سلمان حیدر
17 اکتوبر، 2014
2007 یا 2008 کی بات ہے کہ مجھے ایک تحقیقی مقالہ کے لیے کچھ انٹرویو کرنے اور لٹریچر کی تلاش میں ضلع جھنگ کے ایک مدرسے میں جانے کا اتفاق ہوا۔میرا ارادہ مختلف شناختوں کے درمیان باہمی تعلق پر تحقیق کرنے کا تھا اور میں نے مذہبی شناخت اور قومی شناخت کے باہمی تعلق کواپنے موضوع کے طور پر چنا تھا ۔ میں اس تعلق کو ( ایک مخصوص مذہبی )دیوبندی مکتب فکر کے دینی مدارس میں پڑھنے والے نوجوانوں میں دیکھنا چاہتا تھا ۔ کیونکہ براہ راست کسی مدرسے تو کیا کسی کالج میں بھی تحقیق کے لیے جانے کامطلب بہت شکریہ کے ساتھ ، یہ ممکن نہیں ہے،سننا ہوتا ہے کہ اس لیے میں نے اس مدرسے میں جانے کے لیے اسے دل کھول کر اور آنکھیں بند کر کے چندہ دینے والے ایک صنعت کار کی مدد حاصل کی ۔کہتےہیں کہ جس چیز کو روپے کا پہیہ لگ جائے اسے روکناآسان نہیں ہوتا اس لیے میں مدرسے تک پہنچ تو گیا لیکن وہاں پہنچنے کے چند دن بعد ہی صورتحال کچھ ایسی بنی کہ مجھے وہاں سے بصد عزت و احترام نکال دیا گیا ۔ تب تک مجھے خود بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ پی ایچ ڈی ڈگری لیتےہوئے تصویر کھینچوانے اور اسے فیس بک پر لگانے کے چکر میں یو ٹیوب پر اپنے ذبح ہونے کی ویڈیو اپ لوڈ کر والینا کوئی بہت منافع کا سودا نہیں ہے ۔ وہ تحقیق تو جیسا کہ آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی لیکن نکالے جانے سے پہلے جو چند دن میں وہاں گزارے ان میں میں نے ایک چیز ایسی دیکھی جو مجھے ملالہ کو لکھنے جانے والے عدنان رشید کے خط میں سر سید کے لیے فری میسزی کا تمغہ دیکھ کر یاد آگئی۔ اس مدرسے میں رہنے والے بچے مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ روایتی تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے ۔ ہمارے یہاں روایتی تعلیم سے مذہب اور مذہبی تعلیم سے روایت کو الگ کرنے کی کوشش کی جائے تو وہی کچھ بچتا ہے جو ان دونوں کو ملاکر امیر المومنین بننے والے کا جہاز حادثے کے بعد بچا تھا ۔
امیر المومنین نے مذہب کو تو روایتی تعلیم میں رچا بسا دیا لیکن وقت نے اتنی مہلت نہیں دی کہ وہ شریعت کی چھلنی لے کر روایتی تعلیم سے سائنس انگریزی اور حساب جیسی لارڈ میکالے کی سازشوں کو چھان دیتے ۔ مجبوی کا نام صبر، مدرسے کے بچوں کو انگریزی سائنس اور حساب جیسے کافرانہ مضامین پڑھانے کو علیحدہ سے جزوقتی استادوں کا انتظام کیا گیا تھا ۔ عربی، اسلامیات تو ان بچوں نے آگے چل کر لوگوں کو پڑھائی تھی اس لیے انہیں پڑھانے کی جرأت کون کرسکتا تھا ۔ رہی اردو تو جو مولوی صاحب انہیں ‘پندنامہ’ اور ‘گلستان وبوستان ’ جیسی دقیق کتابیں پڑھایا کرتے تھے ان کے سامنے رب کا شکر ادا کر بھائی جیسی نظمیں کیا معنی رکھتی ہیں ۔ اس روایتی تعلیم کےدوران وہ بچے پانچویں ، آٹھویں اور میٹرک کے امتحان میں آزاد امیدوار کے طو رپر حصہ لیا کرتے تھے اور عام طور پرپاس ہوجایا کرتے تھے ۔ بچوں کے کھانے پینے رہنے سہنے سے لے کر پڑھنے لکھنے تک مکمل ذمہ داری مدرسے کی انتظامیہ نے ا ٹھا رکھی تھی ۔ باقی انتظام کے ساتھ ساتھ وہاں ایک بک بینک بھی تھا جہاں سے بچوں کو سال کے سال کتابیں ایشو کر دی جاتی تھیں اور وہ امتحان دے کر انہیں واپس جمع کروا دیتے تھے ۔ اسی بک بینک میں اردو کی کتابیں بھی تھیں او رہر کلاس کی اردو کی کتاب میں ایک دو روایتی سے سبق ‘ سبق پاکستان’ اور ‘ اہم قومی رہنماؤں ’ کے کارناموں کے بارے میں بھی تھے ۔ اہم بات ان کتابوں میں یہ تھی کہ پاکستان سے متعلق اسباق کے بیچ جہاں جہاں ‘ سرسید احمد خاں’ کا نام تھا وہاں وہاں اسے پین یا پنسل سے کاٹ کے اس کی جگہ کسی جانور کا نام یا کوئی ایسا لفظ لکھا ہوا تھا جس سے مدرسے کے استاد عام طور پر بچوں کو پکارتے تھے ۔ ایک آدھ گالی تو ایسی بھی پڑھنے کو ملی جس سے مجھے یقین ہوگیا کہ فصاحت اور بلاغت کا جو معیار گلستان اور بوستان پڑھاکے قائم کیا جاسکتا ہے ا س کےبارے میں ‘ چنو منو دو چوزے تھے’ پڑھنے والے سوچ بھی نہیں سکتے ۔ کتابوں کے جائزے تک تو کام ٹھیک چل رہا تھا لیکن جب نوبت انٹر ویو اور سوال پوچھنے تک آئی تو مدرسہ انتظامیہ نے چند ہی سوالوں کے بعد مجھے کھانا کھلا کر ( اسی دوران میری گاڑی اور سامان کی تلاشی لے کر) عزت اور احترام کے ساتھ وہاں سے نکال دیا ۔
جن چند سوالوں کے بعد مجھے کھانے کی دعوت دی گئی ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ سر سید پہ اس خصوصی عنایت کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اگر ایک آدھ کتاب پہ یہ صورت ہوتی تو میں اسے کسی شیطان بچے کی کارستانی سمجھ کے ٹال دیتا لیکن وہاں تو تقریباً ہر کتاب پہ سرسید کو دیئے گئے تمام غیر سرکاری خطاب بہت خوش خط لکھے گئے تھے ۔ مولانا سیف اللہ خالد نے ، جو اس مدرسے کےمنتظم او رنکالے جانے سے پہلے میرے کیس کے تفتیشی افسر تھے، مجھے سر سید سے اس خصوصی عقیدت کی کوئی خاص وجہ نہیں بتائی لیکن جو انداز ہ میں لگا سکا ہوں اس کے مطابق سر سید سے اس محبت کی دو وجوہات ہوسکتی ہوں۔
ایک تو یہ کہ اہل مدرسہ نے جو بہادر شاہ ظفر میں عالمگیر ثانی ڈھونڈ رہے تھے جب رنگون سے پلٹ کر دیکھا تو انہی میں سے ایک سید احمد خاں سفید جھنڈا لہرا کہ قلعہ کی چابی کمپنی بہادر کو تھما چکے تھے ۔
جو لوگ سر سید کی ‘ اسباب بغاوت ہند’ سے پہلے کے تصانیف سے واقف ہیں ورنہ صرف یہ جانتے ہیں کہ سر سید کی کایا پلٹ لندن جانے سے پہلے ہوچکی تھی بلکہ یہ بھی کہ اس ذہنی انقلاب سے پہلے سر سید اسی مکتب فکر تعلق رکھتے تھے جس نے کوئی ڈیڑھ سو سال بعد مولانا سیف اللہ خالد فاتح ربوہ ٹائپ کے لوگ کو جنم دیا ۔ سر سید کا دوسرا، اور سفید جھنڈا لہرانے سے بھی بڑا جرم اس نظام تعلیم کو متعارف کروانا تھا جس نے گلستان او ربوستان کے حافظوں کے سر سے دستارِ فضیلت اتار کے اسے پی ایچ ڈی کے ہڈ میں بدل دیا ۔ ظلم تو یہ کہ اس نظام تعلیم نے صرف دستار فضیلت ہی نہیں اتاری جبّے کی جیب بھی کاٹ لی جبّے کی جیب نے تو چلو سو سال بعد ہی سہی لیکن چند ے کے اس ڈبے کی شکل اختیار کرلی جس کے اوپر پہلے ڈالر اور اب سعودی ریال کے سائز کا سوراخ ہوتاہے لیکن دستارِ فضیلت بہت کوشش کے باجود لارڈ میکالے نے کوئی ایسی پینٹ بنا کے نہیں دی جو پی ایچ ڈی کے ہڈ کےساتھ بھی چل سکے اور جسے پہن کر مولانا سیف اللہ خالد ربوہ بھی فتح کرلیں ۔ دوسرا یہ کہ بڑے بھائی کی قمیض اور چھوٹے بھائی کی شلوار کے ساتھ پی ایچ ڈی کا ہڈ پہن کے کھنچوائی جانے والی تصویر نہ فیس بک پر لگانے کے قابل ہوتی ہے نا ہی جلسے کے پوسٹر پر چھپوانے جیسی ۔
اب آپ خود بتائیں ، اس حالات میں مولانا ‘ سر سید’ کو فری میسن نہ کہیں تو کیا رحمۃ اللہ لکھیں!
17 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ خبریں ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/sir-syed-ahmad-freemason-/d/99607