سیف شاہین، نیو ایج اسلام
ایک عام مسلمان خاندان کا
آپ کے ذہن میں کیا تصور ہوگا؟ خدا سے ڈرنے والا شوہر، جاہل بیوی (یا بیویاں) اور بڑی تعداد میں دروازے توڑ کر گھر سے باہر سڑکوں
پر آ رہے بچے ؟ تاہم، ایسا نہیں ہے جیسا کہ ایک عام مسلمان خاندان کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے یا آنے والے سالوں
میں ایسا نظر نہیں آئے گا۔
نئی تحقیق نے دنیا بھر میں
مسلم خواتین کی شرح پیدائش یا بچوں کی پیدائش
کی تعداد میں تاریخی اعتبار سے غیر معمولی
کمی ظاہر کی ہے، مشرق وسطی جیسے مسلم اکثریت والے ممالک میں کمی نے پہلے سے ہی انہیں
مغرب کے برابر لا کھڑا کیا ہے جہاں بزرگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایسے بھی خدشات ہیں کہ شرح پیدائش میں مزید کمی آئے گی۔
اس رجحان کے سخت منفی اثرات
سامنے ہیں۔ جیسے، اول، مسلم معاشروں میں کام
کرنے والی آبادی کی تعداد کم ہو رہی ہے، کیونکہ کم بچے پیدا ہو رہے ہیں جو ان کو ایسے
حالات کی طرف لے جا رہا ہے جیسا مغربی ممالک پہلے سامنا کر چکے ہیں۔ دوم، مغرب ممالک پہلے سے ہی تعلیم، ترقی،
اور خاندان کی آمدنی کی اعلی سطح حاصل کر چکے ہیں، اور ایشیا اور افریقہ میں زیادہ تر مسلم ممالک کی بڑی
آبادی کے ناخواندہ، پسماندہ اور خاندان کی
انتہائی کم آمدنی کے با وجود، آبادیاتی جمود کا سامنا کر رہے ہیں۔
گرتی ہوئی شرح پیدائش
2009 میں، پیو فورم آن ریلیجیئن اینڈ پبلک لائف نے مسلمانوں کی عالمی
آبادی تقریباً 1.6 ارب، یا اس وقت کی عالمی آبادی کا 23 فیصد تخمینہ لگایا تھا۔ تاہم،
ترقی یافتہ ممالک میں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے جو صرف 3 فیصد کے آس پاس ہے۔ اس
کا مطلب یہ مسلمانوں کی اکثریت دنیا کے کم ترقی یافتہ حصوں میں رہتی ہے۔
ماہر سیاسی معاشیات نیکولس
ایبراسٹیٹ اور اپوروا شاہ کی تحقیق کے مطابق مسلم ممالک میں پیدائش ،فی خاتون میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: " جنگ (دوسری عالمی جنگ) کے
بعد کی دو دہائیوں میں شرح پیدائش میں دس میں سے چھ سب
سے بڑی گراوٹ مسلم اکثریت والے ممالک میں درج
ہوئی ہے (اور آگے کے زمانے کے لئے بھی یہ مانا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ
میں ایسا ہو سکتا ہے) ۔
ان میں سے چوٹی کے چار سبھی
مسلم ممالک ہیں؟ عمان، مالدیپ، کویت اور ایران میں سے ہر ایک کو صرف 20 سال میں
4.5 پیدائش فی عورت سے بھی زیادہ کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے، 5.3 پیدائش فی عورت میں کمی کے ساتھ عمان اس میں
سر فہرست ہے۔ چوٹی کے دس دوسرے ممالک میں دو
دیگر مسلم ممالک الجزائر اور لیبیا ہیں۔
ایبر اسٹیٹ اور شاہ مزید بتاتے ہیں: "قابل ذکر ہے کہ عرب
دنیا (الجزائر، لیبیا، کویت اور عمان) میں پیدائش میں دس میں سے چار سب سے بڑی کمی
بیس سال کے عرصے میں درج ہوئی، اس میں ایران کو شامل کرنے پر ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے پانچ ' ٹاپ ٹین ' عظیم
تر مشرق وسطی میں ہوا ہے۔ دنیا کے کسی اور خطہ میں نہیں؟ اس کار کردگی کے قریب نہ تو بہت
زیادہ متحرک جنوب مشرقی ایشیانہ ہی تیزی سے
جدید ہو رہا مشرقی ایشیا آتا ہے۔
یہ کمی کیا بتاتی ہے؟ شرح
پیدائش میں بڑی کمی کو عام طور پر بڑھتی ہوئی آمدنی کی سطح، بڑھتی ہوئی
تعلیم اور حمل روکنے والی آسانی سے دستیاب دوائیوں کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ قدامت
پسند اور اکثر پسماندہ مسلم معاشروں کے لئے ان عوامل میں سے کوئی بھی درست نہیں ہیں۔
اس کے بجائے محققین مسلم معاشروں میں "مطلوبہ پیدائش کی سطح" کو شرح پیدائش میں کمی سے منسوب کرتے ہیں؟ جیسا کہ
عورتوں کی طرف سے اظہار کیا گیا۔ انہو نے تعلیم یا حمل روکنے والی دوائیوں تک رسائی کے علاوہ وہ طریقہ تلاش لیا ہے جس سے وہ بچوں کو
جنم دینے سے بچ سکتی ہیں۔
اس کمی سے مسلم ممالک میں شرح پیدائش پہلے ہی مغرب کی سطح پر آ چکا ہے۔ اقوام متحدہ
کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے محققین کا کہنا ہے کہ "مسلم اکثریت والے
21 ملکوں کی شرح پیدائش کی سطح ان دنوں امریکہ
کے صوبوں کے لیے غیر معمولی نہیں ہوگا ... یہ 21 ممالک اور خطے تقریبا 750 ملین لوگوں
کی آبادی کا احاطہ کرتے ہیں: جسے امت کی کل
آبادی کا تقریبا نصف کہا جا سکتاہے"۔
باقی کی امت ان ممالک میں رہتی ہے جو پہلے ہی سے کم شرح پیدائش کی وبا سے دو چار مانے
جاتے ہیں۔
نازائیدہ مستقبل
ایک طرف جہاں تحقیق بتاتی
ہے کہ مسلمانوں کو بیکار میں خدشہ ہے کہ وہ
آبادی میں بے تہاشہ اضافہ کر رہے ہیں اور پوری دنیا پر
عمل تولید کے ذریعہ قبضہ کرنے کی منصوبہ
بندی کر رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب اس سے پتہ
چلتا ہے کہ مسلم معاشرے تاریک اور غیر یقینی مستقبل کی طرف جا رہے ہیں۔
ایک، شرح پیدائش میں کمی ،کام
کرنے والی عمر کی آبادی میں کمی کا قبل از وقت احساس کرا رہا ہے۔ کم بچے پیدا ہو رہے
ہیں، اس لئے جو لوگ بزرگ ہو رہے یا
انتقال کر رہے ہیں ان کو منتقل کرنے کے لئے بہت کم نوجوان ہوں گے۔ اگرچہ بہت سے مسلم ممالک
آج بے روزگاری کے مسئلے سے متاثر ہیں، ہو سکتا
ہےکل انہیں اپنے ہی کھیتوں پر ہل چلانے، مشینوں کو چلانے یا معیشت کے دوسرے شعبوں میں خدمات کے لئے لوگ نہ ملیں۔
دو، یہ جمود آمدنی، تعلیم
،سماجی و اقتصادی ترقی کے بہت کم سطح والے مسلم سماج میں آ رہا ہے۔ مغربی معاشروں
میں اسی طرح کی شرح پیدائش میں کمی آ رہی
ہے لیکن وہ پہلے سے ہی تعلیم اور خاندان کی
آمدنی کی اعلی سطح سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ تکنیکی ترقی کے ساتھ یہ معاشرے اپنی آبادی
کے بزرگ ہوتے حصے سمیت اپنا خیال خود رکھنے
کے قابل ہیں۔ دوسری طرف مسلم معاشروں کو اس
سے نمٹنے کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔
جیسا کے ایبر اسٹیٹ اور شاہ
لکھتے ہیں: "مسلم اکثریت والی آبادی کی
ایک بڑی تعداد پہلے ہی بہت تیزی سے بزرگ ہونے
کی راہ پر ہے... اور یہ بزرگ امریکہ کی فی کس آمدنی کی سطح کےمتقابل صرف ایک حصہ ہی لطف اٹھا رہے ہیں، یہاں تک کہ اقتصادی
ترقی کے بارے میں پر امید مفروضات کے ساتھ بھی، معاصر او ای سی ڈی کی تعلیمی سطح یا
علمی صلاحیت والی نسل کی تو بات چھوڑئے ، یہ
تصور کرنا مشکل ہے کہ وہ کس طرح معاصر او ای سی ڈی آمدنی والی سطح کو پہنچیں گے... کس طرح یہ معاشرے
نسبتاً کم آمدنی کی سطح پر اپنی بزرگ آبادی کی ضروریات کو پورا کریں گے۔ مسلمانوں
میں، پیدائش سے متعلق انقلاب کا یہ شاید سب
سے زیادہ حیران کرنے والا اور غیر متوقع چیلنج ہو۔ "
کئی دہائیوں سے مسلم معاشرہ سیکولر تعلیم، ٹیکنالوجی کی ترقی اور
خواتین کو کام کرنے کی آزادی جیسے جدید سماجی اقدار کے امتیازات وخصوصیات پر بحث کر
ر ہاہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان، چین، برازیل جیسے کم ترقی یافتہ غیر مسلم معاشروں نے ترقی کے
ان "مغربی" طریقوں کو اپنایا ہے اور ترقی کی ہے اور مسلم معاشرہ انگریزی پڑھنا، کمپیوٹر پر کام کرنا اور عورتوں کو دفتر جانے دینا، اسلامی ہے یا نہیں، اس نہ ختم ہونے والی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے، وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
سیف شاہین، آسٹن، میں
واقع ٹیکساس یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ وہ نیو ایج اسلام کے لئے باقاعدگی سے
کالم لکھتے ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-society/saif-shahin,-new-age-islam/falling-muslim-fertility-rates-raise-grave-concerns/d/7659
URL: