سیف شاہین، نیو ایج اسلام
2جولائی، 2012
القاعدہ کے نئے رہنما ایمن
الظواہری نے علاقائی اسلامی دہشت گرد گروپوں کے ساتھ گہرے، براہ راست اور عوامی تعلقات بنانا شروع کر دیا ہے۔
اس حکمت عملی کو ان کے پیشرو اسامہ بن لادن
کی منظوری نہیں حاصل تھی۔
فروری میں، صومالیہ کے عسکریت
پسند گروپ الشباب القاعدہ کے ساتھ اپنے انضمام کا اعلان کر چکا ہے۔ دونوں گروہوں نے
ایک مشترکہ ویڈیو جاری کیا جس میں الشباب رہنما مختار ابو زبیر نے الظواہری کی "اطاعت کا وعدہ" کیا اور الظواہری نے کہا کہ یہ قدم القاعدہ کے لئے "اچھی خبر" ہے۔
جون کے آخری ہفتے میں ،رپورٹ
کے مطابق ، اسلامی مغرب (AQIM) القاعدہ اور الشباب
نے دوسری افریقی اسلامی تنظیم، بوکو حرام کے
ساتھ بہتر ربط قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔ جبکہ
الشباب صومالیہ اور کینیا میں بنیادی طور پر فعال ہے، AQIM الجیریا، مالی، موریطانیہ اور نائجر میں اور شمالی نائیجیریا میں بوکو حرام سرگرم ہے۔
مئی، 2011 میں ایبٹ آباد،
پاکستان، کے ایک گھرکے احاطے میں امریکی افواج کے ذریعہ اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد طویل وقت تک ان کے نائب رہے الظواہری کے، دنیا کی
سب سے بدنام دہشت گرد تنظیم کے سربراہ بن جانے کے بعد یہ اقدام اٹھائے گئے ہیں۔
لیکن بن لادن کے احاطے میں دریافت
بن لادن، الظواہری اور القاعدہ اور اس سے "ملحق" لوگوں کے درمیان ہوئی خط و کتابت ،جسے حال ہی میں منظر عام
لایا گیا ، میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسامہ بن لادن الشباب سمیت بہت سے علاقائی جہادی
گروپوں سے مایوس تھا اور ان سے دوری بنائے رکھنا چاہتا تھا۔
شدید اختلافات
خط سے پتہ چلتا ہے کہ دوسرے
گروپوں کے ساتھ اتحاد کے معاملے پر نام نہاد القاعدہ سینٹرل (AQC) کے اندر شدید اختلافات
تھے۔ 7 اگست 2010 کو ہوئی ایک خط و کتابت میں الشباب کے سربراہ کے ذریعہ باقاعدہ انضمام کی درخواست کا جواب ہے۔ اسامہ بن لادن نے ابو زبیر کی درخواست یہ کہتے ہوئے
ردّ کی کہ "یہ ان کے لئے [ الشباب کے
ارکان] کہنا بہتر ہوگا کہ
ان کے القاعدہ کے ساتھ اسلامی بھائی چارہ کا تعلق ہے اور اس سے زیادہ کچھ بھی
نہیں ہے.......۔ " اس نے ابو زبیر کو لکھے خط میں اس بات پر
زور دیا کہ جب وہ حفاظتی عملوں پر حملہ کر رہے ہوں تب کوشش کریں کہ
" مسلمانوں کو نقصان کم سے کم ہو " اور صومالیہ کو ایک اسلامی امارات کا اعلان کرنے کے خلاف اسے صلاح دی تھی۔
دسمبر 2010 کو القاعدہ کے ایک نامعلوم سینئر شخصیت کی طرف سے لکھے خط میں
الشباب پر اسامہ بن لادن کے رخ کی تنقید کی گئی تھی۔ اس خط میں لکھا ہے، "میں
اسے القاعدہ کے لئے بہت ضروری مانتا ہوں کہ وہ اپنی شاخوں کے ساتھ تعلق کی تصدیق اور
اس کا اعلان کرے، اسے حقیقت سے انکار کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لہذا،
برائے مہربانی صومالیہ کے بھائیوں کے الحاق کے اعلان پر اپنی رائے پر نظر ثانی کریں ... " اسامہ بن
لادن کی اس طرح کی براہ راست مذمت خلاف قیاس ہے کہ وہ الظواہری کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف سے کی گئی ہوگی۔ الظواہری نے فروری میں ابو زبیر کے ساتھ انضمام
کا اعلان کیا تھا۔
لیکن مسئلہ الشباب تک ہی محدود نہیں تھا۔ مجموعی طور پر ان دو خطوط سمیت
17 دستاویزات ظاہر کرتے ہیں کہ بن لادن علاقائی اسلامی تنظیموں جیسے عراق میں القاعدہ (AQI)، جزیرہ نما عرب میں AQAP اور تحریک طالبان، پاکستان (TTP) کی سرگرمیوں سے خوش نہیں تھا۔ محمود حسن عطیا جیسے ان کے نزدیکی ساتھی اور ترجمان آدم غدن اور
وہ خود خاص طور سے ان کے حملوں کے سسب ہونے
والے بڑی تعداد میں مسلمانوں
(اور کبھی کبھی غیر مسلمانوں) کے جانی نقصانات کے نتیجے میں انتہا پسند عوام
کی ہمدردی کھو رہے تھے، وہ لوگ اس سے پریشان تھے۔
اس وقت ابو مصعب الزرقاوی کی قیادت میں AQI سب سے پہلا "علاقائی گروپ" تھا جسے باقاعدہ
طور پر 2004 میں القاعدہ میں شامل کیا گیا
تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب القاعدہ افغانستان میں طالبان حکومت کے زوال کے بعد خود کو بچاتا پھر رہا تھا اور ایک نئی بنیاد اور
حمایت کی اسے اشد ضرورت تھی۔ تاہم خطوط ظاہر کرتے ہیں کہ اسامہ بن لادن نے بعد
میں AQI کے اندھا دھند قتل کو ایک بوجھ سمجھا اور دوسرے گروپوں
کو مشورہ دیا کہ وہ اس کی غلطیوں کو نہ دہرائیں۔
تین نقطہ نظر
غدن جنوری 2011 کے خط میں
کہتا ہے کہ بغداد میں کیتھولک چرچ پر حملے کے بعد
القاعدہ کو خود AQI سے واضح طور
الگ ہو جانا چاہیئے۔ یہ حملہ مشرق وسطی
کے کیتھولک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ ان کے اختلاف کے اعلان کے بعد ہوا تھا جس نے ایک طرح سے یہودیوں اور ان کے اتحادیوں کو ناراض کر دیا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس طرح کے عمل لوگوں کی ہمدردی
حاصل کرنے میں مدد نہیں کرتا ہے۔ اسی خط میں
انہوں نے "شیخ ایمن" (الظواہری)
کی سیاسی سمجھ پر بھی شدید تنقید کی ہے۔
ایک دوسرے خط میں، ایک نامعلوم
لکھنے والے نے ( شاید بن لادن خود یا عطیا)
نے AQAP کے رہنما ابو بصیر سے یمن میں قیام امن کو برقرار
رکھنے اور اسے ایک اسلامی امارات اعلان نہ کرنے
پر زور دیا۔ "ہم یمن میں خود کو
اور اپنے خاندان کو پریشان نہیں کرنا چاہتے ہیں ... منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور کامیاب
ہونے کے لئے ہم منظم ہو نا ہوگا،کیونکہ اگر ہم ناکام ہوئے تو لوگ دوبارہ ہماری مدد
نہیں کریں گے۔ یمن کو پرامن ہونا چاہےٗاور اسے امت کے لیے مختص فوجی کے طور پر رکھا
جانا چاہےٗ... " خط لکھنے والے نے ابو بصیر سے اس کے بدلے میں امریکہ پر حملہ کرنے پر اپنی توجہہ
مرکوز کرنے پر زور دیا تھا۔
دسمبر 2010 میں، عطیا اور اور ابو یحیی لیبی نے ٹی ٹی پی چیف حکیم اللہ محسود
کو خط لکھا، جس میں ان کے گروپ کی حکمت عملی
اور نظریہ اور خاص طور پر مسلم شہریوں کے قتل اور
اغوا کرنے اور ساتھ ہی ساتھ محسود کے
ذاتی طرز عمل پر تنبیہ کی تھی۔ انہوں نے کہا
کہ یہ اس خطے میں دوسرے اسلامی گروپوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور اگر محسود نے ان کے مشورہ پر فوری طور پر توجہ نہیں دی اور اپنا طرز عمل نہیں
بدلا تو وہ "براہ راست اقدام" کرنے کی بھی دھمکی
دی گٗی تھی۔
خطوط میں القاعدہ سے جڑے گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر اس
کے اندر تین اقسام کی رائے کی عکاسی ہوتی ہے۔
مثلا غدن اور ممکنہ طور پر عطیا کے جیسے کچھ
لیڈران چاہتے تھے کہ القاعدہ عوامی طور پر ان
جہادی گروپوں کے سے خود کو الگ کرے۔ ان لوگوں کو خوف تھا کہ ان گروپوں کے
"غیر ذمہ دارانہ" اعمال سے عام مسلمانوں کے ساتھ القاعدہ کے تعلق کو نقصان
پہنچے گا۔ الظواہری کے جیسے دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ القاعدہ کو باضابطہ طور پر
ان اتحادیوں یا علاقائی گروپوں کے ساتھ انضمام
سے طاقت ملی تھی۔ اسامہ بن لادن واضح طور پر
غدن اور عطیا کے نقطہ نظر کے قریب تھا اور
ان گروہوں کو القاعدہ سے دور رکھنا چاہتا تھا، لیکن وہ ان لوگوں کے ساتھ تمام رشتوں
کو توڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔
2010 میں عطیا کو لکھے کئی خطوط میں بن لادن نے "کئی غلطیوں پر" افسوس کا اظہار کیا تھا جب جنگ بڑھ گئی تھی اور
مجاہدین کئی علاقوں میں پھیل گئے تھے [جیسا کہ] کچھ بھائیوں کو ہمارے مقامی دشمنوں
کے خلاف جنگ میں مکمل طور پر لگ جانا پڑا تھا"۔ انہیں اپنے معیار کے مطابق واپس
لانے کے لئے اس نے عطیا کو ایک میورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ تیار کرنے کے لئے کہا تاکہ
علاقائی گروپ حملہ کرنے سے قبل القاعدہ کی مرکزی قیادت سے مشورہ کریں۔
اسامہ بن لادن بمقابلہ الظواہری
اسامہ بن لادن کے خدشات دو
رخی تھے، جسے اس نے ابو بصیر کو لکھے خط میں
ظاہر کیا تھا۔ ایک، وہ القاعدہ اور
تمام جہادی گروپوں سے چاہتا تھا کہ وہ اپنے داخلی دشمن سے پہلے
بیرونی بڑے دشمن پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ اگرچہ
داخلی دشمن زیادہ بڑا منکر سمجھا جاتا ہے،
بیرونی دشمن واضح طور پر منکر کے طور پر بیان
کیا جاتا ہے اور یہ ہماری زندگی کے اس مرحلے میں زیادہ خطرناک ہے۔ امریکہ منکروں کا
سربراہ ہے۔ "
دو، وہ القاعدہ اور اس سے جڑے گروپوں کے اعمال کی میڈیا کوریج کا بے حد شوقین تھا، اور چاہتا تھا کہ تمام علاقائی
گروپ کی طرف سے میڈیا کو جاری ریلیز میں اس کی مرکزیت ہو۔ اپنے ساتھیوں کو لکھے تقریبا ہر خط میں اسامہ بن
لادن نے "جنگ" میں میڈیا کے کردار اور
اپنے اقدامات کو اس طرح سے پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیتا تھا کہ جس سے اسے عام مسلمانوں کی منظوری حاصل ہو۔
ابو بصیر کو لکھے خط میں وہ
کہتا ہے کہ، "ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ اس
جنگ کا ایک بڑا حصہ میڈیا ہے اور دور جہالت کے ہجائی شاعروں کے مقابلے
کیبل چینلز آج ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر کیبل چینل کسی مخصوص شخص کو
فروغ دینے پر توجہ مرکوز کریں تو وہ کامیاب
ہوتے ہیں، اور اس کا برعکس بھی صحیح ہے۔ اگر یہ چینلز نہیں چاہتے کہ کوئی شخص کامیاب ہو تو وہ
اسے برباد کر دیں گے ... "
واضح طور پر اسامہ بن لادن
کو انسانی زندگی (یا مسلم) سے کوئی حقیقی لگاوٗ نہیں تھی بلکہ وہ عام مسلمانوں کے درمیان
اس کے جہاد کی سمت اور اپنی شبیح اور اپنی وراثت کو لے کر زیادہ فکر مند تھا۔ عطیا کو لکھے ایک خط میں
وہ لکھتا ہے کہ : "وہ جو اپنی تاریخ کو
خودمقبول نہیں بناتے ہیں غلط سوچتےہیں
کہ میڈیا اور تاریخ نویس ان کیلےٗ اپنے معلومات
پر ہا ان کے پاس جو بھی معلومات ہیں کہ بنا
پر ان کیلےٗ تاریخ تعمیر کریں گے۔
الظواہری اپنے مشن اور اس
کے ترغیب دونوں سے اختلاف رکھتا تھا۔ اپنے
پیش رو کے مقابلے اس کے لئے، "اندرونی
دشمن سے نمٹنا زیادہ اہم تھا۔ کبھی اخوان المسلمون
کا رکن رہا الظواہری اکثر اپنے سابق ساتھیوں
پر انتخابات میں حصہ لینے اور اپنی اسلامی ساکھ کو کمزور کرنے کے لئے شدید تنقید کرتا
ہے۔ وہ اسامہ بن لادن کے مقابلے میں اسلامی
قانون کے تئیں زیادہ سخت رخ رکھتا ہے، جیسا کہ الشباب کی زیادتیوں کے باوجود اس کی حمایت سے پتہ چلتا
ہے۔
الظواہری کی قیادت میں القاعدہ
اور علاقائی جہادی تنظیموں کے درمیان تعلقات کے مزید گہرے اور زیادہ عوامی ہونے کے امکان ہیں۔ یہ اتحاد ایشیاٗ اور افریقہ کے ان ممالک کو نشانہ بنائے گا جو پہلے سے ہی اندرونی
تنازعہ سے ٹوٹے ہوئے ہیں اور ان کی سیکورٹی
فورسز کمزور ہیں۔ ایسے ممالک جہاں عرب اسپرنگ نے حکومتی نظام کو اکھاڑ پھینکا ہے
یا کمزور کر دیا ہے خاص طور سے نشانہ
پر ہوں گے۔ اور دہشت گرد پہلے کے مقابلے اور
بھی بے پروائی سے مسلمانوں سمیت دیگر انسانوں کے خون بہائیں گے۔
سیف شاہین، آسٹن، میں
واقع ٹیکساس یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ وہ نیو ایج اسلام کے لئے باقاعدگی سے
کالم لکھتے ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam,terrorism-and-jihad/saif-shahin,-new-age-islam/al-qaeda-changing-global-strategy-under-zawahiri/d/7807
URL: