سمیع اللہ ملک
23 فروری، 2015
انسان کی تخلیق بے شک خداوند قدوس کا ایک بہت عظیم کارنامہ ہے پھر اس تخلیق کو خالق نے اشرف المخلوقات کہہ کراس کی عظمت کا معیاربھی مقررکردیاساتھ ہی زمین آسمان،سورج ، پانی ہوابلکہ ساری کائنات کی تخلیق کر کے انسانی زندگی کے تسلسل کاسامان ہی پیدا کردیا بلکہ یہ حکم بھی صادر فرمادیا کہ کسی ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل سمجھا جائے گا ان واضح احکامات کے باوجود بہت سے فرعونوں، ظالم بادشاہوں،فوجی اورسیاسی آمروں نے انسانیت کا بے دریغ قتل کرکے اپنے ہاتھ انسانی خون سے رنگے۔ پہلی جنگ عظیم میں انسانوں کا قتل، دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہاتھوں انسانی جانوں کاضیاع،جاپان کے شہروں ہیروشیمااورناگاساکی پر امریکاکاایٹمی حملہ جس میں نہتے لوگوں کی ہڈیاں بھی راکھ بن گئیں ویت نام،کوریا،بوسنیا،ایران عراق،فلسطین،عرب اسرائیل اورگلف کی لڑائیوں میں بے پناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔ حالیہ دور میں عراق ،افغانستان،شام اوریمن میں جو ہو رہا ہے وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔
قیام پاکستان کے وقت بھی انگریزوں کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے بہت سے بے گناہ انسانوں کی جانیں موت کی بھینٹ چڑھیں بہرحال اللہ کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت پاکستان کے دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہونے کے بعد یہ سوچاجارہاتھا کہ خدا کی وحدانیت پر یقین رکھنے والے کلمہ گوکم ازکم اس سلطنت میں حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں گے اورہوابھی ایسے۔جنرل ایوب کے دور میں جب چینی کے ریٹ میں معمولی اضافے پر راولپنڈی کے ایک کالج کے دو طلبا کی ہلاکت ہوئی تو پوراپاکستان ہل گیا جس سے ایک مضبوط ڈکٹیٹر کی حکومت ڈانوا ڈول ہو کر ٹوٹ گئی۔ اس کے بعدمشرقی پاکستان اورپھربلوچستان میں کچھ انسانی جانوں کے تلف ہونے کو قوم نے نہایت حقارت سے دیکھالیکن انسانوں کے سفاکانہ قتل کاجوسلسلہ حالیہ دور میں پاکستان میں شروع ہواہے اس نے دہلا کر رکھ دیاہے۔
اس لحاظ سے یہ دور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دورہے جس نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے غریب لوگ جوآٹھ دس افراد کے کنبوں کے واحدکفیل، گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں،اب تک سینکڑوں بلکہ ہزاروں اپاہج ہو چکے ہیں ان کے چولہے بجھ گئے ہیں، اس ناکامی پرکسی وزیر،وزیرِ اعلیٰ،گورنریاقومی لیڈر نے استعفیٰ نہیں دیابلکہ سندھ حکومت اورایم کیوایم کے درمیان الزامات کی بارش اور سیاسی چپقلش جوآسمان کوچھورہی تھی ،ڈرامائی اندازمیں ایک ہی رات میں ایک دوسرے پرتمام الزامات کے باوجودسینیٹ کی صرف چار سیٹوں کیلئے بغیرکسی سیاسی حلالہ کے نکاح سرانجام پاگیا۔ پاکستانی قوم ان دونوں جماعتوں کایہ ڈرامہ پہلے بھی کئی باردیکھ چکی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنماء جوخودکوخوشحال،بہتر،انقلابی اورنیا پاکستان کے اشتہاروں پراربوں روپے خرچ کر کے اگلے پانچ سال کے لئے اپنے آپ کوقوم کاناگزیر مسیحا کے طورپیش کررہے ہیں ،کیایہ ہلاک کنند گا ن کے لواحقین کے زخموں پرنمک پاشی نہیں کر رہے؟ انسانی لاشیں اوران کا خون ابھی سڑکوں پربکھراپڑاہوتا ہے اوراس پرقومی سوگ مناناتودرکنارٹی وی چینلوں پرناچ گانابند نہیں ہوتااورقومی قیادت کسی کے جنازے میں نہیں پہنچ پاتی۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں اسسٹنٹ جج ایڈووکیٹ جنرل آف رینجرزمیجراشفاق احمد کے بیان کے ساتھ جمع کرایا گیا۔ ساری قوم برملایہ سوال پوچھتی ہے کہ بھتہ نہ ملنے پرزندہ جلانے والے ایم کیو ایم کے وحشی درندوں کا نام سامنے آنے پرملک میں ارتعاش کیوں نہیں آیا جبکہ سانحہ پشاورکاردعمل اس سے بہت مختلف تھا؟نہ تو چینلز کے'' لوگو'' سیاہ ہوئے اورنہ ہی چیختی چھنگاڑتی سرخیاں اخبارات کی زینت بنی۔ قومی امن کانفرنس کا انعقاد کرنے والے کہاں بے ہوش پڑے ہیں؟ پشاورکے سانحے کی طرح سفاکی کے اس بدترین عمل کی مذمت کیوں سامنے نہیں آئی؟ وزیرداخلہ کی معنی خیزخاموشی نے قوم کومضطرب کردیاہے؟ جبکہ قوم ان سے توقع کررہی ہے کہ وہ اس رپورٹ کے آنے کے بعدقاتلوں کے خلاف فوجی آپریشن اورفوجی عدالتوں کے قیام اورصولت مرزا،طارق باٹا،فیاض پپواور جاوید لنگڑاکی پھانسی کے پھندوں پرجھولتی لاشوں کی ویڈیوجاری کرنے کی نویدسنائیں گے؟ اپنے ایک عالم کے قتل پرسپریم کورٹ Bhatta Khoriکے سامنے دھرنادینے والے علمائے کرام نے ابھی تک ان قاتلوں کے خلاف فتویٰ جاری کیوں نہیں کیا ؟
ملک کے انتہائی ذمہ داراداروں کی مشترکہ کاوشوں پرمشتمل اس رپورٹ کے بعدمجرموں کے خلاف وزیراعظم کانہ توکسی سوگ اورنہ ہی کوئی اعلان جنگ سامنے آیا بلکہ دوبارہ اس معاملے پرجے آئی ٹی کی تشکیل کے اعلان کرکے گویااپنے ہی اداروں پرعدم اعتمادکا اظہار کردیاہے؟ صوبے کے معمر ترین وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے یہ کہہ کرجان چھڑالی کہ ملک کے بڑے اس معاملے کوحل کررہے ہیں جبکہ شنیدیہ ہے کہ میاں صاحب توزرداری کواس مشکل سیاسی حالات میں اپنے بھرپورتعاون کی یقین دہانی کراکررخصت ہوگئے۔ان مشکل حالات میں فوج کے سپہ سالارجنرل راحیل نے دوٹوک الفاظ میں تمام سیاسی قوتوں اور قوم کویہ پیغام دیاہے کہ کراچی میں امن کیلئے ہمیں کسی بھی حدتک جانے سے گریز نہیں کرنا چاہئے!
میں ارباب اختیارکی حب الوطنی یااپنی بساط کے مطابق ملکی معاملات کوچلانے کی پرخلوص سعی پرمعترض نہیں لیکن یہ پوچھنا توقوم کاحق ہے کہ اب تک وزیرستان،باجوڑ،درگئی اور ضرب عضب میں ہمارے ہزاروں بہادراورمحب وطن مجاہدوں کا خون،12مئی کی کراچی کی قتل وغارت،روالپنڈی بس دھماکہ،تربیلاعسکری کیس حملہ اور11ستمبر2012ء کو کراچی کی بدترین خونی ہولی کے ذمہ داروں کے خلاف ابھی تک کیوں کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی؟ جس داخلی اور خارجہ پالیسی کے بدولت قتل و غارت کا بازار گرم ہے اورہم سب غیر محفوظ ہو گئے ہیں، کیا اس کو کامیاب داخلی اور خارجہ پالیسی کہا جائے ؟اور اگر آج جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے، کیاان ناکام پالیسیوں کی ذمہ داری آئس لینڈ، مالدیپ اور نیوزی لینڈ کی حکومتوں پر ڈال دی جائے ؟
آج پاکستانی قوم ملکی بقاء کو درپیش خطرات پرانتہائی فکر مند ہے قومی سلامتی کے افق پرچھائی ہوئی کالی گھٹائیں، چمکتی ہوئی بجلیاں اورگرجتے ہوئے بادل بقول احمد ندیم قاسمی ہماری فصل گل کیلئے اندیشہ زوال ہیں۔اس خطرے کی گھنٹیوں کو نظر انداز کر کے قومی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں نہ لانا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر جب ہم ایک انسان،ایک مسلمان اورایک پاکستانی کی حیثیت سے ملکی حالات کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں خود پسندی،ذاتی عناد،منافقت، ناانصافی،نااہلی،عاقبت نااندیشی،ہوس اقتدار اور بیرونی آقاؤں کی بلیک میلنگ کے بے شماربھنورنظرآتے ہیں۔اہل وطن اس طوفانی ماحول میں پاکستانی سفینے کو ہچکولے کھاتے دیکھ کر ایک عجیب بے بسی کا شکار ہیں۔ بے بسی اس لئے کہ ملک میں موجودلاتعدادبااصول، سچے اورپیشہ ورہنرمندوں، انجینئروں،بہادر سپاہیوں، محب وطن سیاسی کارکنوں، قابل ڈاکٹروں،لائق وکیلوں، دیانتدارججوں،ممتازماہرین تعلیم،کامیاب تاجروں اورصنعت کاروں،چوٹی کے مذہبی علمائوں،غیور صحافیوں اورقابل سفارت کاروں کی موجودگی میں پاکستان سفینہ سمندرطغیانی سے نکل کر پر سکون ساحل کی طرف اس لئے نہیں آرہا کیونکہ ہمارے پاس بے لوث اوراہل قیادت کا فقدان رہا ہے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد بہت کم ایسے قائدین ہمیں نصیب ہوئے جن کی عظمت اوراحوال پرستی کو پاکستانی قوم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سلام کرے۔
قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں لیکن ان خطرات کا مقابلہ قومیں تب ہی کرسکتی ہیں جب قیادت کا قد کاٹھ ہو۔بظاہرہم اس وقت دوسری جمہوری حکومت کوبھگت رہے ہیں ۔ پشاور کے سانحے کی وجہ سے دھرنوں سے نجات تومل گئی لیکن جمہوری حکومتوں کے چلن بھی اب ہمارے سامنے ہیں۔ حکومت پائے کے قومی دانشوروں پرمشتمل ایک تھنک ٹینک بنائے جواپنی ذہانت،قابلیت،تجربے اوربین الاقوامی پہچان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی حکومتوں کو ایک غیر رسمی رہنمائی مہیا کرے لیکن تمام قومی پالیسیوں کی معمار صرف اور صرف پارلیمنٹ مگر اس کے ہرامیدوارکوقرآن کی چھلنی سے گزارکرمنتخب کیاجائے۔ میرا یہ ایمان ہے کہ ان اقدامات کے بغیر ہم اس گہری دلدل سے نکل نہیں سکتے!اگر ہم نے چند سیاسی جماعتوں کے ساتھ پینگیں بڑھا کراپنے اقتدارکوطول دینے کیلئے سازشوں میں مصروف رہے تو روزِ حشرسے پہلے حشربرپاہوجائے گا!
23 فروری، 2015 بشکریہ : روز نامہ نئی بات، پاکستان
URL: https://newageislam.com/urdu-section/towards-greater-tragedy-/d/101644