہ میں جدوجہد)کی ایک بالکل نئی اصطلاح متعارف کرا کر انہوں نے خالصتا مادی یا ذاتی مفادات کے محرکات سے جنگ کو پاک کیا ۔ جہاد کا مطلب "جدوجہد" ہے ،اور دوسروں کی طرف سے عائد نا انصافیوں اور ظلم کو دور کرنے کے لئے اجتماعی کوشش ہے ۔ "اللہ کی راہ میں" (فی سبیل اللہ) کا اضافہ کر کے انہوں نے سکھایا کہ کہ جنگ لوٹ، فخر، وقار، محکومی یا دوسرے لوگوں پر ظلم کے لئے نہیں شروع کی جانی چاہئے ۔ یہ عقیدہ ایک ساتھ جنگ کے اصولوں کا انعقاد ثابت ہوا اور اس کے اندر تمام ممکنہ موروثی نا انصافیوں پر لگام ڈال دیا ۔
جنگ کے اس نئے تصور کے تحت رسول رحمت نے ایک قوانین کا جامع مجموعہ پیش کیا جو جنگ کے تمام اصول اور اس کے اخلاقی حدود، اجزاء، حقوق اور ذمہ داریاں، جنگجوؤں اور غیر جنگجو کے درمیان فرق اور ان کے حقوق، سفیروں اور جنگی قیدیوں اور مفتوح لوگوں کے حقوق کو شامل ہے ۔ یہ تمام اصول رسول رحمت کے ذریعہ واضح طور پر بیان کئے گئے تھے ۔
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کی حرمت اور تقدس پر بھی زور دیاخواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ۔ انہوں نے اس قرآنی آیت کو عملی جامہ پہنایا :
جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا (5:32)
اس الہی ہدایات کے ذریعے، رسول رحمت نے تمام خود غرض مقاصد اور کمتر مقاصد سے جنگ کو پاک کیا ۔ ان کے پیروکار، اگرچہ وہ یقینا عظیم غلطیوں کا شکار تھے اور اب بھی ہیں، عام طور پر ان اصولوں کی غیر معمولی مثال تھے ۔
رسول رحمت نے ڈکیتی، رہزنی اور لوٹ مار کو ممنوع قرار دیا جو کہ ان سے پہلے جنگوں میں ایک عام معمول تھا ۔ مثال کے طور پر، جب خیبر امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد کچھ نئے نوجوان مسلمانوں نے یہودی کے املاک کو لوٹنا شروع کر دیا۔ یہودی لیڈر رسول رحمت کے پاس آیا اور پوچھا: " کیا آپ لوگوں کے لئے ہمارے گدھوں کو ذبح کرنا ، ہماری فصلیں ہڑپنا اور ہماری عورتوں کو مارنا مناسب ہے ؟" رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً پوری فوج کو نماز کے لئے مسجد میں آنے کا حکم دیا اور ان سے کہا:
"اللہ نے تمہیں بغیر اجازت کے اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے اور ان کی عورتوں کو پیٹنے اور ان کی فصلوں کو کھانے کی اجازت نہیں دی ہے "
اگر راستے پر کوئی دودھ دینے والا جانوروں پایا جائے اور فوجی اس کا دودھ دلینا چاہتےہوں وہ ایسا نہیں کر سکتے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ ہو جائے ۔ لہذا، جنگ میں بھی رسول رحمت نے قانون کی حکمرانی کی اہمیت اور دوسروں کی جائیداد اور حقوق کے احترام پر زور دیا جیسا کہ جدید جنگوں میں پایا جانا بعید ترین ہے ۔
ماضی میں فوج نے فصلوں، کھیتوں اور املاک اور یہاں تک کہ پورے گاؤں کو تباہ کر دیا۔ لیکن پیغمبر رحمت نے عورتوں، بچوں، بوڑھے، بیمار، زخمی، اندھے، معذور، ذہنی طور پر بیمار، مسافر، راہبوں اور عبادت گذار جیسے تمام غیر جنگجوؤں کے قتل کو ممنوع قرار دیا ۔
در اصل انہوں نے صرف انہیں مارنے کی اجازت دی جو مقابل ہوں ، ان کے پیچھے تمام لوگ حملے سے محفوظ تھے ۔ خاص طور پر رسول رحمت نے اتنے زیادہ حقوق عطاء کئے جو آج کے منصفانہ جنگ کے نظریات میں بیان کردہ سے کہیں زیادہ ہیں ۔
ایک بار پیغمبر رحمت نے میدان جنگ میں ایک عورت کی لاش دیکھی اور بہت زیادہ اداس ہو گئے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے ان کے کمانڈر خالد بن ولید کو حکم دیا کہ: "عورتوں اور مزدوروں کو قتل مت کرنا ۔۔۔" اس کے علاوہ، رسول رحمت نے خاص طور پر راہبوں یا عبادت گذاروں کو قتل کرنے سے مسلمانوں کو منع کیا اور عبادت گاہوں کو تباہ کرنے سے باز رہنے کو کہا ۔
اسلام سے قبل عرب اور غیر عرب دونوں ، انتقام کے جوش میں عادتاً اپنے دشمنوں کو زندہ جلا دیا کرتے تھے ۔ رسول رحمت نے اسے قطعاً ممنوع قرار دیا " آگ کے رب (خدا) کے سوا کسی کو آگ سے سزا دینے کا حق نہیں ہے" ۔ انہوں نے دشمنوں کی لاشوں کے اعضاء کاٹ کر ان کی بے حرمتی اور قطع عضو سے منع فرمایا ۔
رسول رحمت نے یہ اعلان کرتے ہوئے جنگی قیدیوں کو ہلاک کرنے سے منع فرمایا : "کسی زخمی شخص کو ہلاک نہیں کیا جائے گا اور کسی بھی بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا ۔۔۔"
رسول رحمت نے یہ بھی فرمایا کہ کوئی شخص کسی کا اعتماد نہیں توڑ سکتا اور جن کے ساتھ امن قائم ہو چکی ہے انہیں مار نہیں سکتا ۔ کسی بھی امن معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہئے، انہوں نے فرمایا کہ : " اگر تم نے کسی قوم کے ساتھ معاہدہ کیا ہے تو تم اس میں اس میں اس وقت تک کوئی تبدیلی اور تغیر نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ ختم نہ ہو جائے ۔۔۔"
آج حفظ ماتقدم کے طور پر حملوں کے حیلے کے تحت مسلسل جنگ کے اس دور میں، یہ تعلیمات ہمارے زمانے کے ایک پیغمبر کی عدل اور انصاف پسند شخصیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔
رسول رحمت نے انسانی ہلاکتوں کی تعداد کم سے کم حد تک گھٹانے کی کی حتیٰ المقدور کوشش کی۔ ہر وہ شخص جو رسول رحمت کی جنگوں کا حقیقت پسندانہ مطالعہ کرتا ہے اور اس کا موازنہ ہمارے دور جدید کی جنگوں (مثلاً عراق، افغانستان، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جنگوں) سمیت انسانی تاریخ میں دوسری جنگوں کے ساتھ کرتا ہے تو آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ ان کی جنگیں کم خونی اور زیادہ انسانی ہیں ۔
بہت سے لوگ رسول رحمت کو جنگ کا سوداگر اور خون کے پیاسے کے طور پر پیش کرتے ہیں گو کہ ان کا اصل مقصد جنگ کرنا ہی تھا ۔ لیکن حقیقت میں، مدینہ میں ان کی زندگی کے دس سالوں میں سے صرف 795 دن لڑائیوں اور مہم میں گزرے ۔ اور باقی دس سال (جو کہ تقریبا 2865 ایام ہیں ) انہوں نے لوگوں کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لانے اور ایک کافر معاشرے کی مکمل طور پر اصلاح میں خرچ ہوئے ۔ اس تاریخی حقیقت کو ان کے اکثر سوانح نگاروں اور تقریبا تمام مغربی ادیبوں کے ذریعہ نظر انداز کیا گیا ہے جو انہیں ایک جنگ جو کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
ماخذ: http://www.lankaweb.com/news/items/2013/02/05/did-muhammad-lead-numerous-wars-that-were-barbaric-and-bloody/
URL for English article
https://newageislam.com/islamic-personalities/muhammad-lead-numerous-wars-that/d/10317
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/muhammad-lead-numerous-wars-that/d/12937