سمیع موعبید
25 نومبر 2015
جب داعش نے دریائے فرات ساتھ دیار زور کے مشرقی علاقوں میں مدائن شہر پر حملہ کیا تو انہوں نے خاص طور پر شام کے صوفیوں کے گھروں پر انتقامی حملہ کیا۔ صوفی سلاسل کے نمائندوں کو گرفتار کیا؛ ان علماء ان کے روحانی مراکز کو ڈھایا اور انہیں کوڑے مارے۔ بہر کیف تصوف کی تعلیمات داعش کی تعلیمات اور سنی اسلام کی مسخ شدہ تشریح کے عین برعکس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ دونوں مسلمان ہیں جیسے ہٹلر اور چرچل عیسائی تھے۔ اگر معاشرے کو چلانے کی اجازت دی جائے تو شامی اور عراقی صوفیوں کی تعداد شاید لاکھوں میں ہو گی جو داعش کی مذہبی خامیوں اور کمیوں کو اجاگر کرتے ہی۔
صرف صوفیوں کے پاس ہی داعش کو ختم کرنے کے لئے مذہبی ہتھیار، دانشورانہ مہارت اور سیاسی حکمت عملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داعش نے ان کا بائکاٹ کر دیا ہے، اور داعش کو ان سے عیسائیوں، علویوں، اور شیعہ مسلمانوں سے کہیں زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ محض جنگی جہازیں اور بموں سے ہی داعش کے خاتمے میں کامیاب حاصل نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اس کا خاتمہ اللہ سے محبت کرنے والے وہ صوفی علماء کر سکتے ہیں جو صرف قرآن کے نسخوں، اللہ کی تسبیح و تحلیل اور مذہبی ہتھیار سے لیس ہیں۔ تاہم، فوجی طاقت اور روحانی تصوف دونوں طاقتوں کو یکجا کر کے ہی داعش کی جسمانی اور نظریاتی تباہ کاری کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
تصوف ایک پرامن روحانی سلسلہ ہے، جسے ایک زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں دمشق اور بغداد میں زبردست بالا دستی اور رواج حاصل تھا۔ صوفیاء نے داعش کو سلفیت قرار دیکر اسے غیر اسلامی قرار دیا ہےاور صوفی مسلمان اپنی تعلیمات کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر رکھتے ہیں۔ صوفی مجتہدوں کو مذہبی معاملات کی تشریح کرنے میں زبردست اختیار حاصل ہے، اور (ضرورت پیش آنے پر) وہ اقدام بھی کرتے ہیں، جبکہ قرآن مجید میں اس کا برعکس واضح طور پر مذکور نہیں ہے۔ ان چیزوں کے درمیان ایک امر یہ بھی ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا کرنا چاہئے۔ یہاں تک کہ صوفیاء کےدرمیان نماز کی شکل بھی متنازعہ فیہ ہے؛ روحانی رقص اور موسیقی کے ذریعے بھی خدا سے رابطہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ داعش کے زیر تسلط علاقوں میں موسیقی اور رقص بڑے جرم ہیں جس پر موت کی سزا ہے۔
تصوف سب سے محبت کرنے کا ایک سلسلہ ہے، جو ایسے کسی بھی شخص کے قتل کی سختی کے ساتھ ممانعت کرتا ہے جو ایک خدا پر یقین رکھتا ہے۔ داعش کے نمائندے ان لوگوں کا قتل کرتے ہیں جو کلمہ (لا الٰہ الا للہ محمد الرسول اللہ) شہادت کی گواہی نہیں دیتے۔ عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو خارج کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے- تکفیری سوچ صوفی اسلام میں مکمل طور پر ممنوع ہے۔ تصوف میں جن حالات میں جہاد کیا جاتا ہے ان کے قوانین انتہائی سخت اور حساس ہیں، جن کی وجہ سے تصوف انتہائی غیر متشدد شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تمام مسلمانوں کی طرح وہ بھی ایک خلافت میں یقین رکھتے ہیں لیکن اس خلافت کا قیام جس کا وہ دعوی کرتے ہیں، بڑی بڑی تلوار اور لمبی لمبی داڑھی کے بجائے "برادرانہ محبت اور زندہ دلی کے ذریعے" کیا جانا ضروری ہے۔
داعش اسے ایک اسلامی ریاست قرار دیتا ہے، جبکہ صوفی اسے "دولت الارواح" یعنی "اچھی اور محبت کرنے والی روحوں کی ریاست" کہتے ہیں۔ اس ریاست کے اندر خدا ہر جگہ ہے اور اس سے ڈرنے نہیں بلکہ اس سے محبت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام لانے پر کسی کو مجبور کرنا، مذہب پر کسی کی اجارہ داری قائم کرنا اور اسی طرح خدا تک پہنچنے کے لیے کسی ایک راستے کا تعین کرنا تصوف میں سخت ممنوع ہے۔ خدا کا نام تسبیح و تحلیل میں بلند کرنے کے لیے ہے، گلے کاٹتے وقت پکارنے کے لیے نہیں۔
تاریخی طور پر دمشق اور بغداد تصوف کے لئے ایک زرخیز زمین تھی۔ اپنے صوفی پس منظر کی وجہ سے ان دونوں شہروں نے نہ تو انتہاء پسند علماء کو جنم دیا ہے اور نہ ہی سلفی اسلام یا اس کی شاخ وہابیت کو اب تک تسلیم کیا ہے۔ اگرچہ، داعش آج ان دونوں شہروں کی دہلیز پر کھڑا ہے، لیکن داعش ان دونوں میں سے کسی بھی شہر میں قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں دمشق کے صوفی علماء نے سلطان عبدالحمید دوم کی تربیت کی تھی۔ عثمانی تصوف سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے تصوف کو ایک سرکاری اسلامی فرقہ قرار دیا اور اسے سلطنت عثمانیہ کی شناخت بنا دیا۔
مسلم دنیا کی چند بہترین شخصیتوں میں سے کچھ دمشق کے صوفی ہیں۔ ان میں سے ایک دمشق کے 8ویں اموی خلیفہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز (720-682) تھے، جنہوں نے دور دراز کے علاقوں سے اپنے مسلمان فوجیوں کو واپس لے لیا اور حکم جاری کیا کہ سلطنت بنی امیہ کے لیے اب مزید کوئی فتوحات نہیں کی جائیں گی۔ ان کی حکمت عملی فتح کے مقابلے امن قائم کرنے کی تھی۔ دوسرے صوفی مسلم سلطان صلاح الدین ایوبی تھے، جنہوں نے صلیبیوں کو شکست دینے اور یروشلم میں داخل ہونے کے بعد کسی بھی چرچ کو تباہ کرنے یا کسی بھی مسیحی کو قتل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے بھی دمشق ہی میں زندگی بسر کی اور وہیں انتقال کر گئے۔ ایک تیسرے صوفی دمشق کے الجزائری سلطان عبد القادر الجزائری ہیں جنہوں نے 1860 میں سولہ ہزار عیسائیوں کو اپنے گھر میں پناہ دیکر انیسویں صدی کے مشتعل لوگوں کی ایک بھگدڑ سے بچایا تھا۔
گزشتہ ہفتے ان کے ایک بیٹے نے جو کہ ایک صوفی بھی ہیں اور انہیں کے نام پر چلنے والی ایک تنظیم کے سربراہ بھی ہیں، ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ پیرس حملوں کے متاثرین اور خاص طور پر ان کے درمیان عیسائی شہید ہیں اور ان کا بھی سوگ اسی طرح منانا چاہیے جس طرح اسلام میں منایا جاتا ہے۔ دیگر ممتاز اصفیاء میں رومی، فارسی شاعر شمس تبریزی، لیبیا کے مزاحم رہنما عمر مختار اور بغداد کے عبدالقادر جیلانی ہیں جن کا صوفی سلسلہ، سلسلہ قادریہ کے نام سے مشہور ہے،
دمشق ایک زمانے میں دو انتہاء پسند شخصیات کا مرکز رہا ہے جن میں سے ایک سلفیت کے روحانی بانی ابن تیمیہ (1328-1263) اور دوسرے تصوف کے ایک "عظیم معلم" ابن عربی ہیں۔ یہ دونوں شخصیتیں ان کی مذہبی تعلیمات کے بانیان کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ دونوں دمشق میں ہی مدفون ہوئے۔ داعش ابن تیمیہ کو بہت زیادہ اہمیت اور عزت دیتا ہے؛ جب کہ دمشق کے باشندے ان کا ذکر بہت کم کرتے ہیں۔ معاصر علماء نے ان کے خیالات و نظریات کی مزاحمت کی ہے۔ ان کے اعزاز میں کسی بھی سڑک کا نام ان کے نام پر نہیں رکھا گیا۔ ہاں! وہاں کے لوگوں نے ابن عربی کے نام پر ان کے مزار کے بغل سے گزرنے والے جبل قاسيون کی ایک سڑک کا نام رکھا ہے، اور وہ اب تک ان کے نام کی قسم کھاتے ہیں۔ ابن عربی بظاہر دمشق کے باشندوں کے لیے پرامن، روحانی، عملی اور غیر متشدد انسان تھے۔
جب دمشق میں ابن تیمیہ اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے سے قاصر رہے تو انہوں نے صحراؤں کا سفر کیا جہاں ان کا سامنا عرب کے باد مخالف سے تھا اور جہاں انہوں نے جدید سعودی بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ ان کی باتیں صحراؤں کی ہی طرح سخت اور کرخت تھیں۔ صوفیاء کرام کی باتیں دمشق کی طرح نرم اور لچک دار تھیں۔
دنیا بھر میں تقریباً 15 ملین صوفی موجود ہیں، جن کا مرکز دمشق اور اس کی عظیم اموی مسجد ہے۔ انہیں دنیا بھر میں ٹیلی ویژن نیٹ ورک تک بڑے پیمانے پر رسائی دیکر اسکولوں اور مساجد کے منبروں پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ داعش کو ایک منظم طریقے سے غیر سنی قرار دیکر اس مہم کو عام کرنے کی ضرورت ہے؛ اور دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ابو بکر البغدادی اور ان کے ٹھگ نہ سنی مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ صرف اسی صورت میں دنیا حقیقت میں داعش کو شکست دینے کے لئے ایک انچ بھی قدم آگے بڑھا سکتی ہے۔
ماخذ:
goo.gl/7yr3wO
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/damascene-sufism-antidote-isis/d/105442
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/damascene-sufism-antidote-isis-/d/105566