New Age Islam
Mon Jan 20 2025, 09:49 PM

Urdu Section ( 19 March 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Those Who Do Not Attend Friday Prayers Should Be Killed: Deoband جو نماز جمعہ میں شرکت نہیں کرتے ہیں انہیں ہلاک کر دیا جانا چاہئے: دیوبند

ایمان کی بات

سلمان طارق قریشی

(انگریزی سے ترجمہ سمیع الرحمٰن، نیو ایس اسلام)

05 ستمبر، 2009 ء

جنرل ضیاء الحق نے ان دہشتناک اداروں کو فروغ دیا اور پستی کی جانب لے جانے والے تعلیمی نظام  کی تعمیر کیہے، جس نے ملک کے دانشورانہ ماحول کو آلودہ کیااور آج  کے کٹّر، علم دشمنی والی سیاسی تہزیب کو جنم دیا ہے۔

یہ وہ مہینہ ہے، جسے دنیا کے اس حصے میں ہم‘ رمضان شریف ' کے طور پرصدیوں سے جانتے ہیں، لیکن جسے اب درست کر کے ‘رمضان کریم ' کر دیا گیا ہے۔ میرے گھر کے قریب بڑی مسجد میں نماز کے وقت کے جمع ہونے والوں میں  کراچی کے سرمایہ دارا طبقے کے لوگ اور عام انسان شامل ہوتے ہیں اور یہ مجمع  معمول سے زیادہ بڑا ہوتا ہے۔

مسجد کے پیش امام صاحب کی گفتگو میں اکثر جنت میں حوروں کی فکر پر ہوتی تھی، اور جس کی تعریف  میں وہ بے خود ہوجاتے ہیں،  اور ان کے حسن و جمال کی مدح سرائی کرتے ہیں جو واضح طور پر جسمانی ہیں۔ان کے دیگر پسندیدہ موضوعات میں سوات اور وزیرستان میں بہادر  جنگ جو  ہیں جو برائی کی قوتوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں (قابل غور ہونا چاہئے، کہ وہ  ہمارے اسلامی جمہوریہ کے مسلح افواج کا حوالہ نہیں دے رہے ہیں)۔ بعض اوقات پہاڑوں میں ایک مخصوص "غازی" کی بات کرتے ہیں، جس پر وہ اللہ تعالی کی رحمت بھیجتے ہیں۔

عبادت کی اس مخصوص جگہ پر باقاعدہ جماعت میں شامل ہونے والے بعض اس خلاصہ تقریر کو حد سے زیادہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن جس مسجد کی بات کر رہے ہیں اسے ایک خاص اسلامی دوست ملک کی جانب سے تعمیر کرائی گئی ہے ( جو سابق آمروں کا شاہی خیر مقدم کر نےکے لئے جانا جاتا ہے) اور جس کا نظم  ان کے قونسلر  دفتر سے کیا جاتا ہے۔ اس کے امور میں مداخلت کسی کے پرے ہے۔ یا یہ محض ہمارے ٹیکس چوری کرنے اور رشوت خور اشرافیہ طبقے کے غیر فعال خاموشی کو یقینی بناتا ہے؟

تمام مہینوں میں سب سے مقدس ترین یہ مہینہ میرے دماغ میں میرے جاننے والے ایک بہت ہی متقی و پرہیز گار شخص کا خیال لاتا ہے۔ متقی ہونے سے بھی زیادہ، انہیں ان کے دوست ایمان سے متعلق معاملات میں اختیار والا انسان مانتے ہیں۔ وہ علم رکھتے ہیں اور ان کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ حضرت مولانا رشید گنگوہی کو بہت پسند کرتے ہیں جو کہ دیو بند مدرسہ کے بانیوں میں سے ایک ممتز عا لم تھے۔ جن حضرت کا میں حوالہ دے رہا ہوں  وہ ایک مشفق انسان ہیں جن پر دوسروں کی مدد کے لئے انحصار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، جب میں ان سے بات چیت کر رہا تھا تب میں نے مشاہدہ کیا کہ دوسروں کی طرف ان کی رحم دلی  میں تضاد پایا۔ انہوں نے رحم دلی کو  "متقی، باعمل مسلمانوں" کے لئے مخصوص کر رکھا تھا۔ دوسروں کے لئے، ان کے مطابق انہیں اپنےطریقوں کو ٹھیک کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے، جس کے بعدوہ "واجب القتل" ہوں گے۔

ایک اور شخص جس سے ملاقات کا مجھے موقع ملا  جو کہ سرمایہ دار تھا اس کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ لوگ جو نماز جمعہ میں شرکت  نہیں کرتے ہیں "انہیں ہلاک کر دیا جانا چاہئے۔ ان کا گلا کاٹ دینا چاہئے!

اب، اس قسم کی خونخوار زبانی وحشی پن اس روایتی  پرہیز گاری اور شریفانہ طور پر قبول کرنے سے با لکل مختلف ہے جس میں زیادہ تر مسلمانوں کی پر ورش ہوئی ہے۔  میں یہ مشورہ دینے کے کسی مہارت کا دعوی  نہیں کرتا ہوں جو یہ بتاتا ہو کہ یہ یا دیگر اسلامی نظریے کی صحیح شکل ہے۔ تاہم ، یقینی طور پر بہت سے علماء کرام ہیں جن کا ماننا ہے کہ  یہ جارحانہ لفظ ، جو مقبول ہے لیکن جسے'بنیاد پرستی' کہا جاتا ہے، نسبتاً  یہ حال ہی میں پیدا  ایک نظریاتی بدعت ہے۔  یہ لکیر کا فقیر ہونے اور مصنوعی منطقی سوچ کی پیداوار ہے جو ہمارے پر تشدد اور غیر روادار زمانے کی خاصیت ہے ایک زمانہ جو انیسویں صدی میں جدید سامراجیت کے مکمل طور پر سامنے آنے اور جس کے نقصان دہ ثقافتی اور نفسیاتی ردعمل کی وجہ سے  زندہ رہا۔

اس قسم کی دانشورانہ وراثت کے پس منظر  میں، پاکستان میں کس قسم کی سیاسی بحث ممکن ہے؟

جیسا کہ میں نے درج بالا میں بیان کیا کہ، نئی پاکستانی قوم کا پہلا سیاسی بیان نئی پارلیمنٹ کے پہلے سیشن سے قوم کے بانیوں کی طرف سے خطاب کرتے ہوئے آیا، اور یہ بیان قانون اور نظام کے بارے میں پالیسی اسٹیٹمنٹ، اور مذہبی نقطہ نظر کے کسی بھی قسم کے حوالے کے بغیر کالا بازاری، بد عنوانی اور اقربا پروری پر مبنی تھا۔ آخیر میں جس کا ذکر کیا گیا اسے قائد اعظم نے یہ کہتے ہوئے بر طرف کر دیا کہ "... ہندو فرقہ اور مسلم فرقہ کے یہ تمام زاویہ داری، مذہبی معنوں میں  نہیں لیکن سیاسی معنوں میں  ریاست کے شہریوں کے طور پر ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی یقین  ہے "۔

قائداعظم کی موت اور  ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ پلٹ اور قتل کے تین دہائیوں میں سیاسی بحث، دنیاوی مسائل جیسے زمین سے متعلق اصلاحات، اقتصادی ترقی، بالغوں کو ووٹ دینے کے حق، آئین کی حکمرانی، انسانی حقوق اور فیڈریشن میں شامل ہونے والی اکائیوں کے حقوق شامل تھے۔ چاہے ناظم الدین یا ایوب خان یا بھٹو اقتدار میں رہے ہوں، اور چاہے ان کی مخالفت سہراوردی یا مجیب یا ولی خان یابھاشانی نے کی ہو،  قومی مسائل کے حل کے لئے کوئی خاص  'اسلامی نسخہ ' تجویز نہیں کیا گیا۔ اہم سیاسی لوگوں میں سے سبھی نے جدید کاری کے متبادل راستے  بتائے اور  ہم عصری نظریات پیش کیا۔

ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی 'اسلامی فکر' سوائے ایک محدود اقلیت کے درمیان کے علاوہ پاکستان حقائق کا حصہ نہیں تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ کوئی دوسرے پر 'برا' مسلمان ہونے کا الزام نہیں لگاتا تھا، یا یہاں تک کہ  کسی کے واجب القتل ہونے کو بتانے کے بارے میں سوچتا نہیں تھا۔اسلامی فکر  ( جو  آج مسلمانوں کے زہنوں پر تسلط ہے) بحث کا مو ضوع نہیں تھا۔

لیکن 5 جولائی 1977 ء کو کچھ تبدیل ہو گیا تھا جب ہم نے پہلے دن غاصب جو میڈیا میں 'ایک اسلامی نظام' کی اپنی ترجیحات کے بارے میں بڑ بڑا رہا تھا۔ ان دہشتناک اداروں کو فروغ دیا اور پیچھے کی طرف لے جانے والے تعلیمی نظام  کو انہوں نے تعمیر کیا ہے جس نے ملک کے دانشورانہ ماحول کو آلودہ کیا ہے اور جس نے آج  کے کٹّر، علم دشمنی والی سیاسی تہزیب کو جنم دیا ہے اور  متشدد بغاوت، دہشت گردی اور بے رحمی سے اجتماعی قتل ،اس کے زہریلے نتائج ہیں۔

اب میں یہ تجویز نہیں پیش کر رہا ہوں کہ پیش امام صاحب جن کا میں نے ذکر کیا ہے یا ان کی جماعت میں شامل ہونے والے دولت مند کسی بھی طرح اس زمین پر جاری تشدد اور مسلسل تباہی کی ہولناک لہروں کے لئے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں۔ لیکن کیا اس میں فلسفیانہ تعلق،   ، ایک خاموش قبولیت نہیں ہے کہ اس طرح کے پر تشدد عمل اور ان عناصرکے ذریعہ پاکستانی ریاست کے خلاف چھیڑی گئی جنگ قابل مزمت لیکن کسی نہ کسی طریقے سے سمجھے جانے لائق ہے؟

اگرچہ کوئی موازنہ نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی کوئی مشورہ دیا گیا لیکن  مولوی صوفی محمد کی ملامت کو لال مسجد کے خطیب سے جوڑنا اور اس سے بھی آگے اس مسجد کے پیش امام سے جن کا ذکر میں نے اس مضمون میں کیا ہے ایک طرح کی فلسفیانہ بیان بازی ہے جو ناقابل یقین ہے؟ اس سے بھی زیادہ پریشان کن وہ خاموشی ہے جس کے ساتھ ان پیش امام کے خطبات کو ان کی جماعت کے مہزب  ارکان کی طرف سے استقبال کیا جاتا ہے۔  کیا ان کی / ہماری خاموشی بے حسی ہے یا رضامندی؟ یقینا یہ دہشت گردی کا ماحول کو بنانے کا ایک اہم حصہ ہے۔

 1977 میں جنرل ضیاء الحق کا اقتدار پر قبضہ کرنا ہماری تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس قبضے کو اس المناک زمین کی عدالتوں نے بھی 'درست' قرار دیا ۔ جو جج حضرات انہیں خوش کرنے کو تیار نہیں تھے (اور یہاں تک کہ کچھ جیسے چیف جسٹس انوار الحق  شہرت کے اصول سے مقبول، جو ان کے حق میں اپنے حلف سے بھٹک گئے) انہیں ایک عبوری آئینی حکم نامے کے ذریعے ہٹا دیا گیا تھا۔ شاہد جانا ہوا لگتا ہے؟ ان کی انتہائی خراب آئینی ترامیم اور انسانیت سوز قوانین جن کو فروغ دیا اسے ہاں میں ہاں ملانے والی پارلیمنٹ سے پاس کرا کے وجود میں لائے ... اور پھر خود کو مسترد کر دیا۔  انہوں نے دہشت گرد پیدا کرنے والے مدارس کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا اور مالی مدد فراہم کی۔  یہاں تک کہ 'عام' تعلیمی اداروں کے نصاب کو زہریلی نصابی کتابیں اور ہماری اس زمین کی تاریخ کو دوبارہ لکھ کر مسخ کر دیا گیا۔

آخر میں، میں دو نقات کی جانب اپنے قارئین کی توجہ مبزول کرانا چاہوں گا۔  پہلا یہ  کہ اس ناجائز قبضہ کرنے والے نے ایک مقبول، آئینی بااختیار وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے خلاف اور حال ہی میں نافذ آرٹیکل 6 کے تحت سب کچھ کیا ہے۔ برائے مہربانی اس پر غور کریں کہ اسے روکنے کی کوشش کرنے والے سبھی بے اثر ثابت ہوئے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آمروں میں سب سے زیادہ پستی کی جانب لے جانے والے نے گیارہ سال سے زیادہ تک حکمرانی کی اور اس کے اقتدار کو چیلنج صرف بھٹو خاندان اور اس ملک کی عورتوں نے کیا۔  ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہماری پوری زندگی پرحکمرانی کر سکتاتھا۔  اس کی موت لوگوں کے لئے ایک غیر متوقع  اور بے مشقت رہائی تھی۔

مصنف کراچی میں مقیم  مارکیٹنگ کنسلٹنٹ ہیں، ساتھ ہی وہ ایک شاعر بھی ہیں۔

ماخذ: ڈیلی ٹائمس، پاکستان

URL for English article: https://newageislam.com/islam-tolerance/those-attend-friday-prayers-‘should/d/1795

URL: https://newageislam.com/urdu-section/those-attend-friday-prayers-be/d/6878

Loading..

Loading..