سیف شاہین۔نیو ایج اسلام
انگریزی سےترجمہ
،مصباح الہدیٰ ۔نیو ایج اسلام
ایک پاکستانی فیملی نے برطانیہ
میں اپنی بیٹی کو ‘‘مغربی ’’ طرز زندگی اپنانے پر مو ت کے گھاٹ اتار دیا ۔سعودی عر
ب چھوٹی بچوں کی شادی کو قانونی جواز فراہم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے ۔افغانستان میں طالبان نے ایک آٹھ سال
کے بچے کو فدیہ دیئے دئے بغیر رہائی پر اغوا کیا اوراسکے بعد اسے تختۂ دار پر چڑھا
دیا ۔اسلامی دہشت گرد مستقل ہندوستان میں اپنی نئی جا ئے پناہ تلاش کرنے میں لگے ہو
ئے ہیں ۔دریں اثناء سیریا ،یمن اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے حصوں میں اسلامی جہادیوں کے
ذریعہ بےشمار لوگ ہر ہفتہ اور ہر موقعہ پر مارے جا رہے ہیں ۔
تمام مسلم ممالک کے خبروں
کی سرخیا ں ں پیش نظر ہیں ۔
ان وحشیانہ سر گرمیوں میں
سے کسی سے بھی اسلا م کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ،جو انہوں نے ایمان کے نام پر انجام
دیا ہے۔کسی شادی کو اسلامی اعتبار سے معتبر بنانے کے لئے ایک عورت کی رضامندی اور منظوری کا خیال رکھنا ضروری ہے ،خدا ترس مسلمانوں
کے درمیان ایک ایسا حکم ہو نا چاہئےجسکے مطابق بچوں کی شادی ممنوع ہو ،لیکن ایسا نہیں
ہے!آخر کیوں ؟قرآن کے مطابق بغیرکسی وجہ کے کسی ایک مسلما ن کو بھی مارنا تمام انسانیت
کا قتل ہے ۔صرف یہ آیت خود کش حملہ کرنے والوں اورکو ڑھ مغز تشدد کی دوسری صورتوں کو
اسلام کا بہروپیہ قرار دے سکتی ہے ۔ کیا صرف ایسا نہیں ہو سکتا !کیوں ؟
ہر چند دنوں پر اسلامو فوب
دنیا میں کہیں نہ کہیں قرآن کا نسخہ جلانے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور تمام مسلمانوں کو
خواہ وہ راسخ الاعتقاد ہوں یا آزاد خیال ہوں،معتدل ہوں یا بنیاد پرست ہوں ، مشتعل کرتے
ہیں۔ان میں سے کچھ تشدد پر اتر آتے ہیں اوراپنا غصہ ظاہر کرنے کے لئے فساد پیدا کرتے ہیں اوربسوں کونظر آتش کرتے ہیں
۔اور کچھ لو گ گھروں میں بیٹھ کر لوگوں کو بر انگیختہ کرتے ہیں ، لیکن جو بر انگیختہ
کرتے ہیں ان میں سے کسی نے شاید ہی کسی نے معقول انداز میں قرآن کا مطا لعہ کیا ہوگا
،اور نہ ہی انہیں اس بات کا کوئی احساس ہو گا کہ ان افواہ کے بر خلاف قرآن میں کیا
لکھا ہوا ہے !اور کیوں ؟
جواب نہایت ہی آسان ہے :قرآن
ایک ایسی زبان میں لکھی گئی ہے مسلمانوں کی اکثریت نہیں سمجھتی ۔عربی بولنے والوں کی
شرح بہت کم ہے ۔ مزید برآں عربی زبان اتنی متنوع ہے کہ ان کی ریاست کے مختلف حصے مثلاً
جزیرہ نماں ،بحیرہ روم اورشمالی افریقہ ایک دوسرے کوسمجھنے کی جدو جہد کرتے ہیں ۔ اس
کامطلب یہ ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بہت کم
ہیں جو قرآن کو اسی طرح پڑھ اور اس طرح سمجھ
سکیں جیسا کہ وہ ہے ۔
اس کا حل واضح ہے :قرآن کا
ترجمہ کیا جائے ۔اس مسئلہ کے حل کی یہ تجوز انوکھی بالکل ہی نہیں ہے ؛ہزاروں سالوں
سے قرآن کا ترجمہ کیا جا رہا ہے۔قرآن کا پہلی مرتبہ مکمل ترجمہ نوویں صدی میں سندھ پاکستان میں کیا
گیا ۔اس کے بعد قرآن کا ترجمہ متعدد وقتوں میں بے شمار زبانوں میں کیا جا چکا ہے ۔لیکن
ان تراجم کی تعداد اب بھی کم ہے اس لئے کہ وہ تراجم ‘‘اصل نسخے ’’کی طرح مسلم عوام
میں بالعموم مقبول نہیں ہیں
لو گوں کو اس بات کا راسخ
اور کامل یقین ہےکہ قرآن نا قابل فہم ہے،اور چو نکہ قرآن کا نزول عربی زبان میں ہو
ا ہے اسی لئے بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا ضروری ہے ۔اور ایسا کرنا ایک مذہبی فریضہ
سمجھا جاتا ہے ،اس معمولی سی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اکثر قارئین جو وہ پڑھ رہے
ہیں اس کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتے ۔
نتیجہ:پوری دنیا میں مسلم
بچے پڑھنے کے لئے عربی رسم الخط والی قرآن
لاتے ہیں اور ہر دن کچھ سمجھے بغیر قرآن پڑھنے میں کچھ و قت گزار تے ہیں ۔جیسے
جیسے وہ بڑے ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر روزانہ کی نمازوں میں یا ہفتہ وار نمازوں میں
اور رمضان ایک مرتبہ پورا قرآن پڑھنے تک اپنے
آپ کو محدود کر لیتے ہیں۔اورغور و فکر کرنے
سے مستقل بچتے رہتے ہیں ۔ان سب کے معانی اور
مطالب سمجھنے کے لئے علاقائی مولویوں کے رحم و کرم پر رہتے ہیں (اور مزید ترقی کرتے
ہوئے ٹیلی تبلیغیوں مثلا ً زاکر نائک ) پر
منحصر ہو جا تے ہیں ۔
ترجمہ کرنے میں کیا نقصان
ہے ؟
کیا واقعی قرآن نا قابل ترجمہ
ہے ؟ہر زبان کے اندر ثقافتی علامتیت سے مربوط ہو نے کی خصوصیت ہوتی ہے :اس لئے کہ وہ
علامات دوسری تہذیب و ثقافت میں نہیں پائے جا تے ، لہٰذا انتہا ئی پیچیدہ عبارت کا
مکمل ترجمہ نہیں ہو سکتا ۔قرآن عبا رتوں سےزیادہ پیچیدہ اور اس معیار کی عربی ہو نے
کی وجہ سے خود اسے نقل کرنا دشوار ہے ،ایسا لگتا ہے کہ کو ئی بھی ترجمہ اس کےساتھ کبھی
انصاف نہیں کر سکتا ۔
لیکن کیامعیاری ترجمہ کا کو
ئی حل ہو سکتا ہے ؟حقیقت یہی ہے کہ قرآن کا ترجمہ باکمال نہیں کیا جا سکتا اور اسکے
بے شمار مشمولا ت اور یہا ں تک کہ اس کی پیچیدگی
کو دوسری زبان میں قابل فہم نہیں بنایا جا سکتا ۔غیر عرب کے درمیان اسلا م کی تبلیغ
کے کئے ابتدا میں قرآن سمجھانے میں مقامی زبانوں
پر انحصار کرنا ،اسکی گواہی پیش کرتی ہے ۔
قرآن کے تراجم کے لئے عقلی
اور ثقافتی جواز کے فقدان نے مسلم معاشرے کو مختلف طریقوں سے نقصان پہونچایا ہے۔سب
سے پہلی اور واضح مثال یہ ہےکہ بے شمار مسلم یہ کبھی نہیں جانتے کہ در حقیقت قرآن انکے
بارے میں کیا کہ رہا ہے :اسی وجہ سے اسلام کے تعلق سے ان کی سمجھ مستقل تا ریکی میں
رہتی ہے۔ یہ اسلئے نہیں ہے کہ اسلام ،مذہب کا مقصد توہم پرستی اور جبر کے بجائے غور
و فکر اور اختیار کی بنیاد رکھنا ہے۔
دوسری بات یہ ہیکہ، جو لوگ
یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مولویوں کے زریعہ مسلمانوں کی رہنمائی کرینگے وہ نہ صرف یہ
کہ مسلمانوں کی سوچ و فکر اور ایمان پر نا جا ئز بالا دستی قائم کرتے ہیں بلکہ با رہا
انہیں اسلامی راستے سے ہٹا دیتے ہیں ۔قرآن تاریخی اور سیاق و سبا وق کے خلا ف اندا
ز میں پیش کیا گیا ہے ، ان میں سے کچھ کے ساتھ ایسا جان بوجھ کر اور کچھ کے ساتھ ان
کی اپنی جہالت کی وجہ سے ہوا ہے ۔اس میں تعجب کی کوئی با ت نہیں ہے کہ یہ کارستانی
‘‘ایمان کے ان علم برداروں ’’کی ہے جو قرآن کے ترجمہ اور اسے خود اچھی طر ح سے مطالعہ کرنے کی اجازت دینےکے سخت مخالف
ہیں۔
تیسری با ت یہ ہیکہ ،مسلمانوں
کے اندر قرآن فہمی کے فقدان نے ضعیف اور بے بنیاد حدیثوں سمیت غیر قرآنی ادب کو اسلامی پیغامات کا مخزن و منبع ہو نے کا نا جائز
فائدہ پہونچایا ہے۔یہ بنیادیں ان مسائل کو سلجھانے کے لئے زیادہ آسان ہیں ،اور مولویوں
کو پہلے سے ہی مسلمانوں کے افکارونظریات اور اعتقادات پر غیر اسلامی نطریات اور نصب
العین کی نشرو اشاعت ‘‘اسلام’’ کے طور پر کرنے
کے لئے آلۂ کا رکے طور پر استعمال کرنے کی
بالا دستی حاصل ہے ۔ہزاروں سال کی تاریخ، جس میں حالیہ سرخیوں کا تذکرہ نہیں ہے ،اس
کے بہروپیہ ہونے کی شہادت پیش کرتی ہے ۔
لا مرکزیت کا شکار اسلام
واضح طور پر میں یہ کہنا چاہونگا
کہ ،قرآن کا ترجمہ نہ کرنےمیں قباحت یہ ہے کہ اس سے اس نظریہ کو تقویت پہونچتی ہے کہ
قرآن کی تلاوت صرف عربی زبان میں ہی ہونی چاہئے ۔جب کہ دوسری طرف اس کا ترجمہ کرنے
سے بےشمار مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔خود
لوگوں کی زبان میں قرآن پڑھنے کی سہولت اسلام کی لا مرکزیت کو ختم کریگی، ثقافتی عربیت،قرون
وسطیٰ کی ذہنیت اور روحانی مولویت کی عقدہ کشائی کریگی ،اور عام مسلمانوں کے لئے خود
ان کی زبان و اصطلاح میں اسلامی پیغام کی تحقیق کا راستہ ہموار کریگی۔
یہ اسلام کاایک اہم پہلوہے
۔اگر اللہ نے ہمیں منفرد شعور اورہمارے اعمال کا ہمیں منفرد ذمہ دار بنا کر منفرد پیدا کیا ہوتاتوایک ہی نظریہ سب پر تھوپنے
کے بجائے ایک منفرد ذی شعور کی حثیت سے اسلام کو سمجھنا ہمارا حق ہی نہیں بلکہ ہماری
ذمہ داری بھی ہوتی ۔
لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے
:ترجمہ کرنے سے ایک بڑا تصادم ہو سکتا تھا
۔سترہویں صدی میں یوروپین عیسائیوں نے ایسا ہی کیا تھا ۔پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے اعلیٰ
پیمانے پر بایبل کی طباعت کا مو قعہ فراہم کیا ،اور عیسائیت پادریوں کے ہاتھوں سے نکل
کر عام مرد اور عورتوں تک پہونچ گیا ۔اپنے اجتماعات میں صرف پادریوں کے ذریعہ اپنے مذہب کی توضیح و تشریح سننے
کے بجائے لوگ تنہائی میں،اپنے گھروں میں اور اپنی تحقیقات میں اس پر غور و فکر کر نے
کےقا بل تھے ۔
اس عمل نے نہ صرف یہ کہ چرچ کی حکومت میں نقب زنی اور عیسائیت کی اصلاح کی ،
بلکہ یہ عقلیات اور انفرادی آزادی میں اور قطعی روشن خیالی کی نمائندگی اور نئے زمانے
کی شروعات میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔اس زمانے کے بے شمار مرکزی اصول مثلاً قومیت ،
انسانوں کے حقوق ،عورتوں کے حقوق ،جمہوریت ،پریس کی آزادی اورسائنسی امتزاج وغیرہ انہیں
نظریات کی مرہون منت ہیں ۔آج مسلمانوں کو در
پیش مسائل میں سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ابھی بھی انہیں ان نظریات کی ترویج خود ہی
کرنی ہو گی ۔لہٰذا صرف قرآن سمجھ لینے سے مسلمان اسلام کو نہیں سمجھ سکتے ،بلکہ انہیں
اس جدید دور کو بھی سمجھنا ہو گا اور جس میں وہ رہتے ہیں ،اور اس میں بہتر کا ر کردگی
پیش کرنی ہو گی ۔
بالکل ،وسطی یوروپ کے بر عکس
،آج قرآنی نسخوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔لیکن کچھ ہی ایسے لوگ ہیں جو قرآن کو سمجھ کر پڑھیں،اس کے پیغامات
پر غور وفکر کریں اور اس کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات بڑھانے کی کوشش کریں ۔اور ایسا اس
لئے ہے کہ عام طور پر وہ اس زبان کو نہیں جانتے جس میں وہ لکھی گئی ہے ۔قرآن کا ترجمہ
ان تمام زبانوں میں کیا جانا چاہئے جو زبان مسلمان بولتے ہیں:انگریزی،ہندی،اردو،بنگلہ،ملیالم
، چینی ،فرنچ ،اسپینش اور پرتگالی وغیرہ ، ان کے زبان و لہجہ میں اور عربی زبان و لہجہ
میں ۔مسلمانوں کو قرآن کے معانی ومطالب سمجھنے
کے لئے ان کے اپنے زبا ن و لہجہ میں قرآن پڑھنا چاہئے۔جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا ،ترجمہ
کیا جا سکتا ہے ،کمی صرف جواز فراہم کرنے کی ہے،عام مسلمانوں کو اسے خریدنا او راس
کامطالعہ کرنا اپنے ایمان کا ایک اہم پہلوتصور کرنا چاہئے ۔اسی لئے مسلمانوں کے لئے
اس زمانے میں اصولیات کی قدرو قیمت زیادہ ہے ۔لیکن جو بھی ہو ابھی اس با ت کا اندازہ لگانے کے لئے زیادہ دیر
نہیں ہوئی ہے کہ ہم کس چیز میں چوک رہے ہیں ۔
سیف شاہین یونیورسٹی آف ٹیکساس
،آسٹن میں ریسرچ اسکالر ہیں ۔وہ نیو ایج اسلام کے لئے مستقل کالم لکھتے ہیں
URL
for English article: https://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/translate-quran-urgently/d/7413
URL: