ثمر فاتنی
07 فروری 2014
جب سے شاہ عبداللہ نے انتہاء پسندوں اور مسخ شدہ ‘‘جہادی’’ جنگجو نظریات کے خلاف ایک سخت رویہ اپنایا ہے جو کہ ہماری قومی سلامتی اور سماجی استحکام دونوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ شاہ عبداللہ نے تنبیہ کی ہے کہ جو کوئی بھی بیرونی تنازعات میں لڑے گا اسے اس ہفتے جاری کئے گئے ایک شاہی فرمان کے مطابق 3 سے 20 سالوں تک کے لیے جیل میں قید کیا جائے گا۔
اس شاہی فرمان میں یہ بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ ‘‘سعودی عرب کا کوئی بھی باشندہ جو دہشت گرد یا انتہاء پسند تنظیموں کی حمایت کرے گا یا انہیں اخلاقی یا مادی مدد فراہم کرے گا خواہ وہ ملک کے باہر ہو یا اندر اسے 5 سے 30 سالوں تک کے لیے جیل بھیجا جائے گا’’۔ امید کی جاتی ہے کہ اس شاہی فرمان سے ان لوگوں کو مزاحمتوں کا سامنا ہو گا جو شام یا کہیں اور دوسرے جگہوں پر مسلم نوجوانوں کو ‘‘جہادیوں’’ میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے برانگیختہ کر رہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ایک دہشت گرد مخالف قانون میں دہشت گردانہ جرائم کو ان سرگرمیوں کے مساوی قرار دیا گیا ہے جو ‘‘عوامی نظم و نسق میں فساد پیدا کرتا ہے، معاشرے کی سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے، یا قومی اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے، یا بنیادی نظام حکمرانی میں خلل پیدا کرتا ہے یا ریاست کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے’’۔
وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل منصور الترکی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اب تک 200 سے 300 شہری شام سے واپس آ چکے ہیں جنہیں ایک بازآبادکاری پراگرام میں شریک کیا جائے گاجس کا قیام جہادی نظریات سے لڑنے کے لیے کیا گیا ہے۔
دریں اثنا اعتدال پسند اسلامی علماء ان سعودی باشندوں کے خلاف مسلسل اپنی آوازیں بلند کر رہے ہیں جنہوں نے شام کی خانہ جنگی میں مشغول اسلامی جنگجوؤں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ تاہم وزارت داخلہ نے ایک بیان میں یہ ظاہر کیا ہے تقریباً 1200 سعودی شہری شام جا چکے ہیں اور ان میں سے بہت سارے لوگوں نے اس سفاکانہ اور ظالمانہ جنگ میں اپنی جانین گنواں دی ہیں۔
گزشتہ دہائی میں جب سے اس جنگجو جماعت نے سعودی میں 2003 سے 2006 کے درمیان دہشت گردانہ حملے کئے ہیں جن میں بے حساب معصوم لوگ مارے گئے ہیں تب سے سعودی عرب میں ایسے ہزاروں ملزمین کو جیل بھیجا جا چکا ہے جن پر القائدہ کے ساتھ کام کرنے کا الزام ہے۔
اس گمراہ کن نظریہ کے اثر و رسوخ سے مقابلہ کرنے کے لیے جو کہ آج مسلم ممالک کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں پورے ملک میں ملک گیر تحریکیں چلائی جا رہی ہیں۔ تاہم یہ عسکریت پسندی مسلسل ان بڑے خطرات میں سے ایک ہے جو اس ملک کو در پیش ہیں۔ ان خطرات کا سامنا کرنے کے لیے حکومت کو اور بھی زیادہ جراتمندانہ اور بڑے پیمانے پر ملک گیر تحریک چلانے کی ضرورت ہے تاکہ سعودی شہریوں کے درمیان اعتدال پسندی اور رواداری کو فروغ دیا جا سکے۔ زیادہ اہم کام انتہا پسندی کے خطرات کو اجاگر کرنا ہے۔ نوجوانوں کو معاشرے میں عسکریت پسندی اور عدم روادری کے محرکات سے محفوظ کرنے کے لیے عوام کو انتہائی محتاط رہنے اور اس مہم میں شامل رہنے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں تمام سعودی شہریوں کو اس خطرے کو ختم کرنے کے وزارت داخلہ کے مقصد کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ دوسری طرف اعتدال پسند مذہبی علماء کو اپنی تقریروں میں ان لوگوں کے خلاف اور بھی سخت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے جو اس عسکریت پسند نظریہ کی حمایت کرتےہیں۔
سماجی اداروں پر بھی اس خطرے سے نمٹنے اور ساتھ ساتھ انتہا پسند نظریات کی اشاعت کو روکنے کے لئے حکمت عملی پیش کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ محققین کو بھی اس موضوع پر گفتگو کرنی چاہیے کہ اس نظریہ کا سامنا کس طرح کیا جائے اور انہیں ایسے گمراہ کن نظریات کے خلاف بھی بیداری پیدا کرنی چاہیے جن سے خاص طور پر سعودی شہریوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اسلام میں جہاد کے تصور کی مسخ شدہ تشریح نے بہت سے نوجوانوں کو گمراہ کر دیا ہے جو دہشت گردی کا ارتکاب کرنے کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ہیں اور خود کے لیے اور معاشرے کے لئے بھی ایک خطرہ بن گئے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں نے اسلام کے نام پر اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو قانونی جواز فراہم کرتے ہوئے انہیں اپنی ٹولی میں شامل کرنے کے لیےاس تصور کا استعمال کیا ہے۔ واقعی افسوس ناک بات ہے کہ اس نظریہ کی حمایت کرنے والوں نے معصوم نوجوانوں کے ذہنوں کو گمراہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور اس کے بعد انہوں نے ایسے دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی ہے جو بڑے پیمانے پر مسلم ممالک کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
انتہا پسندی اور عسکریت پسند نظریات کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کی مہم کو اس خطرناک رجحان سے نمٹنے میں زیادہ مؤثر ہونے کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک کے اندر بڑے پیمانے پر پھیلی افراتفری اور عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے اس رجحان کو ختم کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ عسکریت پسندوں کے "جہادی" نظریہ پر عمل پیرا ہیں انہوں نے خود کو معاشروں سے علیحدہ کرلیا ہے اور انہیں ان کے ان مسلمان بھائیوں کے ساتھ مسلسل محاذ آرائی کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے جو انتہا پسندانہ نظریات اور اصولوں کو مسترد کرتے ہیں۔
ریاست اور تعلیمی اداروں دونوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے درمیان موجودہ خطرے سے عوام کو مطلع کریں اور تمام شہریوں کے لئے ایک پرامن اور اعتدال پسند ماحول کو فروغ دیں۔ اس عمل میں اساتذہ کا کردار احاطہ بیان سے باہر ہے۔ تعلیم نوجوانوں کو خود غرض ایجنڈے کے ساتھ ایسے تمام عناصر سے محفوظ کر سکتی ہےجو ان کی ہم آہنگی اور پرامن طرزندگی کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
دہشت گرد اور ان کے ہمدرد انتہائی مستعد اور فعال رہے ہیں جبکہ بہت سارے اماموں، والدین اور سرکاری ایجنسیاں ان خطرات کا اندازہ لگانے میں بھی ناکام ہیں جو ہمارے پرامن معاشرے کو درپیش ہیں۔
سماجی علوم کے ماہرین نوجوانوں کی بنیاد پرستی کے پیچھے بنیادی وجوہات کی شناخت کے لئے کافی تحقیقات کر چکے ہیں۔ کچھ مذہبی رہنماؤں اور اماموں کے منفی اثر و رسوخ، غیر معیاری تعلیم جس کی وجہ سے وہ اپنے اسباق تیار نہیں کر پاتے، ناخواندہ والدین کی غفلت اور بہت سے ایسے خاندانوں کی روایتی پرورش جو مباحثہ اور مکالمہ کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے یہ ایسے چند عوامل ہیں جن کی وجہ سے نوجوانوں کو مناسب رہنمائی نہیں مل پاتی۔
بیداری پیدا کرنے کےلیےایک انتہائی مؤثر مہم ایک اہم قدم ہے جس کی وجہ سے تمام لوگ اس بات کو تسلیم کر لیں گے کہ انتہا پسندی نے مخالفانہ ور معاندانہ رویوں کو جنم دیا ہے اور ایک ناخوش گوار ماحول پیدا کیا ہے۔ ہمیں ایک اعتدال پسند رویہ کی زیادہ سے زیادہ حمایت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوان زیادہ محتاط اور معاون شہری بن سکیں۔
ہمیں امید ہے کہ شاہ عبداللہ کے حالیہ شاہی فرمان سے ہمارے ان نوجوانوں کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی پیدا ہوگی جنہیں دہشت گرد تنظیمیں مسلسل گمراہ کر رہی ہیں اور ان کا استحصال کر رہی ہیں جس کی وجہ سے اب تک بے شمار زندگیاں تباہ ہو چکی ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ثمر فاتنی ایک ریڈیو ناشر اور رائیٹر ہیں۔
ماخذ: http://www.saudigazette.com.sa/index.cfm?method=home.regcon&contentid=20140208195035
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/eradicating-distorted-‘jihadi’-ideology/d/35646
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/eradicating-distorted-‘jihadi’-ideology-/d/66219