ثمر فاطنی
1 اگست 2015
آئندہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین کی شرکت کے تعلق سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں۔ اب بھی اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ انتخابات لڑنے والی خواتین کامیاب ہوں گی یا نہیں۔
بدقسمتی سے ایسی سماجی رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے بے شمار پریشانیاں درپیش ہیں۔ اب بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو فیصلہ سازی کے عہدوں میں خواتین کی شرکت کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اس غیر لچکدار اور غیز مصالحانہ رویہ نے ہمارے ملک کو پیچھے رکھا ہے اور اب بھی ترقی کے ہمارے راستوں کو مسدود کر رہا ہے۔ ہمیں قائدانہ عہدوں کے لیے خواتین کی حمایت پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم جتنی زیادہ خواتین کو بااقتدار عہدوں پر دیکھیں گے اتنے زیادہ لوگوں کو اس حقیقت کا اعتراف ہو گا کہ خواتین بھی قابل رہنما ہیں۔ تاہم، ایک مقامی دفتر کیلئے خواتین کو بھرتی کیا جانا اب بھی ہمارے خطے کے لئے ایک حقیقی چیلنج ہے۔
سعودی خواتین اپنی کمیونٹی کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایک مطالعہ میں یہ پایا گیا ہے کہ خواتین کمیونٹی کی سماجی ضروریات کی شناخت زیادہ کرتی ہیں اور وہ اجتماعی فلاح و بہبود کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہیں۔
حفظان صحت، تعلیم اور معیشت جیسے کچھ جدید مسائل ہیں جو تمام خواتین پر اثر انداز ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے میں انہیں حکومت کا تعاون کرنا چایئے۔
ایسا کرنے کے لئے ہمیں ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے ایک طویل عرصے سے خواتین کو پسماندہ کر رکھا ہے۔ ان غلط اور گمراہ کن اسلامی تشریحات کو ختم کر دیا جانا اور انہیں مٹا دیا جانا ضروری ہے، جن میں خواتین کو ناقص العقل ثابت کیا گیا ہے ان کے اخلاقیات پر انگشت نمائی کی گئی ہے۔
آج سعودی خواتین ان دوسری مسلمان خواتین کی صفوں میں شامل ہو چکی ہیں جو انتہائی ذہین اور سائنسدان، ڈاکٹر، بینک کار، ماہرین اقتصادیات، ماہرین تعمیرات، ماہرین تعلیم اور محققین مانی جاتی ہیں۔
ان کے اخلاقی رویہ اور عقل و خرد میں کوئی نقص نہیں ہے کہ جس کی بنا پر انہیں معاشرے میں عزت و احترام اور مقبولیت حاصل نہ ہو۔ ایسے بہت سے پیشہ ورانہ کام ہیں کہ اگر خواتین کو موقع فراہم کیا گیاتو وہ سیاسی عہدوں کے لیے ایک کامیاب امیدوار بن سکتی ہیں۔
در حقیقت ایسی بہت ساری خواتین ہیں جو ان مردوں کے مقابلے میں بہتر تعلیم یافتہ اور زیادہ قابل ہیں جو عہدوں پر تو قابض ہیں لیکن ان کے اندر پیشہ ورانہ مہارت کم ہے اور وہ کم تعلیم یافتہ بھی ہیں۔
یہی وقت ہے کہ ہم دوسروں کے تجربات کا مشاہدہ کریں اور ان چند حکمت عملی کو سکھیں جو خواتین کو قائدانہ عہدوں تک پہنچانے میں معاون ہیں اور جنہوں نے خواتین کو عوامی پر ایک بڑا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
اعلی درجے کے معاشروں میں ایسی بے شمار تنظیموں کی ایک طویل تاریخ ہے جنہوں نے خواتین کو فیصلہ سازی کے عہدوں تک پہنچانے میں عورتوں حمایت کی ہے۔
ایک رسمی پیشہ ورانہ سیاسی ایکشن کمیٹی قائم کرنا ممکنہ طور پر خواتین رہنماؤں کو تسلیم کرنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔
اس کا کام خواتین کی ان مختلف جماعتوں کو تلاش کرنا ہوگا جنہیں اس ملک میں اچھی طرح سے نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ یہ شہریوں کی آبادی اور جغرافیائی صورت حال کا مطالعہ کرے گی اور اس کے مطابق حکومتی عہدوں کے لئے اہلیت حاصل کرنے میں با صلاحیت خواتین رہنماؤں کو ضروری تربیت اور مدد فراہم کرے گی۔
ممکنہ خواتین رہنماؤں کی سیاسی قابلیت کو بڑھانے کے لئے کیمپین مینیجرز اور میڈیا ٹریننگ سروس کے ساتھ پیشہ ورانہ نیٹ ورکس کا قیام عوامی عہدے کے لئے نامزد ہونے کے لیے ان کی صلاحیتوں کو بڑھانے کا ایک اور طریقہ ہو سکتا ہے۔
انہیں اس بات کی تربیت کی جائے گی کہ کس طرح ایک مہم تیار کی جائے، کس طرح میڈیا کا سامنا کیا جائے اور کس طرح ایک پیغام کو ایک خاص شکل میں پیش کیا جائے۔ انہیں ان مسائل کی تعلیم دی جائے گی جو معاشرے کے لئے بڑی تشویش کا باعث ہیں۔
انہیں عوامی ضروریات کا سامنا کرنے میں پیش آنے والی مشکلات سے نمٹنے اور شریعت کے قوانین اور پالیسی کے معاملات کو سمجھنے کا فن سیکھایا جائے گا۔
ان کا مقصد ایسی باخبر اور فعال خواتین رہنماؤں کو پیدا کرنا ہو گا جو اس ملک کی معیشت کی تشکیل کرتے ہوئے سماجی اور سیاسی طور پر قوم کی خدمت کر سکیں۔
اس ملک کو مردوں اور خواتین سمیت اپنے تمام تعلیم یافتہ شہریوں کی اشد ضرورت ہے۔ خواتین جو کہ آبادی کا 50 فیصد ہیں اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل کا 57 فیصد ہیں، وہ بہترین سیاستدان بن سکتی ہیں اور وہ ہتھیاروں پر کنٹرول اور فوجی وکالت کی پالیسیوں پر شاندار مذاکرات کر کے بین الاقوامی سطح پر قوم کی خدمت کر سکتی ہیں۔
یا وہ ایسی قانون ساز بن سکتی ہیں جو حفظان تعلیم، خاندان،بن سکتی ہیں جو ماحول اور حکومتی اخراجات سے متعلق سماجی پالیسی کے معاملات پر ایک نیا نقطہ نظر پیش کر سکیں، جن سے گھریلو محاذ پر ایک بہت بڑا فرق پیدا ہو سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر باصلاحیت خواتین کو موقع اور مناسب تربیت دی جائے تو وہ پبلک پالیسی کی تشکیل میں اور اس ملک کے امن و استحکام کے لیے خطرہ پیدا کرنے والی انتہا پسندی اور فرقہ واریت سے لڑنے کے لئے ایک مزید اعتدال پسند ماحول فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
پالیسی سازوں کو قابل خواتین کی تلاش اور ان کی شناخت پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ خواتین کو فیصلہ سازی کے عہدوں تک پہنچانے کے لیے حمایت کا ایک نیٹ ورک وقت کا اہم تقاضا ہے۔
پالیسی سازی میں خواتین کی مکمل شرکت کو یقینی بنانے کے لیے کے لئے ٹھوس اقدامات کا اٹھایا جانا ضروری ہے؛ انہیں چیف ایگزیکٹوز، قانون ساز، وزراء اور سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے مواقع سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔
کب تک سعودی خواتین اپنے ملک کی ترقی میں پیچھے رہیں گی؟ اب انہیں انسانیت کی خدمت اور اپنے بچوں کے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لئے بے چین بین الاقوامی برادری کے مساوی ارکان کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔
ہماری قوم کا مستقبل ہماری زندگی کو منظم کرنے اور جدیدیت کو گلے لگانے کے ساتھ وابستہ ہے۔
ثمر طاطنی ایک ریڈیو براڈکاسٹر اور مصنفہ ہیں۔
ماخذ:
http://www.saudigazette.com.sa/index.cfm?method=home.regcon&contentid=20150801252026
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/samar-fatany/empowering-saudi-women-for-public-office/d/104117
URL for this article: http://newageislam.com/urdu-section/samar-fatany,-tr-new-age-islam/empowering-saudi-women-for-public-office--عوامی-عہدوں-کے-لئے-سعودی-خواتین-کو-بااختیار-بنانا-ضروری/d/104151