سمر ہلرنکر
8 جولائی ، 2014
جو سب سے پرانی یادیں میرے ذہن میں ہیں وہ میری دادی ’اجی‘ کی ہیں جن کے ساتھ ایک ہی کمرے میں میں اور میرا بھائی ان کے ساتھ رہتا تھا۔وہ پلنگ پر بیٹھی آگے پیچھے ہلتی رہتیں۔ یہ 1970 کی دہائی میں دکن کے خطہ کی بات ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ کھڑکی سے آنے والے کیڑے مکوڑوں کو بھگانے کی کوشش کررہی ہیں جبکہ دوسری جانب ایک کتاب میں غرق ہیں۔10بچوں کی ماں اجی ان پڑھ ہیں لیکن ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں پڑھنے کی کوشش کررہی ہیں۔ انہوں نے پڑھنے کیلئے مراٹھی زبان میں لکھی رامائن کو منتخب کیا ہے جس میں صحیح غلط اور طاقت و کمزوری کا قصہ بیان کیاگیا ہے۔
مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ اجی مجھ سے کیا کہا کرتی تھیں لیکن ہلکا سا یادہیکہ میں نے ان سے کوئی غلط بات نہیں سیکھی۔ بچپن میں مذہبی دادی کے ساتھ کمرے میں رہا،جو دن میں کئی مرتبہ آنکھیں بند کرکے پوجا کرنے لگتی تھیں اور ان کے ساتھ کئی مرتبہ مختلف مندروں کی سیر کی۔ جب بھی میرے والدین ملک کے طو ل و عرض میں کہیں بھی جاتے وہ مختلف مندروں میں ضرور جاتے۔ہم سری نگر میں شنکر اچاریہ مندر کے پہاڑپر بھی چڑھے، کنیا کماری میں ۳سمندروں کے سنگم میں بھی پیر بھگوئے، تروپتی کی قطاروں میں بھی کھڑے رہے اورمدورئی کے میناکشی امّن مندر کی آرتی میں بھی حصہ لیا۔
بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے پر آپ مجھے معاف کردیں گی کیوں کہ یہ میریاج سے جڑی ہوئی باتیں ہیں اوریہ بھی اسی بات پر منحصر کرتی ہیں جو کہ آج میں ہوں، مذہبی نہیں بلکہ سیکولر۔مجھے غلط مت سمجھیں۔ اب میں کسی مندر میں نہیں جاتا لیکن میں روایات، فخر اور ثقافت کے وسیع تناظر میں خود کو ہندو قرار دیتا ہوں جو کہ اس سے زیادہ دور نہیں ہے جسے ہندو دائیں بازونے فیشن کے طور پر اختیار کیا ہوا ہے۔
جہاں میں خود کوغیرفیشن ایبل محسوس کرتا ہوں وہ یہ کہ میرے خیال میں ہندوستان کو کبھی ہندو راشٹر نہیں بننا چاہئی اور یہ کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہونا چاہئے جسے سرکاری دفتروں اور عوامی مقامات سے الگ رکھنا چاہئے۔ہاں تو مجھے یہ دیکھ کر اچھا نہیں لگا کہ نریندر مودی گنگا کی آرتی کیلئے وارانسی کے گھاٹ پر گئے حالانکہ میں اس بات سے خوش ہوں کہ انہوں نے پیر نہ چھونے کا حکم جاری کیا ہے۔ میں اپنی صورتحال پر اس لئے زور دے رہا ہوں کہ ہم مودی کی کامیابی کے بعد ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں سیکولر یا’سِکّولر(بیمار ذہنیت والا)‘جیسا کہ دائیں بازو کے لوگ مجھے کہتے ہیں، اور لبرل ہونا باعث شرم محسوس ہونے لگا ہے جسے چھپایا جائے یا جس پر تنقید کی جائے۔تو پھر نوتجدید شدہ دائیں بازو کے نزدیک لبرل ہونے کا کیا مطلب ہے؟
میرے نزدیک اس کے کئی معنی ہیں، لیکن اس کا وہ مطلب نہیں،جو ان کے نزدیک ہے۔ مثال کے طور پر لبرل ہونے کے ناطے میں براہ راست بائیں بازو کا لبرل نہیں ہوجاتا۔
میں پبلک سیکٹر کو ختم کرکے فری مارکیٹ قائم کرنے،لیبر لاء میں تبدیلی،سرکاری افسران کو مزید تنخواہ دینی میں یقین رکھتا ہوں، اور کم از کم آدھی حکومت کو تحلیل کرنے میں جو کہ کروڑوں ڈالر خرچ کرکے حفاظتی انتظامات کرتی ہے وہ بھی ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں حالانکہ حفاظتی انتظامات کرنا ضروری ہے کیوں کہ اگر مودی اپنے سارے وعدے پورے کردیں تب بھی انہیں ایسا کرنے میں بہت وقت لگے گا۔
میرا خیال ہے کہ مسلم نوجوانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور اکثر اوقات عدالتی کارروائی سے قبل ہی انہیں’انکاؤنٹر‘ میں ہلاک کردینا غیر قانونی، تخریبی عمل اور نہایت ہی غلط ہے جیسا کہ کسی کے محض بائیں بازو کی طرف جھکاؤکی وجہ سے اسے ماؤ وادی قرار دیکر اسے تشدد کا نشانہ بنانا ہے۔ میں بھی ماؤ وادیوں کے خلاف لڑائی میں شدت پیدا کرنیکا حامی ہوں اور ہاں میں سزائے موت کی بھی حمایت کرتا ہوں۔جب بھی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر پریڈدیکھتا ہوں تودم بخود رہ جاتا ہوں۔میں مانتا ہوں کہ ہمارے فوجی بہت ہی بہادر ہیں لیکن ان کے لئے رقم بہت کم خرچ کی جاتی ہے اور ان کے آلات بھی مناسب نہیں ہیں لیکن میں یہ بھی مانتا ہوں کہ جو حد سے تجاوز کرتے ہیں انہیں سزا دی جانی چاہئے اور خصوصی تحفظ کے قوانین کو ختم کردیا جانا چاہئے جن کی وجہ سے انہیں کشمیر اور منی پور جیسے علاقوں میں کسی کی بھی عصمت دری یا قتل کردینے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔
میں اس بات میں بھی یقین رکھتا ہوں کہ خواتین ہم سے بھی زیادہ اختیارات کی حقدار ہیں جو ہمیں اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کو دینا چاہئے۔ ہم انہیں غلط طور پر دیوی کا درجہ دے دیتے ہیں اور ان کی بد حالی کیلئے دوسروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت ہمارے دل اور ذہن میں پوشیدہ ہے کہ ہم انہیں آگے بڑھنے نہیں دیتے۔
راجیو گاندھی کی بات کریں تو میں ہمیشہ ہی اس بات پر یقین رکھتا آیا ہوں کہ ہندوستان میں جو کچھ غلط ہورہا ہے ان میں سے بہت ساری باتوں کیلئے کانگریس ذمہ دار ہے۔ اندرا گاندھی کے ذریعہ سکھ علاحدگی پسندوں کا بلاوجہ استحصال کرنے سے لیکر ان کے بیٹے کے ذریعہ بابری مسجد کا تالا کھولنے اور اندرا کے قتل کے بعد سکھوں کا قتل عام کرنے والوں کو نظر انداز کئے جانے تک بہت ساری باتیں اس میں شامل ہیں۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ مودی اپنی غلطیوں کی معافی تلافی کئے بغیر 2002 سے آگے نکل گئے۔ (اور ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ نے انہیں کلین چٹ دے دی ہو ، اس کا فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔) ان کی کامیابی کے بعد کئی لبرل افراد ان کے نظریات کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔ سوشلسٹ شیو وشوناتھن نیروزنامہ ہندو میں لکھا ہے کہ سیکولرازم دھیرے دھیرے مڈل کلاس کے لئے غصے کا سبب بن گیا ہےجس کی وجہ سے مودی ان کے جیسے لبرل افراد کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ میں تو خود کو شکست خوردہ محسوس نہیں کرتا۔ کسی کے زیادہ تعداد میں ہونے سے وہ صحیح نہیں ہوجاتا۔میں بھی ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا، لیکن میں اس حقیقت کو نہیں چھپاؤں گا کہ میں سیکولر ہوں،لبرل اور فخریہ طور پر ہندوستانی ہوں جو کسی سے بیر نہیں رکھتا۔ میرے خیال سے میری اجی اس بات کو ضرور گوارا کریں گی۔
8 جولائی، 2014 بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/religion-be-personal-affair-people/d/98188