سلیم شیرازی
15 ستمبر، 2009
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہند کی جانب سے ممبئی کے دہشت گرد حملوں کے سرغنہ اور جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے خلاف پاکستان کو مزید پختہ ثبوت اور شواہد بھیجے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی سرکارکو موصول ہونے پر ان ثبوتوں کی جانچ اور تجزیہ کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ اختیار کرسکے گی۔قریشی صاحب نے مزید کہا کہ یہ دراصل عدالت کا معاملہ ہے اور عدالت پختہ ثبو توں کی موجودگی میں ہی اس معاملے پرسماعت کر کے کسی معقول کارروائی کا حکم صادر کرسکے گی۔ دوسری طرف پاکستان کی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے شمالی علاقے گلگت میں چار ہزار پانچ سومیگاواٹ یومیہ بجلی پیدا کرنے والے ڈائما ر بھاشہ برقی منصوبے کو ہندوستان کی شدید مخالفت کے باوجود منظوری دے دی ہے۔
پاکستان کی یہ تمام امن دشمن باتیں ہمارے اس انداز ے کو تقویت دینے کے لئے کافی ہیں کہ پاکستان ،ہندوستان کے ساتھ خوشگوار دوستانہ مراسم کے قیام کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ایک طرف تو پاکستان کی سرکار کے اس اصرار کے باوجود کہ پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروہ کو ہند کے خلاف دہشت گرد حملوں کی اجازت نہیں دے گا ،پاکستان میں قائم دہشت گرد تنظیمیں ہند۔ دشمن دہشت گرد حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لائن آف کنٹرول سے پاکستانی دراندازی کی کوششوں میں ایک بار پھر تیزی پیدا کردی گئی ہے اور دوسری طرف ہندوستان کی شدید مخالفت کے باوجود گلگت میں طاقتور بجلی گھر بنانے کے منصو بے کو منظوری دے کر ہند۔ پاک تعلقات کی استواری کو سبو تاژ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور ان تمام امن دشمن رویوں کے باوجود پاکستانی حکام کا اصرار ہے کہ پاکستان کو اپنے پڑوسی ملکوں بالخصوص ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے ۔قول وعمل کا یہ تضاد کم ازکم ہم جیسے کم فہم لوگوں کو سمجھ سے تو بالا تر نظر آتا ہے۔ درست کہ پاکستان کو اپنے علاقوں میں کسی بھی مقام پر کوئی بھی شعبہ قائم کرنے کی آزادی حاصل ہے لیکن کیا پاکستان کے بظاہر سادہ مزاج حکام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ گلگت مقبوضہ کشمیر کا علاقہ ہے اور وہاں اس وقت تک کوئی بڑی اور مستقل تنصیب کا قائم کیا جانا کوئی معقول اقدام نہیں ہوگا، جب تک مسئلہ کشمیر حل نہ کرلیا جائے اور یہ بات طے نہ پایا جائے کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا علاقہ ہے یا ہندوستان کا وہ اٹوٹ حصہ ہے،جس پر پاکستان نے غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے۔
دراصل ڈائما ر بھاشہ بجلی گھر بنانے کی منظوری ہندوستان کو چڑھانے اور اشتعال دلانے کی ایک ناقص کوشش ہی محسوس ہوتی ہے ،کیونکہ پاکستان نے یہ بجلی گھر چینی انجینئر وں کے اشتراک سے تعمیر کئے جانے کی منظوری دی ہے۔ ظاہر ہے کہ برصغیر ہند میں چین ہی ایک ایسا ملک ہے جسے ہند کے ایک طاقتور حریف کی حیثیت حاصل ہے۔اس لئے چین کے اشتراک سے اس بجلی گھر کی تعمیر کو ہند کی ناراضگی مول لینے کی کوشش کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے ۔ تاہم اگر پاکستان کی جانب سے اپنی طاقت ک دم پر یہ بجلی گھر تعمیر کرنے کی کوشش کی جاتی تو بھی کسی نہ کسی حد تک یہ بات قابل فہم تصور کی جاسکتی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے قیام سے اب تک 60۔62برسوں کی مدت میں ایک سوئی تک بنانے کی اہلیت حاصل نہیں کرسکا تو دریائے سندھ پر ڈائما ر –بھاشا باندھ تعمیر کرنے کی سکت کہا ں سے پیدا کرسکے گا۔ ظاہر ہے کہ اسے اس کے لئے کہ کسی نہ کسی بیرونی امداد کی ضرورت ہے او ریہ بیرونی امداد کہاں سے آئے گی، شورش زدہ افغانستان سے تو اس سلسلے میں کسی قسم کی امداد کی امید ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ تو خود شدید داخلی انتشار سے دوچار ہے ۔طالبان دہشت گردوں نے صدر حامد کرزئی کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ دوسرے یہ کہ جنگ سے بد حال افغانستان خود اپنی تعمیر نو کے منصوبوں پرعمل درآمد کے لئے ہندوستان کا دست نگر ہے ۔ اس لئے وہ تو اس معاملے میں پاکستان کی کوئی معاونت کرنے کی حیثیت میں نہیں ہے۔ اب رہا بنگلہ دیش تو وہ خود افلاس اور غریبی کی دلدل میں گلے گلے تک دھنسا ہوا ہے اس لیے اسے پہلے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی نہ کہ پاکستان کی مدد کرنے کی ۔ دوسری طرف ہندوستان سے کسی قسم کی امداد ومعاونت پاکستان کے لئے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے وہ ہند سے تو اس معاملے میں کسی قسم کی معاونت کی درخواست نہ تو کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے اس سلسلے میں ہندوستان سے کسی قسم کی حمایت ومعاونت کی امید کرنی چاہئے کہ ہندتو سرے سے اس باندھ اور بجلی گھر کی تعمیر کا اس لئے مخالف رہا ہے کہ یہ باند ھ او ربجلی گھر مقبوضہ کشمیر کے علاقے گلگت میں تعمیر کئے جارہے ہیں، جو اپنے آپ میں اس لئے انتہائی غیر معقول اقدام کی حیثیت رکھتا ہے کہ اب تک ا سکی ملکیت کا فیصلہ محض پاکستان کے ہٹ دھرمی رویے کی وجہ سے نہیں ہوپایا ہے۔ اب آخر میں چین ہی ایک ملک ہے جو ہند پر دباؤ بنانے کی غرض سے اس باندھ او ربجلی گھر کی تعمیر میں پاکستان کی مدد کرے گا۔
اس معاملے میں چین اور پاکستان کی مشترکہ حکمت عملی ،ہندوستان پر دباؤ بنانے کے مقصد سے وضع کی گئی ہے لیکن پاکستان اس سے دوہرا بلکہ تہرا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے۔ یعنی ایک طرف تو اس کارروائی سے ہندوستان پر دباؤ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری جانب بدحال معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کررہا ہے جو کسی نہ کسی حد تک معقول قدم کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن اس معاملے کا تیسرا اور اہم ترین گلگت میں چین کی مدد سے یہ زبردست باندھ اور بجلی گھر تعمیر کر کے مقبوضہ کشمیر پر اپنی ملکیت کے دعوے کو مضبوط کرنا ہے۔ ورنہ دریائے سندھ پر باندھ اور بجلی گھر تو کہیں بھی تعمیر کیا جاسکتا ہے ۔ اس کےلئے گلگت ہی کی تخصیص کیوں کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس حکمت عملی کے پس پشت کارفرما مقصد مقبوضہ کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کے دعوے کو مضبوط کرنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔ ہندوستان کے ساتھ مخاصمت مول لینے کا ایک محاذ تو چین کی مدد سے گلگت میں ڈائما ر –بھاشا باندھ اور بجلی گھر کی تعمیر کا منصوبہ ہے اور دوسرا محاذ ہے دہشت گرد حملوں کے ذریعہ ہند پر دباؤ ڈالنے اور اسے اشتعال میں مبتلا کرنے کا اور یہ کوشش مسلسل جاری ہے۔
ان حالات میں وزیر داخلہ پی چدمبرم کا یہ اصرار اپنے آپ میں بظاہر تو بے مصرف ہی محسوس ہوتا ہے کہ 26نومبر کے ممبئی دہشت گرد حملوں کے تعلق سے پاکستان کو فراہم کرائی جانے والی شہادتیں ،دہشت گردوں بالخصوص جماعت الدعوۃ کے دہشت گرد سرغنہ حافظ سعید کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لئے کافی ہیں۔کیونکہ جب بھی ہند نے پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف خاطر خواہ شہادتیں فراہم کرائی ہیں پاکستان نے انہیں ناکافی قرار دے کر معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان میں دہشت گرد حملوں کی دودہائیوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمارا یہ اندازہ صریحاً درست قرار پائے گا کہ پاکستان ہنددشمن دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے یا انہیں ختم کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائپی اور ان کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔1993میں ممبئی کے خوفناک دھماکوں کے سلسلے میں بھی پاکستان کا یہی رویہ رہا ہے۔ اس نے ان حملوں کے کلیدی مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے یا انہیں ملک بدر کرنے کے بجائے ،انہیں اپنے ملک میں رہائش کی تمام تر آسائشیں دستیاب کرائی ہیں۔علاوہ ازیں اس نے ان مجرموں کو ہندوستان کے حوالے کرنے کے مطالبے کو بھی یہ کہہ کرٹالنے کی کوشش کی ہے کہ یہ مجرم پاکستان میں موجود ہی نہیں ہیں۔
یہی حشر ہندوستان کے خلاف اب تک کے تمام دہشت گرد حملوں کے سلسلے میں پاکستان کو مہیا کرائی جانے والی تمام شہادتوں کا ہوا ہے۔خاص طور سے ممبئی کے دہشت گرد حملوں کے خلاف فراہم کرائے جانے والے شواہد ک سلسلے میں تو پاکستان نے ہٹ دھرمی کی حد ہی کرڈالی ۔ اس حملے کے خلاف دی گئی تمام شہادتوں کو اس نے حسب دستور ناکافی قرار دے کر نہ صرف ٹال دیا بلکہ اس نے دہشت گرد سرغنہ حافظ سعید کو رہا کر کے اور اس کے خلاف ثبوتوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے عدالت میں اس معاملے کی سماعت کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر کے ہندوستان کے زخموں پر نمک پاشی کوشش کی ہے ۔ اس معاملے میں ہندوستان کی جانب سے فراہم کئے جانے والے تازہ شواہد کے بارے میں تو یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ لیکن پاکستانی ہٹ دھرمی کے آثار وقرائن تو یہی اشارہ کرتے ہیں کہ ان شواہد کا حشر بھی سابقہ شواہد سے مختلف نہ ہوگا۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان شواہد کی موصولی سے قبل ہی ان کی جانچ اور تجزیہ کی پیش بندی کرڈالی ۔وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزرائے اعلیٰ سے ممکنہ دہشت گرد حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنے کی تلقین کی تو پاکستان کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا ہے اور اس نے وزیر اعظم کے خدشات کا ثبوت دیئے جانے کا مطالبہ کرڈالا ۔وزیر اعظم نے تو کم از کم پاکستان کی سرکار پر راست الزام بھی عائد نہیں کیا تھا لیکن پاکستان نے وزیر اعظم کے اس موقف پراحتجاج اور ثبوت طلب کر کے ثابت کردیا کہ وہ ہندوستان کے خلاف دہشت گرد حملوں میں راست یا بالواسطہ طور پر کسی نہ کسی حد تک ملوث ضرور ہے ۔یہ الفاظ دیگر پاکستانی اپنی اس قسم کی حرکتوں سے ہندوستان کو مسلسل اشتعال میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا آرہا ہے اور اب شاید ممبئی کے دہشت گرد حملوں سے متعلق تازہ ترین شواہد کا یہی حشر ہونا ہے۔
اس طرح کل ملا کر پاکستان تقریباً ہر محاذ پر ہندوستان کے خلاف شرانگیز حرکتوں میں ملوث نظر آتا ہے۔ یا یوں کہیں تو بے جانہ ہوگا کہ پاکستان ایسی کسی بھی حرکت سے گریز نہیں کرتا جو راست یا بالواسطہ طور پر ہند کی ناراضگی کا باعث ہو۔ اسے اپنے پڑوس میں ایک پر امن پڑوس کا وجود راس نہیں آرہا ہے اس لئے خواہ گلگت میں ڈائما ر-بھاشا باندھ کی تعمیر کا معاملہ یا سرحد پار کی ہند مخالف دہشت گردی ہر معاملے میں پاکستان کا رویہ غیر سنجیدہ نظر آتا ہے ۔ لیکن اب پاکستانی قیادت کو بہر حال یہ سوچنا ہوگا کہ اپنے امن پسند پڑوس ملک ہندوستان کے ساتھ یہ غیر سنجیدہ رویہ اور اس کی دشمنی کہیں خود اس کے وجود کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔
موبائل:9312972311
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/non-serious-attitude-pakistan-/d/1681