سیف شا ہین ، نیو ایج اسلام
15 جنوری ، 2012
(انگریزی سے ترجمہ ،مصباح الہدیٰ ۔ نیو ایج اسلام )
محمد ابراہیم کا اصلی نام
محمد ابراہیم نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے منسلک بہت کم چیز وں کا تعلق حقیقت سے ہے ۔ برطانیہ
میں مسلم مہاجرین کے گھر میں پیدا ہوا، اس کی پرورش و پرداخت 1990 ،میں مانچیسٹر کے گردو نواح
میں ہوئی ،اس نے مقامی زبان و لہجہ سیکھی جسے اس کے کچھ ہی ساتھی سمجھ سکتے تھے ۔ اور اسکی اردو اور پنجابی سلام علیکم
تک ہی محدود تھی،جب وہ اپنے والدین سے بات کرنا چاہتا تو اسے اپنے
بڑے بھائی کو ترجمان بنانے کی ضرورت پڑتی ۔
اس عمر کے اکثر برطانوی بچوں کی طرح محمد ابراہیم بھی
فٹ بال اور ڈیوڈ بیکہم کی تمام چیزیں پسند کرتا تھا (جبکہ وہ کبھی کبھی جرسی اور اور
ٹی شرٹ پہنتا تھا جس پر کپتان چہرہ بنا ہوا ہو)۔ وہ گھر کا بنایا ہوا کھانا
نہیں کھاتا تھا ، اور وہ اکثر صرف برگر،پزا اور فرنچ فرائی کھاتا تھا ۔لیکن اکثر پاکستانیو
کی طرح ،وہ بھی سخت وطن پرست تھا ،وہ رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے بتاتا تھا کہ کس طرح
اس کے والد نے اس کی ایک بہن کو واپس پاکستان بھیج دیا جب انہیں یہ پتہ چلا کہ اس کا
ایک بوائے فرینڈ ہے ۔
پولس افسر بننے کے لئے کالج میں زمانہ طالب علمی دوران ، تقریبا
ہر رات نشے کی حالت میں جھگڑا کرنے کی وجہ سے اسے پب سے باہر
دھکا لگایا جاتا تھا ، ایک مسلمان
ہونے کی وجہ سے ،اسے اس کا اور دوسری مختلف چیزوں کا مثلاً کم درجہ حاصل کرنے وغیرہ
کا گلہ ہو گا ۔ اسے زیادہ پر کشش بنانا ، جوکہ زیادہ مشکل نہیں تھا ،ایک دلچسپ
شام بنا دیتا۔ اس قسم کے مواقع پر وہ جو بھی
بات کرتا وہ یہ ہوتا کہ وہ ایک مسلم ہے، اور دنیا
میں سب سے زیادہ عظیم الشان مذہب سے تعلق
رکھتا ہے جو کہ اس کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل چیز
ہے ۔ اس کے با وجود ، اسے اس کی وجہ سے تمام امتیاز اور تفریق
کا سامنا تھا ۔
جس چیز نے اسے دلچسپ بنایا
وہ یہ کہ، وہ اپنی تمام زندگی کی روش سے ، اپنے انتخاب کا جواز
پیش کرنے کےلئے ، مثال قائم کرتے ہوئے ، کس طرح اس میں آگے بڑھ سکتا ہے ۔ ‘‘جی ہاں دوستوں ’’وہ تنگ
مزاجی سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے ، ‘‘ ہو
سکتا ہے کہ میں پیدائشی انگریز
ہوں ،لیکن میں ایک مسلم ہوں ۔’’
محمد کی ہرزہ گوئی نے ایک ثقافتی بحران پیدا کر دیا ہے ، صرف ان مہاجرین کے درمیان نہیں جو بالعموم انہیں اقدار کو استحکام بخشنے میں لگے
ہیں ، جن کے ساتھ وہ پلے بڑھے ہیں ، بلکہ ان کے بچوں کے درمیان جو بظاہر نا موفق ماحول
میں بڑے ہو رہے رہیں۔ انہیں اسکول اور گھر کے درمیان ، اہل و عیال اور دوستوں کے درمیان
دو طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، انہوں نے طرز زندگی کا انتخاب کرنا بند کر دیا ہے : ایک برگر یہاں سے ،ایک ایک خاندانی اقدار یہا ں سے وغیرہ ۔
لیکن ثقافت کا یہ سنگم ایک دوسرے بحران کا حل نہیں پیش کرتا ہے ، اور وہ ہے ثقافت
کا بحران ! آپ ہیں کون ؟آپ کا کہاں سے یا کس
سے تعلق ہے؟ محمد ابراہیم کے مخمور ڈرامے انتہائی
نصیحت آموز ہیں ۔ اس نے ذہنی طور سے نہ تو انگریز اور نہ ہی پاکستانی ، ایشیائی ، اور پنجابی ہونے کا فیصلہ کیا ، بلکہ مسلم ہو نے فیصلہ کیا ہے ۔
مسلمان ہونے کا مطلب محمد
کی نظر میں یہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کو سمجھے یا یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اسلام کیا ہے (میں
یہاں اس کی شراب نوشی کے خلاف اسلامی احکام کی بات نہیں کر رہا ہوں )۔ اس کا سیدھا
مطلب یہ ہے کہ ہے کہ وہ خود سے ایک اسلامی
نا م جوڑے تاکہ وہ دنیا میں ایک مقام متعین
کر سکے ۔اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ
وہ اپنی ناکامی کی ذمہ داری خود قبول کرنے اور ان کے لئے کچھ کرنے کے بجائے ،وہ سیدھے طور پر مسلمانوں کے خلاف تفریق اور امتیاز کا ذمہ دار انہیں
ٹھہرا سکے ۔
چاروں طرف نظر دوڑانے پر دنیا ایسے
محمد ابراہیم سے بھری نظر آئے گی جن کا اصلی
نام محمد ابراہیم نہیں ہے ، انہوں نے اسلام
کو ایک دین کی حیثیت سے قبول نہیں کیا ہے ،بلکہ صرف پہچان بنانے کے لئے
اسلام قبول کیا ہے ۔کیا انہوں نے مذہب میں دلچسپی لیتے ہوئے اسلام کو اس کی تعلیمات کے ساتھ سمجھنے کی کوشش
کی ، یہ ان کے لیئے مثبت اور مظہر کامل ہوتا۔
یہ تعلیم اور غور و فکر کے ذریعہ خود ان کی اصلاح میں مددگار ثابت ہوتا ، ان کے اندر
لبرل اقدار پیدا کرتا ،اور ان کے اندر ان کے ہم عصر معاشروں میں ضم ہونے اور غیر مسلموں کے ساتھ پرامن
بقائے باہم کی اجازت دیتا ، جیسا کہ اسلام حکم دیتا
ہے ۔
جو بھی ہو مسئلہ یہ نہیں ہے
۔ جو لوگ دنیا کی تہذیب میں اپنی پہچان بنانے
کے لئے اسلام قبول کرتے ہیں ان کے ایسے عزائم منفی اور
قطع تعلق کرنے والے ثابت ہو تے ہیں ۔وہ اسلام کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں
، اور غلط قصے اور کہانیوں کا اثر قبول کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ، ان کے لئے یہ عقیدہ
رکھنا کہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اسلام سب پر فائق اور غالب ایک مذہب ہے ، حالانکہ قرآن واضح طور پر کہتا ہے اور
خدا کا حکم کتنے لوگوں پر نازل ہوا ، اور قرآن
نے برتریت کے خلاف خبر دار کیا ہے ۔
ان کا ایمان ہے کہ ان کا تعلق ایک آفاقی امت سےہے ، جب کہ حقیقت میں
ایسا کچھ نہیں ہے : جو مسلمان دنیا کے مختلف حصوں میں ہیں ان کے اقدار اور ان کی ثقافت بالکل مختلف ہے
۔ لیکن ان کی یہ تکثیریت ان کی اسلامی شناخت سے
بالکل مختلف ہے ، اور اسی لئے وہ ان مسلمانوں کی سرزنش کرتے ہیں جو مقامی طور طریقوں میں رنگ جاتے ہیں ۔
شناخت انوکھا پن کا مطالبہ
کرتی ہے ،اسی وجہ سے جنہیں شناخت کی تلاش
ہوتی ہے وہ اس بات کی غلط تشریح کی طرف
بڑھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے ، اور مسلمان ہو نے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ،اسلام کے پہلے چار
خلفاء کے عہد سلطنت کو ‘‘سنہرا زمانہ ’’ مان
کر اپنی ضروریات کے مطابق تاریخ گڑھتے ہیں، جب کہ اس وقت تک
سیاسی انحطاط کا دور شروع ہو چکا تھا ۔ اور کچھ لوگوں کی ضرورت
شناخت بنانے کے علاوہ بھی ہوتی ہے ، جب وہ
دیکھتے ہیں کہ دنیا انہیں پسندیدگی کی نگاہوں سے نہیں دیکھ رہی ہے تو وہ جبراً ایسا کرنے کے لئے منصوبہ سازی میں لگ جاتے
ہیں ۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں قرآن کی ان آیتوں سے دلجوئی حاصل ہوتی ہے جو مسلمانوں کو
لڑائی کا حکم دیتی ہیں ۔ لیکن ان کی جہالت
انہیں یہ جاننے سے روک دیتی ہے کہ یہ آیتیں صرف اس وقت کے لئے تھیں جب ایک چھوٹے سے مسلم معاشرے کا
وجود تباہی کے دہانے پر تھا ۔ قرآن کی وہ آیتیں بھی ان کی نظر سے پوشیدہ ہوتی ہیں
جن میں دین میں جبرو تشدد کو ممنوع
قرار دیا گیا ہے ، اور لوگوں کو ان کے عقائد کی ترجمانی
ان کے اپنے انداز میں کرنے کی اجازت
دی گئی ہے ۔
ایک ،مسلمان ہونے کی حیثیت
سے ،وہ نہایت ہی آسانی کے ساتھ اپنی تمام پریشانیوں کا ذمہ دار تفریق اور امتیاز کو ٹھہرا سکتے ہیں ۔ یہ بات یقینی
ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو ہر قسم کی پریشانیوں اور اذیتوں کا سامنا ہے
۔ لیکن ایسا دوسرے بہت سے معاشروں میں ہے ، وہ مذہبی ہو سکتے
ہیں ، فرقہ پرست ، نسل پرست ، علاقائیت پسند ، طبقہ پرست،
نظریاتی اور جنسیت پرست بھی ہوسکتے
ہیں ۔ مسلم غیر مسلمو ں کے خلاف تفریق اور
امتیاز کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کچھ مسلم معاشروں کے خلاف بھی فرقہ اور نسل کی بنیاد پر
امتیاز اور تفریق کا برتا ؤ کرتے ہیں
۔ لیکن وہ احساس مظلومیت کو اسلامی شناخت کے ایک حصے کے طور پر پروان چڑھاتے ہیں جو
انہیں خود کی تنقید کی ضرورت سے روکتا ہے ،
جسے کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے ۔
جو اسلامی شناخت اختیار کرتے ہیں ان میں
سے تمام اسلامی عقائد کی مزاحمت
نہیں کرتے ، وہ مہاجرین کی دوسری نسل
ہیں ۔ گلوبلائیزیشن کے اس دور میں ، ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنے آبائی وطن کو کبھی نہ
چھوڑا ہو اور ابھی بھی یہ پوچھنے پر دباؤ ڈالا جاتا ہو : آپ کا تعلق کہاں
اور کس سے ہے ؟
یہ یقینی ہے کہ مختلف
لوگ مختلف درجات میں اسلامی شناخت اختیار کرتے
ہیں۔ محمد ابراہیم نے برطانوی پولس کی نوکری تو حاصل کر لی ، لیکن حال ہی میں اس نے اسے چھوڑ دیا ،
اور اب وہ ‘‘مذہبی امتیاز’’ کے لئے افسروں
کو عدالت لے جانے کا منصوبہ بنا رہا ہے (جو کہ کیس ہو سکتا ہے ) ۔آفاقی امت بھی اپنی
بول چال میں وضع قطع اختیار کرتے جا رہی ہیں
، لیکن وہ اب تک مغربی طرز زندگی میں ڈوبے ہوئے ہیں، کالج کے دنوں میں زیادہ سے زیادہ شراب نوشی کر کے اور فاسٹ فوڈ پر زندگی کا گذر بسر
کر کے ، وہ بغیر ڈاڑھی کے بڑا ہوا اور کسی
کو مسلمان کرنے کے لئے بھی جدو جہد نہیں
کرتا ہے ۔
لیکن دوسرے بہت سارے محمد نے ہر چیز کو گورے اور کالے میں ، مسلم اور
مسلم مخالف کے طور پر دیکھنا بند کر دیا ہے ۔
یہ ان کے دنیا میں رو نما ہونے والے تمام واقعات سے با خبر ہو نے
کی حکایت بیان کرتا ہے :عالمی واقعات
سے مثلاً ،ذاتی واقعات کی وجہ سے مثال کے طور پر آفس میں ترقی نہ پانے کی وجہ سے ،افغانستان ، عراق اور لیبیا میں حملے۔ بڑھتا
ہو ا اسلاموفوبیا دنیا کے بارے میں اس طرح
کے نظریات قائم کرتا ہے اور وہ زیادہ درست لگتے ہیں ۔ حکایات اور کہانیاں انہیں بنیاد
پرستی کی جانب لے جاتی ہیں اور تشدد کی صورت میں ، دہشت گردی کی طرف ۔
عالمگیریت نے ہر کسی کے کئے
ثقافت اور تشخص کا سوال پیدا کر دیا ہے ۔ یوروپ
‘‘عرب ’’ بن جانے کے خوف میں جی رہیں ہیں ،
جبکہ عرب اپنی اولاد کے تعلق سے اس
خوف میں ہیں کہ ، کیرالا سے خادمہ لانے کی وجہ سے ان کے بچے ملیالم مادری زبان کی طرح بولنے لگیں گے ۔ ایک جملے میں ، سوالات سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں
ہے : میں کون ہوں ؟ اور جوابات دئے جانے میں کوئی نقصان نہیں ہے : میں ایک مسلمان ہوں ۔ لیکن اسلام صرف باطل شناخت نہیں چاہتا ، وہ ایک
آزاد ایمان ہو سکتا ہے جو لوگوں کو دنیا میں
اپنا مقام بنانے میں معاون ہو گا بلکہ اس کے ساتھ امن و سکون کا باعث بھی باعث ہو گا ۔
--------
سیف شاہین یونیور سٹی آف ٹیکساس
آسٹین میں ریسرچ اسکالر ہیں ۔
URL for English article: https://newageislam.com/islam-west/islam-identity-faith/d/6396
URL: