سیموئیل بید
5 جولائی ، 2012
گلگت۔ بلتستان کے عوام جس کسمپرسی کے عالم میں جی رہے ہیں ، اس کے جانب عالمی
برادری کی توجہ 60 سال سے بھی زیادہ عرصہ بعد گئی اور وہ نیم دلی سے ۔ یاد رہے کہ یہ
خطہ ریاست جموں وکشمیر کا ایک حصہ ہے جس پر
1947میں پاکستان نے قبضہ کرلیا تھا۔ اسی طرح عالمی برادری نے تقریباً ساڑھے چھ دہائی
بعد بلوچستان میں جاری موت کے رقص کی جانب توجہ کی ۔ بلوچستان کو پاکستان نے طاقت کے
زور پر 1948 میں اپنی قلمرو میں شامل کیا ۔ اس کے بعد ہی سے ہوائی بمباریوں کے ذریعے
یہاں کے لوگوں کا جینا حرام کردیا گیا گویا یہ خطہ دشمنوں کا کوئی علاقہ ہو۔
لیکن پاکستان کے شیعہ فرقہ
کی حالات زار پرابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی جو اس سنی اکثریت کے ملک میں آبادی کے 30فیصد حصہ کا احاطہ کرتےہیں۔اکثریت کے انتہا
پسند حلقے کھلم کھلا یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ
پاکستان کی سرزمین کو شیعوں سے پاک کرائیں گے ۔ ایسے اعلانات اخباروں میں بھی
چھپتے ہیں لیکن حکومت ایسے شرپسندوں کو سزا نہیں دیتی کیونکہ یہ عناصر ملک کے سب سے
طاقتور ادارے یعنی فو ج کے گرگے ہیں۔
گذشتہ ماہ جب ایک بس ہزارا
شیعہ زائرین کو ایران سے کوئٹہ واپس لے جارہی تھی تو اس پرراکٹ سے حملہ کردیا گیا۔
گیارہ زائرین ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ۔ ہزار ا فرقہ کے ایک لیڈر نے کہا کہ فوج سے
شکایت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو پورے بلوچستان میں پھیلی ہوئی ہے کیونکہ جو
تنظیم شیعوں کو نشانہ بناتی ہے ، وہ خود فوج کی قائم کردہ ہے۔ یہاں اس کا اشارہ سپاہِ
صحابہ نام کی تنظیم کی طرف تھا جو جنرل ضیاء الحق کے آشیرواد سے قائم ہوتی تھی۔ شیعوں
کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے 1980کی دہائی
میں یہ تنظیم اس وقت قائم ہوئی تھی جب امریکہ کی قیادت میں افغان جنگ شباب پر تھی۔
بعد میں اسی تنظیم سے ٹوٹ کر ایک نیا گروپ
لشکر جھنگو ی کے نام سے قائم ہوا جس نے شیعوں ، ان کی عبادت گاہوں اور جلوس پر تشدد
حملوں کا سلسلہ شروع کیا اس کے علاوہ شیعوں
کی ممتاز شخصیتوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ لشکر جھنگوی شروع شروع میں پنجاب اور
کراچی میں سرگرم تھی ۔ اب یہ کوئٹہ میں ہزارا شیعوں کا خون بہانے میں مصروف ہے دوسری
طرف سپاہ ِ صحابہ نے گلگت بلتستان میں شیعوں کے خلاف ایک خونیں جنگ چھیڑ رکھی ہے۔سپاہ صحابہ کا کہنا ہے کہ شیعہ پاکستان میں صرف ایک غیر مسلم
اقلیت کے طور پر رہ سکتے ہیں ۔ دوسری طرف لشکر جھنگوی انہیں صفحہ ہستی سے مٹادینے کا
ارادہ رکھتا ہے ۔ اس مقصد کا حاصل کرنے کے لئے اس نے کوئٹہ کا انتخاب کیا جہاں وہ ہزار
و ہزار شیعوں کو فنا کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزارا شیعہ افغانستان سےہجرت
کر کے اس وقت کوئٹہ آئے جب انہوں نے اپنی جان کے لئے خطرہ محسو س کیا ۔ طالبان کے
اقتدار میں آنے کے بعد وہ بطور خاص بہت خوفزدہ تھے۔ پاکستان کے اخبار ‘‘ڈیلی ٹائمز’’
نے بلوچستان میں مسلکی تشدد یا ہزارا شیعوں کے ہلاکت کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا۔
اس مضمون میں یہ کہا گیا تھا کہ ہزارا شیعہ افغانستان سے بلوچستان آئے وہاں برطانوی حکومت کے زمانے میں انہیں نچلی ذات تصور کیا جاتا تھا یہ الگ تندرست و توانا
اور محنتی ہوتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے یہ سوچا تھا کہ برطانوی فوج کی واپسی کے بعد ہزار ا اقلیت گورکھا کی جگہ لے لے گی۔ پاکستانی
فوج نے ہزاراباشندوں کو فوج میں بحال کیا۔ ان میں سے کچھ اونچے عہدوں پر بھی پہنچے
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 60کی دہائی میں جنرل موسیٰ کمانڈران چیف بنائے گئے تھے ۔ ریٹائرمنٹ
کے بعد انہیں مغربی پاکستان کا گورنر بنایا گیا تھا۔ 1980کی دہائی میں وہ بلوچستان کے گورنر بنے انہوں نے ہی ایک آرڈیننس
جاری کرکے ہزارا کو بلوچستان کا ایک مقامی
قبائلی گروپ قرار دیا تھا۔اپنی سخت محنت کے سہارے اقتصادی طور پر یہ ایک خوشحال
فرقہ بن گیا ۔ کوئٹہ کی 20 سے 25فیصد دکانوں کے مالک یہی لوگ ہیں اور یہی بات شیعہ
مخالف حلقوں کو کھٹکتی ہے۔ ان پر حملہ کرتے
وقت حملہ آور یہ بات بھی ذہن میں رکھتے ہیں
کہ ان کی اقتصادی لائف لائن کو ختم کردیا جائے۔ بہت سے پاکستانی اس شیعہ مخالف مہم
کو ایران ۔سعودی رقابت کے طور پر بھی دیکھتے ہیں ان دونوں ممالک نے پاکستان کی سرزمین
کو ایک ایسے میدان جنگ میں تبدیل کردیا ہے جہاں
وہ اسلامی نظریاتی اختلافات کو اپنے
اپنے انتہا پسند گروپ کی مدد سے بڑھا وا دینا
چاہتے ہیں ۔
جس تو اترسے لشکر جھنگوی شیعوں
کو بے روک ٹوک قتل کررہا ہے اس پر حیرت ہوتی ہے ۔گذشتہ سال 29جولائی کوموٹر سائیکل
پر سوار دو افراد نے اس بس پر فائرنگ کی جو ہزارا شیعہ کو ایران لے جارہی تھی۔ اس کے
دوسرے دن ایک وین میں سفر کررہے ہزارا شیعوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ۔ یہ واقعہ
پشنی میں پیش آیا ۔ لشکر جھنگوی نے ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو یہ وارننگ دی تھی کہ وہ
اپنی گاڑیوں میں شیعوں کو سفر نہ کرنے دیں اور اگر انہوں نے یہ بات نہیں مانی تو اس
کا انجام بہت برا ہوگا۔ اس تنظیم نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ اس نے شیعہ لوگوں کو مارا ہے۔ ہزار ا ڈیموکریٹک
پارٹی کے سکریٹری نے کہا کہ فوج سے شکایت کرنا بےکار ہے کیونکہ اس نے خود ہی شیعوں
کو مارنے کے لئے یہ تنظیم قائم کی تھی۔ اس طرح شیعہ بالکل مجبور ہیں۔ وہ اس کے سوا
کچھ نہیں کرسکتے کہ ہڑتال اعلان کر کے خود اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچائیں ۔
ایک مہینہ بعد خود کش بمبار
وں نے کوئٹہ سے گیارہ شیعوں کو اس وقت ہلاک کیا جب وہ عید کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر
آرہے تھے ۔ ایک بلوچ صحافی نے کہا کہ عام طور سے پولیس یہ ہمت نہیں کرتی کہ قاتلوں
کو پکڑسکے ۔ لیکن جو پولیس افسران ہمت کر کے کسی قاتل کو گرفتار کرتے ہیں انہیں خود موت کی نیند سلادیا جاتا ہے۔ سنی انتہا پسندکھلم کھلا کہتے ہیں کہ وہ شیعوں کو مار ڈالیں
گے لیکن حکومت اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ شیعوں کی ہلاکت کا الزام بلوچ قوم پرستوں
پر ڈال دیا جائے لیکن حکومت کی اس تھیوری پر کوئی یقین نہیں کرتا کیونکہ ہر شخص جانتا
ہے کہ بلوچ قوم پر ست سیکولر ہیں اور آزادی کے لئے لڑرہے ہیں ۔
اس کے بعد 20دنوں کے اندر
اندر لشکر جھنگوی نے 26 شیعوں زائرین کو ہلاک کیا جو بس کے ذریعے کوئٹہ سےایران جارہے
تھے ۔ ان ہلاکتوں کے بعد بلوچستان میں مرنے والے ہزارا شیعوں کی تعداد 1400تک پہنچ گئی۔اس
صورتحال سے ناراض ہوکر ایرانی حکام نے ایران
۔بلوچستان سرحد بند کردی ۔ ہزارا ڈیموکریٹک پارٹی نے یہ شبہ ظاہر کیا ہے کہ ان واقعات میں صرف لشکر جھنگوی ملوث نہیں ہے بلکہ حکومت
کی خفیہ ایجنسیاں لشکر جھنگوی کا لبادہ اوڑھ کر شیعوں کو مارر ہی ہیں۔
ہزارا شیعوں کی ہلاکتوں کے
سلسلے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بھی یہ شبہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس میں خفیہ
ایجنسیوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے ۔ یہ شبہ اس وقت ظاہر کیا گیا جب شیعوں پر تازہ ترین حملہ
کوئٹہ میں 28 جون کو ہوا اس دن ہزارا شیعوں کو ایران سے کوئٹہ لانے والی بس پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا۔ 11شیعہ مارے گئے
تھے پچھلے مارچ سے اس سال کے اپریل مہینہ تک
یعنی ایک سال کے اندر 29 ہزار شیعوں کو گھات لگا کر مارا گیا ۔ ہزار ا ڈیموکریٹک پارٹی
کا کہنا ہے کہ اوسطاً ہر روز ٹارگیٹ کلنگ پر 4 ہزار شیعوں کو مارا جاتا ہے ۔ اس پارٹی
نے یہ بھی کہا کہ 21 ہزار ہزارا شیعہ پاکستان سے نکل جانے کی کوشش میں ہیں پاکستان
نیشنل پارٹی کےلیڈر میر بز بخو نے کہا کہ ہزارا
شیعوں کی ہلاکت کا سلسلہ گزشتہ 5سال سے جاری ہے لیکن ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ ایک ہزارا لیڈر نے یہ بھی
کہا کہ ان حملوں کے باعث اس فرقہ کی اقتصادی حالت تباہ ہورہی ہے ٹرانسپورٹ او رہوٹل
کے کاروبار پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے ۔لوگ سفر کرنے میں خوف محسوس کرتے ہیں ۔ سندھ کے شیعوں نے آنا جانا بند کردیا ہے ۔ اس نے
کہا کہ اس سے پہلے 300 سے 400 ہزارا شیعہ طلبا
کوئٹہ یونیورسٹی جایا کرتے تھے۔ اب
ان کی تعداد نہیں کے برابر ہے ہزارا بچے اسکول جانے سے ڈرتے ہیں۔ دکاندار اپنی دکان کھولنے سے
گھبراتے ہیں ۔ اس نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ حکومت ہزارا باشندوں کی
املاک خریدے تاکہ وہ کہیں اور جاکر پناہ لے
سکیں ۔ اس طرح خبریں بھی مل رہی ہیں کہ شیعہ اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ کشتی کے ذریعے
یا کسی اور طریقے سے وہ اپنے آپ کو اسمگل
کر کے سری لنکا یا انڈونیشیا کے راستے عیسائی ملکوں میں لے جائیں ۔ حالیہ ہفتوں میں سینکڑوں شیعہ خاص طور سے کرم ایجنسی کے شیعہ آسٹریلیا جاتے ہوئے سمندر میں اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی کشتی کو حادثہ پیش آیا ۔ آسٹریلیا سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق اس سال غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کی تعداد بڑھ کر دو گنی ہوگئی ہے۔ پناہ حاصل کرنے والے ان
تارکین وطن میں سب سے زیادہ پاکستانی ہیں اور
ان میں قبائلی علاقوں کے شیعوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اپوزیشن
پارٹیاں اور دفاع پاکستان کونسل اس
بات پر تو واویلا کرتی ہیں کہ حکومت نے نیٹو سپلائی کا راستہ دوبارہ کھول کر پاکستان
کی غیرت کا سودا کیا ہے لیکن اس بات سے انہیں قطعی شرم
نہیں آتی کہ ان ہم وطن در در بھٹک رہے ہیں او رپناہ کی بھیک مانگ رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں انہیں فنا کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ ہزارا شیعوں کی روز
مر ہ ہلاکتوں پر کسی سیاسی پارٹی نےکبھی احتجاج
نہیں کیا۔
5 جولائی ،2012 بشکریہ
: جدید میل ، نئی دہلی
URL: