سیف شاہین ، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام
تلاش ہے ہندوستانی مسلمانوں
کے لئے ایک رہنما کی۔ یہ اشتہار حالانکہ ابھی تک کسی اخبار میں شائع نہیں ہوا ہے ،
لیکن اسے آپ ان بہت سے مسلمانوں کی بات چیت میں پڑھ سکتے ہیں جو اپنے معاشرے میں ان
حالات سے دو چار ہوچکے ہیں۔ بظاہر خود کے سیکولر ہونے کا اعتراف کرنے والے غیر مسلم
بھی مسلمانوں کی غربت،ناخواندگی،مذہبی قدامت پسندی اور عام مسلمانوں کے اختیارات سے
محرومی پر رنج کا اظہار کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ’قیادت ضروری ہے اور کسی
بھی سماج میں رہنما ہونا ضروری ہے۔
یہ سچ ہے: ہندوستانی مسلمانوں
کو کبھی خاص رہنما نہیں ملا۔دلت اپنے جگ جیون رام اور مایا وتی پر، یادو اور کرمی اپنے
لالو اور نیتیش پر اترا سکتے ہیں۔دراوڈ لوگ انّا دورئی کا پوسٹر اپنی دیواروں پر لگا
سکتے ہیں،مراٹھا لوگ پوار اور ٹھاکرے پر دکھاوا کر سکتے ہیں اور یہاں تک کہ قبائلی
طبقے جو بہت زیادہ متحد نہیں ہیں لیکن سورین اور منڈا کی قسمیں کھا سکتے ہیں لیکن کوئی
بھی مسلم لیڈر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے اور نہ کیا ہے کہ تمام مسلمان اس کے پیچھے
ہیں۔
اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ
کوئی مسلمان سیاست داں نہیں ہے۔مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے والی تما م
سیاسی پارٹیوں میں مسلمان ہیں جیسے، کانگریس میں سلمان خورشید اور غلام نبی آزاد، بی
جے پی میں شاہنواز حسین اور سماجوادی پارٹی میں اعظم خان وغیرہ اور یہ فہرست کافی لمبی
بھی ہے۔ ایسی بھی سیاسی جماعتیں ہیں جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں جن میں انڈین
یونین مسلم لیگ،مجلس اتحاد المسلمین اور بدرالدین اجمل کی قیادت والی آل انڈیا ڈیموکریٹک
فرنٹ شامل ہیں۔
لیکن مندرجہ بالا میں ذکر
کئے گئے کسی لیڈر کو مسلمانوں کی عام حمایت حاصل نہیں رہی اور نام نہاد مسلم جماعتوں
کا بھی اثرصرف کچھ انتخابی حلقوں تک ہی محدودرہا ہے۔ مسلمانوں پر وسیع تر سیاسی اثر
و رسوخ حاصل کرنے کے لئے مذہبی لیڈر جیسے جامع مسجد دہلی کے امام اور تنظیم جیسے جماعت
اسلامی اس سلسلے میں کوشش کر چکے ہیں اور ناکا م رہے ہیں۔
اس فرقے میں ایسی کیا کمی
ہے جو یہ اپنا ایک مہذبی سیاسی رہنما نہیں پیدا کر سکی ہے۔مبصرین نے اکثر اس کے لئے
ہندوستانی مسلمانوں کے جغرافیائی پھیلاؤ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حالانکہ مسلمان مجموعی
آبادی کا چھٹا حصہ ہیں لیکن یہ سبھی ریاستوں اور یونین ٹیریٹری(Union
Territory) میں
پھیلے ہوئے ہیں اور یہاں تک کہ ہر ایک انتخابی حلقہ اور پولیس اسٹیشن تک پھیلے ہوئے
ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہر جگہ وہ لوگ کامیاب ہونے والے امیدوارکوووٹ
دیتے ہیں جبکہ کچھ ہی ایسے حلقے ہیں جہاں وہ نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں۔ماہرین کا
کہنا ہے کہ حالات کسی مسلمان کے طاقتور لیڈر بننے کے موافق نہیں ہے۔
کیا ایسا ہے؟ بے اثر جمہوریت
صرف مسلمانوں کے لئے مصیبت نہیں ہے بلکہ اس سے دوسری برادریاں بھی متاثر رہی ہیں اس
کے باوجود انہوں نے بااثر رہنماؤں کو پیدا کیا ہے۔مثال کے طور پر دلتوں کی آبادی مسلمانوں
کے مقابلے زیادہ معمولی ہے جومسلمانوں کی13.4 فیصد(2001کی مردم شماری) کے مقابلے ملک
مجموعی آبادہ کا 15فیصد ہیں۔وہ بھی مسلمانوں کی طرح پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔دونوں
فرقوں کی اتر پردیش میں آبادی اوسط سے اوپر ہے، مسلمان18.5فیصد ہیں جبکہ دلت تھوڑا
زیادہ21.1فیصد ہیں لیکن مایاوتی کے جیسا کوئی مسلمان لیڈر اس ریاست سے نہیں ابھر سکا۔ملک
گیر سطح کی حمایت کی بات تو چھوڑ دیجئے اتر پردیش کا کوئی بھی مسلم لیڈر یہ دعویٰ نہیں
کر سکتا کہ پوری ریاست کے مسلمان اس کے ساتھ ہیں۔مسلمانوں کاکوئ رہنما نہ کے ہونے کے
پیچھے ذات برادری کو ایک وجہ بتایا جاتا ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ مسلمانوں کی بڑی آبادی
سنّی ہے اور شیعہ بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں، اس کے باوجود لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ لیکن
مسلمان ہی وہ فرقہ نہیں ہے جو تفرقہ کا شکار ہے بلکہ ہندوستان میں ہر ایک طبقہ فرقہ
واریت، علاقائیت اور ذات برادری کی پھوٹ سے دوچار ہے۔اگرذات برادری ہی مسئلہ ہے تو
کم سے کم مسلمان لیڈر کی جگہ سنی لیڈر‘ یا ’ شیعہ لیڈر‘ تو پیدا ہونا چاہئے تھا، لیکن
ایسا بھی نہیں ہوا۔
ہندوستان میں مسلم قیادت کی
کمی غیر واضح حقیقت کوہی ظاہر کرتا ہے۔ہندوستانی مسلمانوں میں سیاسی بیداری نہیں ہے
دوسرے الفاظ میں’اس ملک میں مسلمان ایک مضبوط سیاسی شناخت نہیں رکھتے ہیں۔
منتشر ،متّحد نہیں
یہ دعوہ عام فہم سے باہرکی
بات ہے۔ مذہبی بنیادوں پر ملک کے تقسیم ہونے کے بعدہندوستان نے دیکھا ہے کہ اس کی سیاست
سیکو لرزم اور فرقہ پرست کی بنیادوں پر بنٹ گئی جس میں مسلمانوں کے تعیں پالیسی طے
کرتی ہے کہ کون سی پارٹی کس جانب ہے۔’فرقہ پرست پارٹی‘ جن سنگھ اور بی جے پی نے مبیّنہ
مسلم مخالف ایجنڈہ کو آگے بڑھایا ہے۔ ایک سکولر جماعت کی تعریف اس کاغیر مذہبی ہونا
نہیں بلکہ مسلم نوازی ہے۔ہندوستانی جمہوری سیاست کا مرکز ہونے کے باجود مسلمان اپنا
ایک بڑا سیاسی رہنما پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
سیاسی فرقوں میں دوخصوصیات
ہونی چاہئے ،ان میںآپس میں اندرونی اتحاد ہونے کے ساتھ ہی انہیں دوسروں سے خود کو الگ
بھی سمجھنا چاہئے ۔ایک سیاسی فرقے کے اراکین کو آپس میں متحد ہونا چاہئے ،ساتھ ہی ساتھ
خود کے عقیدے اور فکر کوہر ایک سے الگ تصور کرنا چاہئے۔ایسے لوگ جن سے وہ اپنے کو جڑا
ہوا پاتا ہے،جو ہم خیال ہیں اور اس کے فکر کاجواب دے پایءں ،ان سوالوں کے جواب تلاش
کریں تووہ اپنی صفوں میں خود لیڈر کا انتخاب کر پائیں گے۔
مسلمانوں میں قیادت کی کمی
بتاتی ہے کہ سیکولرزم اور فرقہ واریت کی تمام باتوں کے باوجود وہ خود کو دوسرے ہندوستانیوں
سے الگ تصور نہیں کرتے ہیں۔وہ مسلمانوں کے مقابلے اپنے ہم عصر غیر مسلمانوں کے ساتھ
خود کو آسانی سے جوڑ کر دیکھ پاتے ہیں، اور اپنی فکر میں بھی ان کو حصہ دار پاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بطور مسلمان بھی انکی کچھ خدشات اور شکایتیں ہیں لیکن وہ اس قدر شدید
نہیں ہیں کہ مسلمانوں کو سیاسی اعتبار سے خود کی جانب موڑ سکیں۔
اس لئے وہ غیر مسلم لیڈروں
اور سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دے کر ایسے خوش ہیں جیسے کہ وہ خود کے لئے ووٹ دے رہے ہوں۔مسلم
ووٹوں کا فائدہ حاصل کرنے والوں میں اعلیٰ ذات کے غلبے والی کانگریس اور بی جے پی(ہاں
بی جے پی بھی) اور پسماندہ ذاتوں کے غلبے والی جنتا پارٹی اور اس سے الگ ہوکر بنی(جنتا
دل،راشٹریہ جنتا دل،جنتا دل یونائیٹیڈ،سمتا پارٹی،سماجوادی پارٹی وغیرہ) سے لے کر دلتوں
کے غلبے والی بہوجن سماج پارٹی اور خدا کو نہ ماننے والے کمیونسٹ بھی شامل ہیں۔
مسلمانوں میں قیادت کا فقدان
بتاتا ہے کہ وہ باقی ملک کے ساتھ زیادہ ملے جلے ہیں بنسبت ان کے بارے میں جیسا کہ فرض
کیا جاتا ہے ۔جغرافیائی پھیلاؤ اسکے قیادت کے فقدان کی وجہ نہیں ہے بلکہ اس کے ہندوستان
میں انضمام کی علامت ہے۔
شکریہ، لیکن اس کی ضرورت نہیں
مسلم قیادت کا فقدان ملت کے
لئے اچھا ہے یا برا؟ ایک نظریاتی امکان ہمیشہ رہتا ہے کہ اپنے اندر سے ہی پیدا ہوئی
سیاسی قیادت عوام کو زیادہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور انہیں ان غلطیوں کو پہچاننے اور
بچنے میں مدد کر سکتے ہیں جن میں وہ اکثر الجھ جاتے ہیں۔مثال کے طور پر دوراندیش مسلم
لیڈر مسلمانوں کو بتا سکتے ہیں کہ مذہبی تقلید پسندی سے بچنا، جدید تعلیم حاصل کرنے
اور قوم کی خوشحالی کے لئے کام کرنا اہم ہے، نہ کہ پڑے رہنا اور دوسروں کو امتیازی
سلوک کے لئے ذمہ دار ٹھہراتے رہنا۔
لیکن یہ عملی طور پر کبھی
کبھار ہی ہوتا ہے۔ایسے سیاسی لیڈر جو اپنے فرقے خاص طور سے اقلیتوں کی حقیقی یا محسوس
کی گئی شکایتوں کو اٹھاتے ہیں، شروعات میں وہ اپنے ذہن میں فرقے کے خدشات وفکر کو رکھتے
ہیں لیکن جیسے ہی وہ قیادت حاصل کرتے ہیں وہ ان خدشات یا فکر کو دور نہیں کرنا چاہتے
ہیں۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ جن بنیادوں پر رہنما بنتے ہیں وہ بھی جاتا رہتا ہے۔
ایک لیڈر ہونے کے ناطے آسانی
سے انکا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں سیاسی لیڈرشکایتیں بنانے، مصنوعی خدشات پیدا کرنے
کو اپنے حق میں پاتے ہیں اور اپنے فرقے کی سیاسی شناخت کا سہارا لیکر مسلمانوں اور
دوسروں کے درمیان رکاوٹیں حائل کرتے ہیں اسی کا، قیادت پر اپنی دعوے داری کو بھی بنائے
رکھنے کے لئے، سہارا لیتے ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں نے ایسی
کئی کوششوں کا تجربہ کر لیا ہے۔مذہبی رہنماؤں نے جدید تعلیم کی برائی خصوصی طور پر
خواتین کے لئے ، پر کافی بول چکے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کو ہندوستان کے باقی سماجوں
سے الگ کر کے رکھا ہے۔ فرقے کے اندر اور باہر کے لیڈران نے مسلمانوں کے ساتھ منظم امتیازی
سلوک پران کے کان بھرے ہیں اور فرقہ پرست جماعتوں کے خطرے کے خلاف بھی خبردار کیاہے۔
کبھی کبھی اس طرح کی کوششیں
کامیاب ہوئی ہیں جو خوف پیدا کرنے اور ایک دوسرے کے بیچ دیوار کھڑی کرنے والی ہیں۔
اسی لئے کچھ مسلمانوں نے گندی بستیوں میں رہنے کا انتخاب کیا ہے اور اپنے بچوں کو مدرسہ
میں تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں۔لیکن زیادہ تر یہ کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اسی لئے مسلمانوں
کا بڑ ا حصّہ ہندوستان کے شہروں، قصبوں اور گاؤں میں پھیلا ہوا ہے اور ایسے گھل مل
گیا ہے جیسے پانی میں شکر۔ اسی لئے نہ تو انکا کوئی مسلم لیڈر اور نہ ہی انکو چاہئے۔
(انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرالرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-politics/do-indian-muslims-need-a-leader?-/d/5496
URL: