By Salman Abdus Samad
“The general opinion is that politics is synonymous with corruption, bribery, deceit, cheating, backbiting, backstabbing etc. The reason behind this perception is widespread corruption among our politicians. We can hardly find a politician with a clean image. However, it should not imply that politics in principle leads to corruption or moral degradation....”
“....... It would be appropriate to state here that today Islam is presented in a way that gives the impression that Islam is merely a sum of some prayers; Islam has no broadness, it is indigent. Islam indeed has golden rules for prayers and meditations but does not have any guiding principle on social affairs and day-to-day issues. It has sufficient principles and instructions for namaz, fasting, zakat, hajj etc. but does not provide sufficient guidelines into other affairs and issues concerning day to day life. It is obvious that ulema alone can interpret and explain Islam to the people. So if they confine Islam to the matters of prayers and ignore broader issues of social importance, it will only lead to misunderstandings about Islam.”
Source: Hamara Samaj, New Delhi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/establishment-political-parties-islamic-point/d/2812
سلمان عبد الصمد
آج کل عام طور سے سیاست کا لفظ سنتے ہی افق ذہن پر یہ باتیں ابھرنے لگتی ہیں کہ دراصل سیاست بد عنوانی ،رشوت خوری، مکاری و عیاری ،دھوکہ بازی وعیب جوئی اور چغل خوری سے عبارت ہے۔ سیاست کے متعلق ایسے برے تصور کی وجہ اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ آج اکا دکا اور خال خال سیاستداں ہی بمشکل تمام اپنے سیاسی دامن کو داغ دھبے سے بچا پاتے ہیں ، ورنہ تو بیشتر اس حمام میں ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس کا سیدھا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ بالذات ‘‘سیاست’’ بدعنوانی اور فریب دہی سے ہی عبارت ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ فی نفسہٖ سیاست صاف وشفاف ہے ،تاہم سیاستدانوں کی غلط پالیسیوں اور پھوہڑپن سے وہ بدنام ہے۔ سیاست کی شفایت یوں سمجھئے کہ چھری کاٹنے کا ایک آلہ ہے، مختلف اوقات میں مختلف چیزیں اس سے کاٹی جاتی ہیں، پھل فروٹ اور دیگر اشیا اس سے کاٹیں تو بچھا ہے ،اس کا استعمال یہاں سو فیصد صحیح ہے،مگر اسی سے کسی پر حملہ آور ہونا ، ناحق خون بہانا ،اس کی نوک پر رہزنی کرنا سراسر غلط بلکہ حرام ہے۔ اس سے یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ چھری فی نفسہٖ کوئی غلط آلہ نہیں ،بلکہ اس کا غلط استعمال غلط ہے اور صحیح جگہ درست ۔ بالکلیہ اسی اصول پر سیاست بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ارباب علم بالخصو ص علما اگر سیاسی گلیاروں میں طبع آزمائی کرتے ہیں تو بیشمار افراد ان کی زور آزمائی پر انگشت نمائی کرتے ہیں، ان پر تنقید کی بوچھار کرتے ہیں۔ ایسا معلوم پڑتا ہے گویا ملک وملت کی فلاح وبہبود کے لئے ان کا سیاسی میدان میں طالع آزمائی کرنا کوئی جرم عظیم ہے۔ ان کے اقدام کو کسی اور تناظر میں دیکھتے ہوئے نہایت مست کہا جاتا ہے اور تو اور بہت سے بھولے بھالے مسلمان یہ کہتے شرم وعار محسوس نہیں کرتے ہیں کہ اسلام کا سیاست سے قطعی کوئی علاقہ نہیں ، بھلا علما سیاسی میدان میں کیسے قدم جما پائیں گے ؟میدان مارنے کی لیاقت وصلاحیت ایسے افراد میں ہوتی ہے جو میدان کے تئیں قواعد وکلید سے واقف ہوں، علما صرف مساجد ومدارس کیلئے ہی موزوں ہیں، بقیہ مختلف میدانوں میں وہ کوڑے ہیں ۔ حالانکہ یہ باتیں انتہائی سطحی ،غیر مناسب اور کج فہمی پر مبنی ہیں کہ اسلام کا سیاست سے قطعی کوئی واسطہ نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن واحادیث میں سیاست کے متعلق بے شمار اصول وقواعد موجود ہیں کہ کسی طرح سیاست کی جائے گی؟ کیسی سیاست معاشرہ کے لئے سود مند ہے اور کیسی مضرت رساں ؟ سیاست کے اہل کیسے افراد ہوسکتے ہیں؟ سیاست میں کن کن پہلوؤں کو ترجیحات حاصل ہوں؟
اس بات کو بھی سپرد وقلم وقرطاس کرنا مناسب معلوم پڑتا ہے کہ اسلام کی ترجمانی آج اس پیرایہ میں کی جاتی ہے، جس سے معلوم پڑتا ہے کہ فی الحقیقت اسلام چند عبادات کے مجموعوں کا نام ہے۔ اسلام میں وسعت نہیں ، اسلام تنگدست ہے، اسلام تو بہت سے بہت عبادت وریاضت کے تئیں زریں اصول رکھتا ہے تا ہم معاملات ومعاشرت کا کوئی اہم درس نہیں ۔نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج وغیرہ کے احکام واصول بدرجۂ اتم اس میں موجود ہیں مگر شعبہ جات زندگانی کےلئے قابل قدر اصول فراہم نہیں کرتا ۔ ظاہر بات ہے کہ علما اسلام ہی مالہ وما علیہ اسلام کی ترجمانی کرسکتے ہیں ، جب یہی طبقہ اسلامیات کو زمان ومکان کے حصار میں محدود کردیں گے ، چند عبادات کو اپنے بیانات کے لئے موضوع سخن بنائیں گے، معاملات و معاشرت سے قطع نظر کریں گے تو اسلام سے غیر آشنا کے لئے اسلام کے تئیں غلط تصورات قائم کرنا چنداں تعجب خیز نہیں ۔ آقا ، مدنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین ،جس طرح عبادات کی بجا آوری میں ہمہ تن منہمک تھے، اسی طرح معاملات ومعاشرت کے تئیں فعال ومتحرک ،بلکہ بسا اوقات عبادات پر معاملات غالب رہتے تھے۔ چنانچہ ہمیں بھی معاملات کی طرف توجہ کرنے چاہئے ۔
پارٹی کا قیام عمل:
قران کریم میں ہے۔ ترجمہ: اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لئے مہیا رکھو ، تاکہ اس کے ذریعہ اللہ اور اپنے دشمنوں کو اور اس دوسرے اعداد کو خود زدہ کردہ ، جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے ،اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹا جائے گا او رتمہارے ساتھ ظلم نہ ہوگا’’۔(الا نفال :59، 60) سیات کے تعلق سے ان آیات کو سمجھنے کے لئے ذیل کی چند اصولی باتوں کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے ، ورنہ ایسا معلوم پڑے گا کہ ان سے قطعی سیاست کا کوئی تعلق نہیں ۔
بنیادی اصول :
(1)قرآن مجید کا سمجھنا بالکلیہ شان نزول پر موقوف ہے اور نہ ہی عمل کے لئے اسی پر اس کا انحصار ۔ یہ واضح ہوکہ اس کی اہمیت وافادیت کی یکسر نکیر مقصود نہیں ،بلکہ اوقات افہمام وتفہیم کے لئے نزول کے پس منظر کی وضاحت ناگزیر ہوتی ہے، نزول کے بغیر باتیں واضح نہیں ہوپاتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت مسلم ہے کہ شان نزول پر تکیہ کرلینے سے آیات سے مسائل اس وقت کے لئے مستنبط کرنے میں انتہائی دشواری پیش آتی ہے جب کہ تدبر وتفکر کررہے ہوں۔ قرآن ایک آفاقی ،لافانی اور لاثانی کتا بلکہ ضابطہ حیا ت ہے، جس سے ہمہ زمانہ مسائل مستنبط کئے جائیں گے اور ہر وقت رہنما اصول ہمیں فراہم کرتا رہے گا۔
(2) جہاد اور سیاست کے اغراض ومقاصد میں یک گونہ ہم آہنگی ہے۔ بنیادی مقاصد جہاد میں نمایاں طور پر یہ کارفرہوتے ہیں، ‘ظلم وتعدی کا خاتمہ ،حفاظت امن، مظلوموں کی حمایت ونصرت ، دشمنوں کا استیصال ، ۔ اب ذرا سیاسی پارٹیوں کے منشور یعنی اغراض ومقاصد کو مد نظر رکھیں کہ وہ کیا کیا ہوتے ہیں؟ غور وفکر کے بغیر ہی یہ حقیقت واشگاف ہوگی کہ ان کے منشور میں مذکورہ باتیں نمایاں ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان اغراض ومقاصد کے پیش نظر جہاد اور سیاست میں یک گونہ یگانگت ہے۔
(3) قرآن دلیل کے اعتبار سے نص قطعی ہے، اسلام کا ماخذ منبع وسرچشمہ ہے۔ نص کی چار قسمیں ہیں۔ 1، عبارۃ النص ۔2، اشارۃ النص ۔3، دلالۃ النص ۔4، اقتصا النص ۔ یہ واضح ہو کہ یہ چاروں نص قطعی ہیں نہ کہ ظنی الثبوت ۔ اس کے بعد اس کی وضاحت بھی قطعی ضروری ہے کہ یہاں صرف عبارۃ النص اور دلالۃ النص ہی موضوع بحث ہیں ۔ چنانچہ یہی دونوں مع تعریفات و مثال پیش کئے جائیں گے۔
عبارۃ النص : ‘‘ فہر ما سیق الکلام لا جلہ ’’ کسی غرض ومقصد کے لئے بالقصد کلام کیا جائے۔
مثال : ‘‘ ثم اتمو الصیام الی اللیل ’’ (البقرہ) روز ہ رات تک پورا کرو ۔قرآن کی آیت کے اس ٹکڑے سے یہ بات بالکل دودوچار کی طرح عیاں ہے کہ صبح سے شام کل وشرب اور جماع سے اجتناب واحتراز کا نام روزہ ہے اور یہاں کلام اسی واسطے لایا گیا کہ صبح سے شام تک روزہ رکھنا شروع ہے۔
دلالۃ النص :‘‘ فہی ما علم اللحکم المنصوص علیہ لفۃ ولا اجتہا داو لا استنبا طاً ’’ بلاکسی اجتہاد و استنباط کے بر بنائے لغت جو ‘علت’ معلوم ہوجائے وہ دلالۃ النص ہے۔
مثال :‘‘ فلا نقل لھا اف ولا تنھر ھما ’’ ان (والدین) او اف تک کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو ۔ اس آیت میں والدین سے غایت درجہ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے کہ اور تو اور انہیں ‘‘اف’’ تک نہ کہو ۔لفظ ‘‘اف’’ پر یہ سوال معرض وجود میں آتا ہے کہ اس آب وگل کے چمن کے کسی علاقہ میں ‘‘اف’’ کہنا دلجوئی اور اچھے کلام سے عبارت ہوتو کیا وہاں بھی والدین کو یہ کہنا ممنوع ہوگا؟ اسے بس یوں سمجھئے کہ ‘‘اف ’’کہنے کی ممانعت فی الحقیقت ولآزادی کی وجہ سے ہے۔ لب لباب ایٹکہ بحث لفظ ‘‘اف’’ سے نہیں بلکہ اس میں جو علت ‘‘دلآزاری ’’ ہے اس کے باعث ممنوع ہے۔
آیت کی تشریح جنگ وجہاد کے تناظر میں:
یہ آیات دراصل بموقعہ غز وہ بدر نازل ہوئیں، غز وہ بدر گویا کفار کے لئے عذاب الہی تھا، بہت سے مشرکین شریک جنگ ہوئے اور چند پیچھے رہ گئے یعنی جنگ میں شریک نہ ہوئے۔ شریک جنگ نہ ہونے والے تو درکنا ربلکہ جو آئے تھے ان میں سے بہت اپنی حالت دگرگوں اور پتلی ہوتی دیکھ کر بھاگ نکلے اور اس وہم وگمان میں مبتلا تھے کہ اللہ انہیں عذاب چکھانے سے عاجز وقاصر ہے۔ ( نعوذ باللہ ) چنانچہ اللہ نے فرمایا ولا یحسن الذین کفرو اسبقوالا یعجزون کہ بھاگنے والے اور پیچھے رہنے والے خام وخیالی میں مبتلا نہ رہیں ۔پھر اللہ نے مذکورہ آیات میں جنگی ہتھیار کی تیاری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ‘‘ واعدو الھم ما استطعتم ’’ یعنی بقدر استطاعت جنگ کے ساز وسامان اس طرح مہیا کرو کہ غیر اقوام تم سے خائف رہیں۔ وہ اللہ کے دشمن او رتمہارے دشمن جنہیں تم نہیں جانتے سوائے اللہ کے سب خائف رہیں۔ تاکہ وہ تمہیں اقلیت وکمزور تصور کر کے کچلنے کی کوشش نہ کرے بلکہ ان کے دلوں میں ایسی دھاک بیٹھ جائے کہ تم سے اعلانیہ دشمنی تو کجا، تمہارے تئیں اس طرح تدبیر یں بھی کرتے ہوئے وہ خوف زدہ رہیں‘‘ ترھبون بہہٖ عدو اللہ وعدو کم’’ ۔ (جاری)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/establishment-political-parties-islamic-point/d/2812