سمن حسین
1 جون ، 2013
یوں تو ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ صمد ہے۔ شاید ہی کوئی بد نصیب ہوگا جس نے سورۂ قل ہو اللہ نہ پڑھا ہو ۔ جس سورہ میں کہا گیا ہے اللہ الصمد اور صمد کے معنیٰ ‘‘ بے نیاز’’ کے ہیں اس لئے ظاہر ہے کہ ہم سب بندوں کو اس کی بارگاہ نیاز میں سر جھکانا ہے اور وہ بے نیاز اور ہم نیاز مند ! تو ہم کیسےاپنی نیاز کا اظہار کریں؟
اس نے سورہ دہر میں واضح لفظوں میں بتایا کہ وہ بندے اس کے نیاز مند ہیں جو اپنی نذروں کو پورا کرتے ہیں اور اللہ کی رضا کے لئے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور اس کا کوئی بدلہ نہیں چاہتے اور رب العالمین اس کوشش کوقابل شکریہ قرار دیتا ہے اس لئے نذ و نیاز اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ وہ باتیں ہیں جو ہم بچپن سےاپنے عالموں سے سنتے آئے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ ہم مسلمان اس پر عمل کرتے ہیں۔
یوں تو نذر ایک طرح سے اللہ سے وعدہ ہے اور وہ کبھی بھی پوری ہوسکتی ہے ۔ اور نیاز اظہار بندگی ہے جو کبھی بھی ہوسکتا ہے ۔ ہم مسلمانوں کے یہاں یہ تین مہینے جمادی الثانی، رجب المرجب اور شعبان المعظم میں نذر و نیاز کی بہار رہتی ہے ۔ جس کے سلسلے کی اہم تاریخیں گیارہویں شریف، خاتون جنت کے ولادت کےموقع پر دستر خوان ، مولاعلی کےجشن ولادت کے موقع پر 13 رجب کا جشن اور اس سلسلے میں نذر و نیاز پھر 22 رجب کو حضرت امام جعفر صادق کی نذر میں عام مسلمانوں میں بڑی دھوم دھام رہتی ہے۔ میں نے 22 رجب کو حیدر آباد میں ڈاکٹر ولی الدین کے یہاں نذر امام جعفر صادق کا یادگار اہتمام دیکھا تھا اور وہ اب بھی جوش و ولولہ کےساتھ ہوتا ہے ۔ پھر شعبان المعظم میں تیسری شعبان حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کی وجہ سے نذر ونیاز کا اہتمام و انتظام دیکھنے کو ملتا ہے ۔ نیمۂ شعبان میں کئی امور کی وجہ سے نذر ونیاز کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو قبرستان میں چراغاں سے لے کر دریا کے کنارے تک پھیلا رہتا ہے۔
نذر و نیاز کی یہ ساری تقریبات مذہبی رخ رکھتی ہیں او رہمارے علماء کے بیانات سن سن کر ہم لوگ خود اور اپنے بچوں کا ایمان تازہ کرتے ہیں۔ لیکن دور حاضر کےاعتبار سے بھی اس کی سماجی معنویت ہے۔ ایک بہترین سماج کی بنیاد باہمی روابطہ اچھے تعلقات او رپاک و پاکیزہ رشتوں پر ہوتی ہے اگرچہ نذر ونیاز کے سماجی پہلو پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن یہا ں صرف پانچ نکتے پیش کئے جاتے ہیں۔
1۔ اس طرح کی تقریبات سےشوکت اسلامی کا مظاہرہ ہوتا ہے اور دنیا کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مذہب کی بنیاد میں محبت، یگانگت ،یکجہتی او ر خلوص ہے۔ہم محبت والے لوگ ہیں دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہم کھیر کی شیرینی پسند کرتے ہیں بم کے دھماکے نہیں ۔
2۔ دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس طرح کی تقریبات میں آپسی بھائی چارہ میل و محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی کےساتھ ساتھ غیر معمولی چہل پہل گھروں کی آرائش اور سجاوٹ صاف ستھرا ماحول ایک صحت مند معاشرتی نظام کی تشکیل کرتا ہے۔
3۔ اس سلسلے میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ ہم خواتین کو طرح طرح کے پکوان کی تیاری کا نادر موقع ملتا ہے اور ذائقہ میں خوشگوار تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ ہماری مشق بھی بڑھتی رہتی ہے اور اس کا ایک معاشی پہلو بھی ہے اس لئے کہ سب کچھ تو نذر و نیاز میں استعمال ہوتا ہے اسے طیب و طاہر ہوناچاہیئے اور وہ مسلمان کے یہاں سے ہی آسکتا ہے چاہے وہ دودھ دہی ہو یا شیرینی ہو یا گھی ہو۔ اس طرح سے سماج میں معاشی فعالیت بڑھتی ہے او رمعاشی فروغ اور استحکام ہوتا ہے۔
4۔ایک بہت ہی نازک اور حساس سماجی پہلو مسلم و سوسائٹی کا ہے۔ ہمارے یہاں کا جو معاشرہ ہے اس میں قرابتیں بڑھانے کےلئے لڑکی کو دکھانے کا چلن نہیں ہے اور کسی حد تک یہ ٹھیک ہے اس لئے اگر لڑکی دکھائی گئی اور دیکھنے والوں نے پسند نہیں کی تو فطری طور پر لڑکی کی نفسیات مجروح ہوگی اور اس کے دل پہ چوٹ لگے گی کہ اسے رجکٹ (Reject ) کردیا گیا لیکن اس طرح کی نذر ونیاز کی محفلوں میں لڑکیاں جاتی ہیں انہیں خبر بھی نہیں ہوتی ۔ بزرگ عورتیں آپس میں بات کرلیتی ہیں اگر لڑکی پسند نہیں آئی تولڑکی پر کوئی اثر نہیں اور اگر پسند آگئی تو لڑکی کو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔حالانکہ لڑکی کو دکھانے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے مگر اب ایسے کیا کیا جائے کہ ہمارے ہندوستان کی مخصوص فضا اور روایات میں ابھی عورت کے اندر یوروپ کی بے حیائی بے غیرتی اور بے شرمی نہیں آئی ہے۔ آج بھی بہت پڑھی لکھی لڑکیاں بھی پابند حجاب ہیں ۔ نذر و نیاز کی تقریبات میں قرابت طے کرنے اور رشتہ لگانے کا بہترین موقع رہتا ہے ۔
اسلام اجتماعیت (Collectivism ) کو پسند کرتا ہے۔ زیادہ تر عبادات میں بہتر یہی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اکٹھا ہوں۔ پانچوں وقت کی نماز با جماعت ہوتی ہے ۔ جمعہ، عیدین وغیرہ با جماعت ہوتے ہی ہیں حج میں عظیم اجتماع ہوتا ہے لیکن خواتین کو اجتماعات میں شرکت کا موقع کم ملتا ہے ۔ نمازیں فرادہ پڑھی جاتی ہیں۔ جمعہ، عید بقرعید میں مستورات کے اجتماع کا کوئی سوال ہی نہیں ۔ لیکن اسلام عورت او رمرد کے درمیان مساوی مواقع فراہم کرنے کا قائل ہے چنانچہ نذر ونیاز کی تقریبات مہذب شریفانہ اور رنگا رنگ اجتماع کا مظہر ہے اس لئے کہ جہاں بھی نیاز ہوتی ہے وہاں مردو ں کو الگ اور خواتین کا الگ انتظام ہوتاہے ۔ وہ آزادانہ طور پر ایک دوسرے سےمل سکتی ہیں اور تمام مسائل پر تبادلہ خیال کرسکتی ہیں ۔ یہ وہ نادر موقع ہوتا ہے جو اسلامی سماجیات کے ذریعہ سے خواتین کو ملتا ہے ۔
نذر ونیاز کی تقریبات کا ایک شاندار نفسیاتی رخ ہے جو اسلامی سماجیات کومتاثر کرتا ہے اور وہ یہ نیاز کی جو بھی بنیاد ہو گھر کی صفائی برتوں کی طہارت وغیرہ پر توجہ دی جاتی ہی ہے خود صاحب خانہ کم از کم اتنے وقفہ کے لئے جب تک ان کے یہاں نذر چکھنے والوں کی آمد رہتی ہے ہر طرح کےگناہوں او ر برائیوں سےدور رہتے ہیں ۔ دور حاضر میں جولت نئی گندی فضا بنادی ہے ۔ اس کی بہترین کاٹ یہی نذر و نیاز کا سلسلہ ہے۔
نیاز دلانے کے لئے تمام مسلمان چاہے وہ کسی مسلک کے ہوں پہلے درود شریف پڑھتے ہیں ۔بذات خود درود کا پڑھنا ہی ہزاروں نجاستوں کو دور کرتا ہے ۔ اور ہر طرح کی شیطانی نجاست سے پاک کرتا ہے ۔ اس کے بعد سورہ حمد کی تلاوت ہوتی ہے اور پھر سورۂ توحید یعنی سورہ قل ہواللہ پڑھا جاتا ہے ان سورہ مبارکہ کی تلاوت ہی برکتوں ،رحمتوں اور پرور دگاروں رب العالمین کی نعمتوں کا خزانہ لے کر آتی ہے ۔ اس طرح پورا ماحول پوری فضا اور سارے مسلمان بھائی بہن ایک نہایت ہی پاکیزہ او رمحبت سے بھرے سماج کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے شروع میں ہی عرض کیا ہے کہ نذر و نیاز کا سماجیاتی پہلو محبتوں کی دنیا اور بھائی چارہ اور ایک اسلامی برادری کا درس و سبق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ نذر ونیاز کے مذہبی بنیاد پر مخالف ہیں۔ یہ فیصلہ تو علمائے کرام بہت پہلے کر بھی کرچکے ہیں اور سمجھاتے بھی رہے ہیں لیکن میں سماجیاتی رخ سے کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں نذر ونیاز میں پہلی چیز یہ ہے کہ کھانے کا سامان ہوتاہے اور وہی چیز ہوتی ہے جو شرعی طور پر حلال و مباح ہوتی ہیں۔ جہاں تک لوگوں کے اکٹھا ہونے کا سوال ہے اس کے بارےمیں لکھ چکی ہوں کہ اکٹھا ہونا ایشیاء مزاح اور اسلامی طور سےباجماعت نماز افطار نہ تراویح ہر جگہ اجتماع ہے ۔ درود شریف و ہ نعمت ہے جس میں پرور دگار فرشتوں کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ بندوں کو شریک کرتاہے۔ تلاوت کلام پاک پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو میں کیا کہہ سکتی ہوں سوائے اسکے کہ خدا ایسے لوگوں کو گمراہی سے بچائے اور راست پر لے آئے ۔
رہا شخصیات کو ثواب پہنچانے کا معاملہ! حالانکہ جن بزرگان دین اور جلیل القدر شخصیات کی نذر دلائی جاتی ہے ان کی خدمت میں ثواب کا ہدیہ پیش کرنے کےساتھ ان کے کار ناموں سے ہم با خبر اور آگاہ ہوتے ہیں۔ لیکن بالغرض کسی کو شخصیت کا نام لینے سے کسی وجہ سے بھی گریز ہے تو میں عرض کرتی ہوں کہ آپ کسی کا نام نہ لیں۔شوکت اسلامی اور اخوت اسلامی کی خاطر صرف اللہ کا نام لے کر اپنے بخل خست کنجوسی اور نفرت کی دیوار کو گرا دیجئے اور اسلامی اتحاد کی خاطر رائج مواقع پر یا جب آپ کا دل چاہے اللہ کانام لے کر نیاز کا انتظام کیجئے ۔ اس رب بے نیاز کے سامنے نیاز مند بننا سیکھئے اور یہ راز کی بات عرض کی جارہی ہے کہ آج اگر نیاز دلانے میں آپ کی وسعت رزق 100 روپئے کے برابر ہے تو انشا ء اللہ سال آئندہ کم از کم یہ 200 تو ضرور ہوجائے گی ۔
اب تو خدارا جبین نیاز جھکائیے
1 جون، 2013 بشکریہ : رو ز نامہ صحافت، لکھنؤ
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/a-bright-aspect-islamic-sociology/d/11957