سلیم صافی
13 جنوری، 2015
پاکستان کے موجودہ مختاروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ غلطی سے یا پھر دباؤ میں آکر یا پھر کسی حادثے کی وجہ سے مجبور ہوکر‘ کوئی صحیح کام بھی کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو اسے غلط طریقے سے ہی کرتے ہیں ۔ بلکہ اکثر معاملات میں وہ جنرل پرویز مشرف کی پیروی کرتے ہوئے وہی راستہ اپناتے ہیں جو جنرل صاحب اپنایا کرتے تھے اور جس کے موجودہ حکمران شدید ناقد ہوا کرتے تھے ۔ دہشت گردی کا حل انہوں نے طاقت کا اندھا دھند استعمال جانا تھا اور اب موجودہ حکمران بھی وہی پالیسی اپنانے لگے ہیں اور جس کے سپورٹر ماشاء اللہ اب کی اپوزیشن جماعتیں بھی بن گئی ہیں ۔سانحہ پشاور کے بعد عسکری قیادت کی حرکت کی وجہ سے اب موجودہ حکومت کو مدارس کا موضوع بھی یاد آگیا ہے لیکن بدقسمتی سے ان سے متعلق بھی حکومت وہی کچھ کرنے لگی ہے‘ جو جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں کیا تھا۔ مدارس سے متعلق نوازشریف حکومت کی تشخیص بھی وہی ہے (جوکہ حقیقتاً غلط ہے) جو جنرل پرویز مشرف کی تھی اور علاج بھی وہی تجویز کیا گیا ہے (جس سے کہ مسئلہ حل نہ ہوا) جو انہوں نے تجویز کیا تھا۔ 2002 میں جب مدارس کے نظام میں اصلاحات کا غلغلہ بلند ہوا اور مذہبی جماعتوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو میں نے اس سے متعلق اپنی گزارشات کو چند قسطوں میں سپرد قلم کیا جو 15اور 16جولائی 2002 کو پشاور کے مقامی اخبار میں شائع ہوئیں ۔ چونکہ حکومتی طریق کار بھی وہی ہے ‘ اس سے متعلق دینی مدارس کا احتجاج بھی انہی خطوط پر ہورہا ہے اور اپنی تنقید اور تجاویز میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ‘ اس لئے نئی تحریر کی بجائے 2002 میں شائع ہونے والے ان کالموں کو دوبارہ من وعن نقل کررہا ہوں۔
’’دینی مدارس کے بارے میں یہ رائے صرف مجھ جیسے طالبعلموں ، جو باہر سے اس کا نظارہ کررہے ہیں کی نہیں بلکہ اسی نظام کے اندر شعور کی منازل طے کرنے والے بہت سارے جید علمائے کرام برملا اسی رائے کا اظہار کررہے ہیں ۔ جاوید احمد غامدی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو اس نظام کے تحت پڑھ کر اس کے قریبی شاہد بن چکے ہیں ۔ اپنی کتاب’’پس چہ باید کرد‘‘ میں ’’دینی مدارس ‘‘ کے زیرعنوان وہ لکھتے ہیں۔
’’ سب سے پہلے دینی مدارس کو لے لیجئے ۔ ہم نے انہیں مقدم اس لئے کیا ہے کہ تنقید کی ابتدا اپنی ذات سے ہی کرنی چاہئے ۔ ہمارا تعلق ان مدرسوں کے ساتھ ،بدون شعور سے نہایت قریبی رہا ہے ۔ ان کے مقاصد ، طریق تعلیم و تربیت اور نصاب، ہر چیز کے عیوب و محاسن ایک زمانے میں خود ہمارے عیوب و محاسن تھے ۔ ہم جب ان کا تجزیہ کررہے ہیں تو گویا اپنی ہی زندگی کے ایک دور کا تجزیہ کررہے ہیں۔
ان مدارس کے نظام کا گہری نظر سے جائزہ لے لیجئے ۔ ان کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ تقلید کے اصول پر قائم ہوئے ہیں۔ ان میں یہ بات پہلے دن سے طے کردی جاتی ہے کہ حنفی ہمیشہ حنفی رہے گااور اہل حدیث کو ہر حال میں اہل حدیث ہی رہنا ہے ۔ اپنے دائرے سے باہر کے کسی صاحب علم کی کسی تحقیق اور رائے کے بارے میں یہ تصور کرنا بھی ان کے ہاں ممنوعات میں سے ہے کہ وہ صحیح ہوسکتی ہے۔ مذہب ابوحنیفہ کا کوئی پیرو آئمہ محدثین کے کسی مسلک کو، اور ائمہ محدثین کے طریقے پر عمل کرنے والا کوئی شخص مذہب ابوحنیفہ کے کسی نقطہ نظر کو کبھی ترجیح دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ ہر جماعت مُصر ہے کہ اس کا مذہب ہر اعتبار سے اوفق بالقرآن والسنۃ ہے اور اس پر اب کسی نظرثانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ کوئی شخص ، ان مدارس میں، یہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتا کہ اسکے اکابر کی کوئی رائے اور تحقیق بھی کسی مسئلہ کے بارے میں، غلط ہوسکتی ہے۔
اس اصول پر ان مدارس سے پڑھ کر نکلنے والوں کی استقامت سے جو بگاڑ ہمارے معاشرے میں پیدا ہوا ہے، وہ کسی صاحب نظر سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔ ہم صبح و شام دیکھتے ہیں کہ فرقہ بندی کا ناسور اس ملت کے جسم میں جاری اور اختلاف ہمیشہ اتفاق پر بھاری رہتا ہے ۔ منبر ہمہ وقت غضب سے کانپتا اور محراب ترش ابرہ ہوتی ہے ۔ مسجدوں کی حدود ملکوں کی سرحدیں بن گئی ہیں اور ان میں رہنے والے ایک دوسرے سے کوئی تعلق قائم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ فقہی تعصبات دین کی عصبیت پر غالب آگئے ہیں اور یہ لوگ ان کی حفاظت کے لئے اب بغیر کسی تردد کے ہر باطل کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ فقہ اسلامی کی تدوین اور اس ملک میں اس کے نفاذ کی ہر کوشش بالعموم انہی تعصبات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے ۔اس طرح کے مواقع پر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض مکاتب فکر نہیں، اقوام و ملل ہیں جو اپنے اپنے مفادات کی حمایت میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوگئی ہیں ۔ یہ بگاڑ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اس زمانے میں ، جب کہ نفاذ دین کی باتیں کچھ زیادہ ہونے لگی ہیں ، بہت نمایاں ہوگیا ہے ۔
ان میں سے جو کچھ وسعت نظر کے مدعی ہیں ، ان کا حال بھی یہ ہے کہ وہ اگر شخص واحد کی تقلید پر اصرار نہیں کرتے تو اس بات پر بہرحال مُصر ہیں کہ قرآن و سنت پر براہ راست غور و تدبر کا دروازہ چوتھی صدی ہجری کے بعد بند ہو چکا ہے ۔ ان کے نزدیک اب قیامت تک کسی شخص کو اسے کھولنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے ۔ علم ان کی رائے میں جمع اقوال ہی کا نام ہے اور تحقیق یہ اسے ہی کہتے ہیں کہ کسی مدعا کو ثابت کرنے کے لئے ، اگلوں میں سے دس بیس کی آراء بطور حوالہ نقل کردی جائیں ۔ کسی آیت کی تاویل اور کسی حدیث کی شرح میں کوئی نئی تحقیق ، اگر کوئی شخص پیش کردے تو اسے مردود قرار دینے میں یہ لمحے بھر کا توقف بھی گوارا نہیں کرتے ......دوسری بڑی خرابی ان مدارس کے نظام میں یہ ہے کہ یہ اگرچہ دینی مدارس ہیں ، لیکن دین میں جو حیثیت قرآن مجید کو حاصل ہے ، وہ ان میں اسے کبھی حاصل نہیں ہوسکی۔ دین میں وہ اس زمین پر اللہ کی اتاری ہوئی میزان اور حق وباطل کے لئے فرقان ہے ۔ اس کی حیثیت کا ناگزیر تقاضا تھا کہ ان مدارس کے نصاب میں محورومرکز کا مقام اسے حاصل ہوتا ۔ تدریس کی ابتداء اس سے کی جاتی اور اس کی انتہا بھی وہی قرار پاتا۔ علم وفن کی ہر وادی میں طلبہ اسے ہاتھ میں لے کر نکلتے اور ہر منزل اس کی رہنمائی میں طے کی جاتی ۔ جو کچھ پڑھایا جاتا وہ اسی کو سمجھنے اور اسی کے مدعا کو پانے کے لئے پڑھایا جاتا ۔ نحووادب ، فلسفہ و کلام اور فقہ و حدیث کے لئے اسے معیار مانا جاتااور ہر چیز کے ردوقبول کا فیصلہ اس کی آیات بینات کی روشنی میں ہوتا۔ ایمان و عقیدہ کی ہر بحث اس سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم کردی جاتی۔ طلبہ اس کے ہر لفظ پر مراقبہ کرتے اور اس کی ہر آیت پر ڈیرے ڈالتے ۔ انہیں بتایا جاتا کہ بوحنیفہ و شافعی ، بخاری ومسلم، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی ، سب پر اس کی حکومت قائم ہے اور اس کے خلاف ان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی قبول نہیں کی جاسکتی۔ دین میں قرآن مجید کی حیثیت یہی ہے اور یہی حیثیت اسے ان مدارس کے نظام میں حاصل ہونی چاہئے تھی لیکن ہر صاحب علم اس حقیقت سے واقف ہے کہ پہلے مرحلے میں ، ان مدارس کے طلبہ ، حفظ و قرات کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے اور آخری مرحلے میں جلالین و بیضاوی کے صفحات میں اس کی کچھ زیارت کرلیتے ہیں ۔ اس سے زیادہ کوئی مقام ان مدارس میں کبھی اسے نہیں دیا گیا۔
قرآ ن مجید کے معاملے میں اس روئیے کا نتیجہ یہ ہے کہ فکر و عمل کے لئے کوئی چیز اب حکم نہیں رہی اور علم اختلافات کی بھول بھلیاں میں سرگرداں ہے۔ وہ منابع جہاں سے ہمیں روشنی مل سکتی تھی ، خود تیرہ وتار ہیں اور ہمارے مدرس و ملا اوراس کتاب منیر میں ، بالعموم ، وہی تعلق قائم ہے ، جس کے بارے میں اقبال نےکہا تھا:
مکت و ملا و اسرار کتاب
کور مادرزاد و نور آفتاب
ان مدارس کے نظام میں تیسری بڑی خرابی یہ ہے کہ ان کا نصاب نہایت فرسودہ اور ہماری علمی اور دینی ضرورتوں کے لئے بالکل بے حاصل ہے۔
یہ نصاب جیسا کہ عام خیال ہے ، ملا نظام الدین نے ترتیب دیا یا پھلواری شریف کے سجادہ نشین شاہ سلیمان کی رائے کے مطابق اس کا بیج ابتداء میں ملا فتح اللہ شیرازی نے بکھیرا اور پھر یہ خودرو پودوں کی طرح آپ سے آپ اس صورت میں نمودار ہوگیا ، بہرحال ہمارے اس دور کی پیداوار ہے ، جب علم کے اصل ماخذوں سے ہم بے تعلق ہو چکے تھے ۔ قرآن مجید کو جو مقام اس نصاب میں دیا گیا ہے وہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ حدیث اگرچہ شامل نصاب ہے ،لیکن اس کے لئے دورہ کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ، اس سے تدبر حدیث کاکوئی ذوق پڑھنے اور پڑھانے والوں میں کبھی پیدا نہیں ہوسکتا ۔ جاہلی ادب کی اہمیت اس نصاب میں کبھی نہیں مانی گئی چنانچہ قرآن مجید کی زبان اور اس کے اسالیب کی ندرتوں سے اس کے طلبہ کم ہی واقف ہوئے ہیں ۔ نحو و بلاغت کی جو کتابیں اس میں شامل ہیں ،ان میں سے چونکہ منطق زیادہ اور نطق کی رعایت بہت کم ملحوظ رکھی گئی ہے ، اس وجہ سے ان فنون کے اعلیٰ مباحث کے سمجھنے کا ذوق اگر طالبعلم میں ہو بھی تو ان کتابوں کے پڑھنے کے بعد باقی نہیں رہتا ۔ منطق و فلسفہ اور علم کلام کے لئے جو کچھ اس نصاب میں رکھا گیا ہے ، اس کا ضرر اس کی منفعت سے زیادہ ہے ۔ فقہ احناف ہی کی پڑھائی جاتی ہے ۔ فقہ اسلامی کی تدریس کا کوئی تصور اس کے بنانے والوں کے ذہن میں کبھی نہیںرہا۔ اصول کافن ہم مسلمانوں کے لئے مایہ افتخار ہے ، لیکن اس کے لئے بھی کوئی ایسی کتاب اس میں شامل نہیں کی گئی جو اجتہادی بصیرت پیدا کرنے والی ہو۔ دو صدیاں اس نصاب پر گزر گئیں ، لیکن دنیوی علوم میں بھی یہ کسی ترقی کو قبول کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوا۔ فلسفہ، نفسیات، علم الاقتصاد، علم الافلاک ، طبیعیات، علم السیاسۃاور اس طرح کے دوسرے فنون میں جو تحقیقات اس دوران ہوئی ہیں ، وہ ابھی تک اس میں بار نہیں پاسکیں۔ اسے حسن عقیدت ہی کا کرشمہ سمجھنا چاہئے کہ صدر و میبندی(صدرالدین شیرازی اور معین الدین میبندی) کو بھی اس میں حیات ابدی حاصل ہوگئی ہے ۔ ہمارے بزرگ اسے اس قدر مقدس سمجھتے ہیں کہ اس کی ان کتابوں میں بھی کوئی تبدیلی ان کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ نئے علوم دنیا پر حکومت کررہے ہیں ، لیکن اس نصاب کے پڑھنے والے ابھی تک ان کے وجود پر بھی مطلع نہیں ہوئے۔ دنیا نے ان دو صدیوں میں بہت کچھ مانا اور ماننے کے بعد پھر انکار کیا، لیکن یہ نہ اس کے ماننے سے واقف ہوئے اور نہ اس انکار کی کوئی خبر انہیں ابھی تک پہنچی ہے ۔‘‘
13 جنوری، 2015 بشکریہ: روز نامہ جنگ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/religious-seminaries-real-problem-solution/d/101016