New Age Islam
Sun Mar 26 2023, 02:58 AM

Urdu Section ( 3 Jan 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What Should Islamic Reformation Look Like? اسلامی اصلاح کس طرح دکھنا چاہئے ؟

سیف شاہین ، نیو ایج اسلام

 18دسمبر 2012

(انگریزی سے ترجمہ  ۔  مصباح الہدیٰ  ،  نیو ایج اسلام)

 آج بہت سے مسلمان اپنے عقیدے کو  کچھ خاص  اقدار مثلاً  مذہبی رواداری، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، جمہوریت، مذہب اور سیاست کی علیحدگی ، سائنسی طبیعت  وغیرہ میں دور جدید کے معیار سے  قریب کرنے کے لئے  مذہبی اصلاحات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں  ۔ گزشتہ دو  دہائیوں میں  دہشت گردی کے فروغ اور  مٹھی بھر   انتہا پسندوں کے ذریعہ اسلام کی غلط تشریح نے  اس خواہش کو قطعی طور پر سر نگوں کر دیا ہے ، خاص طور پر مغرب میں  مسلمانوں کے درمیان اور مسلم ممالک میں  تعلیم  یافتہ  طبقوں کو درمیان ۔

لیکن اس خوہش کی کوئی نئی بنیاد نہیں ہے ۔انیسویں صدی میں   اور بیسویں  صدی کے آغاز  میں تحریک النہضہ کی نشأۃ ثانیہ کے دوران جسے کم ہی تاد کیا جاتا ہے  مسلم دانشوروں کی ایک بڑی تعداد مسلم ثقافت ، سیاست اور سماج  میں یورپی اقدار کو منضم کر نے کے مشتاق  تھے  ۔  اس وقت ایک سوال تھا ، اور ابھی بھی باقی ہے : یہ اصلاح کس طرح  دکھنا چاہئے  ؟

ابتدائی مصلح مثلاً ‘رفاع التحتاوی  ’  نے جدیدیت اور یوروپ کو ہم معنیٰ سمجھا : ان کے مطابق   جدت پسند  اور  ہر ممکن صورت میں یوروپین  بننے کے لئے  اپنے  روایتی طرز زندگی  کے طریقے کو ترک کر دینا  انتہائی اہم تھا ۔ اس کے بالمقابل جمال الدین افغانی نے اسلام سے متأثر اصلاح پر  اصرار  کیا ۔  ان کے مطابق اسلامی تعلیمات کی تشکیل جدت کے بنیادی صول کے ساتھ ہوئی ہے ، اسی لئے مسلم معاشرے کی تجدید کے ضروری ہوتے  ہوئے ، انہوں نے  ایسا کرنے کے لئے  اسلام کو چھوڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔

النہضہ کا خاتمہ  بیسویں صدی کے درمیان عرب قوم پرستی تحریک میں صرف  فوجی مطلق العنان  کے دبائے جانے   ،  طنزیہ طور پر ایک اشارے پر  جدید یوروپین اقوام کے  رحم و کرم پر  ہوا  ( قوم پرستی  ، یہ یاد ہونا چاہئے  ، یہ خود ایک  جدید یوروپین منصوبہ ہے  ) ۔  اس تبدیلی نے  بیسویں صدی کے آخر  میں بے شمار جنگجو اور  غیر جنگجو اسلامی تحریکات کو جنم دیا ہے ۔

اصلاح کے تازہ نقطہ نظر 

لیکن تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔ ان تحریکوں کی درندگی اور نظریاتی مفلسی  کی سیاسی  طور پر  بری ناکامی  کو  ، اس تحریک کے اندر اور وسیع  مسلم  معاشرے میں اصلاح   کانام دینے پر  قوت صرف کیا ہے۔جو مسلمان خود کو معتدل ، آزادخیال   اور ترقی پسند تصور کرتے ہیں ، اور جدید دنیا سے زیادہ ہم آہنگی رکھتے ہیں ، ان کا بڑھتا ہوا حس اس قدر  پست ہو  چکا ہے کہ وہ مغرب کے عیسائیوں کو نا پسند کرتے ہیں  ، اسلامی دنیا کی اصلاح کبھی نہیں کی گئی ، اور وہ اس کمی کو اس قدر  قصور وار ٹھہراتے ہیں یہ مسلم  معاشروں  میں غلط ہے ۔

  لیکن عبدہ کی موت کے ایک صدی بعد اس بات پر کہ اصلاح کا مطلب کیاہونا چاہئے  ایک مختصر معاہدہ ظہور پذیر ہوا ، صرف عوام الناس کے درمیں ہی نہیں بلکہ علماء کے درمیان بھی ۔ وہ لوگ جو اصلاح کی ضرورت کی بات کرتے ہیں  وہ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ  قائم شدہ علم فقہ کے مدارس دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے یا تو ناکافی ہیں  ، یا  گمراہ کن ہیں  یا اسلام کی حقیقت کے بر خلاف ہیں  ۔ ان میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے مذہبی قانون کو دور جدید کے حقائق کی روشنی میں دوبارہ پیش کرنے کی ضرورت ہے ، تب  جا  کر  مذہب اس معنیٰ میں معنویت کا حامل ہوتا ہے جو آج کے دور میں مسلمانوں  کے لئے موزوں ہے ۔

طارق  رمضان نے اس نقطہ نظر کو  ‘‘ موافق ہونے والی اصلاح  ’’ کا  ایسا  نام  دیا ہے جسکا مقصد  مسلم معاشرے کو دور جدید سے ہم آہنگ کرنے میں سہولت فراہم کرنا ہے ۔جب کہ خود ان کا سوچنا ہے کہ اس قسم کی اصلاح  کافی نہیں ہوگی ۔   وہ ایسے ‘‘قابل تغیر اصلاح ’’ کے لئے  دلیل دیتے  ہیں کہ  وہ اسلامی قوانین کے مصادر کو بدل دیگا اور ایسی مثال پیش کرتے ہیں گو کہ وہ آج مقبول ہوں ۔وہ صدیوں پرانے اس  مذہب سے جمود کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کو اس کے اصلی ، معقولی اور روحانی اقدار  کے ساتھ  ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں ۔ اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ سائنسداں اور سماجی سائنسداں اس عمل کا حصہ بنیں ۔اسلامی ادب کے  ان اقدار کو گھٹانے کے لئے جو  قوانین اور معیار  کے استنباط میں حدیث سے  مثالی  مو افقت  رکھتے ہیں ، دوسرے علماء  نے بھی ان پر  بنیادی طور پر دوبارہ نظر  ثانی کرنے کے لئے دلائل پیش کئے ہیں ، اور قرآن  کے ان حصوں کی  بھی نشان دہی کرنے کے لئے جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ اب زمانے کے مطابق نہیں رہے ۔

 موفق ہونے والے اور قابل تغیر دونوں اصلاحات ، مسلم دنیا میں یوروپین اصلاحات کو دوبارہ متعارف کرانے کے ان کے مقصد سے دور ہیں ، اور وہ اسی طرح ہیں جیسے کہ خاص معاملات میں عام نظریہ اختیار  کرنا ۔ اور یہ اس لئے ہے کیونکہ  یوروپی اصلاح نے  حقوق انسانی کے جدید اقدار ، جمہوریت اور سائنسی خصلت کو  دماغ میں نہیں اتارا  ۔ یہ اقدار بعد میں ظہور پذیر ہوئے ، جیسا کہ خود  یوروپیوں کے لئے ایک بڑی تبدیلی کے سماجی  اور نفسیاتی  نتائج  خود مذہب کے معنیٰ میں ظاہر ہوئے ۔

یوروپ میں اصلاحات کی مذہبی تشریح  سیکولرازم   کے دور کا آغاز تھا ۔  سیکولرازم کو اکثر  ناخدا ترسی یا خدا ترسی کا مخالف بھی سمجھا جاتا ہے ۔ یوروپی  معاشرے میں  اصلاح سے پہلے سائنس کو  ہی فرض کیا جاتا تھا ۔ لیکن یہ موصول حکمت غلط ہے۔ عام لوگوں کی کوئی بات نہیں ، یوروپ کا ہر بڑا سائنسداں اور فلسفی ، گیلیلیو سے لے کر  آئنسٹائن تک ، سبھی  خدا میں یقین رکھتے تھے ۔

سیکولرازم کا کیا مطلب ہے

مذہبی فلسفی ہونے کی حیثیت سے چارلس ٹیلر  نے از راہ ترغیب سیکولرازم  پر یہ دلیل قائم کی کہ سیکولر کا مطلب خدا کی موت نہیں ہوتا ۔  بلکہ اس کا مطلب اس بات سے ہوتا ہے کہ کس طرح لوگ خدا کو سمجھنا  اور دوسرے مذہبی نظریات کو سمجھنا شروع کرتے ہیں ، وہ خدا جو وجود خارجی کا حامل تھا اور اس زمین اور دنیا کے دوسرے حصوں پر حکومت کیا ، وجود داخلی سے متصف ہو گیا  بنی نوع انسانی کے اندر گھر کر کے ۔ جنت اور جہنم  کے ایسے مقامات  ہونے سے جہاں  موت کے بعد روحیں جائیں گی ، جو لوگوں نے نے اپنی  روزانہ کی زندگی میں  کیا اس کے مطابق   شادمانی یا آزردگی کی جگہ بن جائیں گے ۔ خدائی اس قدر ماورائے عقل نہیں تھی ؛  اس کے بجائے وہ  وجود کے جسمانی کرہ میں  ذات  بن گئی ۔

یہ گہری روحانی تبدیلی کی  جڑیں انتہائی  میکانکی تھی ۔  پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے ادبیات کی دنیا میں ایک ڈرامائی طلاطم کو جنم دیا ہے ، یہاں تک کہ بڑے پیمانے پر بائبل کی پرنٹنگ نے بھی ۔ جلد ہی ، در حقیقت  ہر قبیلہ ایک بائبل رکھتا تھا  تا کہ اس کے باشندے پڑھ سکیں ۔ بلا شبہ لوگوں نے ایک ذاتی بائبل رکھنا  شروع  کر دیا ۔ بتدریج یہ تبدیل شدہ مذہب  سماجی ہونے سے ، چرچ کے اختیار اور مرتبہ کی بیخ کنی کرتے ہوئے ذاتی رجحان بن گیا ۔ جب لوگ بائبل رکھنے لگے اور خود پڑھنے لگے ، تو انہوں نے خدا سے اپنے ذاتی تعلقات کو  خود استور کرنا  اور مذہبی نظریات کو انفرادی بنانا  شروع کر دیا ۔ دوسرے لفظوں میں خدا ان کے اندر گھر کر گیا ۔

 اس بڑی تبدیلی نے انسانوں کو  بڑے وسیلے اور بڑے عزم کے ذریعہ  انسانوں کو رنگ دیا ۔ اس نے لوگوں کے اندر ایک ایسا شعور پیدا کیا جس کی وجہ سے لوگ نہ صرف یہ کہ چیزوں کا خود سے کر سکتے تھے بلکہ اسے اپنے طریقہ پر بھی کر سکتے تھے ۔ اس نظریاتی تبدیلی نے اقتصادی تبدیلی کے لئے ایک کسوٹی ثابت کر دیا ۔ جس طرح روحانی دنیا  کے تمام تصورات  مادیت میں گھر کر گئے اسی طرح سائنس اور ٹکنالوجی جادو کے نئے ذروئع بن چکے ہیں۔ شیکسپیئر نے ‘The Tempest ’ کے اخیر میں اس تبدیلی کی تصور کشی کی ہے ، جب اس کے ہیرو نے اپنا جادوئی اثر انسانوں کے عزائم پر چھوڑا اور دوسرے انسانوں  کے درمیان رہنے کے لئے اپنے اس آئی لینڈ کو چھوڑا  جہاں وہ اپنے جادو کے ساتھ رہتا تھا ۔

بڑھتے ہوئے   یہ انسانی طاقت اور عزائم حریت پسندی کے نقیب  تھے ۔  وہ تصور کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور جو چاہے اختیار کر سکتا ہے ،فلسفی معقولی  ، اور ایک انسان کی حیثیت سے  کانت کا دوبارہ شرافت کی تصویر   کشی، جیسا کہ خدا کے ذریعہ قائم کی گئی خوبی کی مخالفت  کی گئی  ۔ فی الوقت ، یہ نظریات چرچ اور ریاست کی علیحدگی ، قوم پرستی اور جمہوریت، عالمگیر انسانی حقوق اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے متعلق تصورات، اور دیگر بے شمار  نظریات جو  کہ جدید معاشرے کی تشکیل کی بنیاد،  سمجھے جاتے ہیں ۔ ان تمام کے با وجود خدا کو نہ ہی  کبھی ٹھکرایا گیا تھا اور نہ ہی کبھی مذہب کی سر زنش کی گئی تھی ۔ جس طرح سے لوگوں نے  سمجھا کہ وہ چیزیں تبدیل ہو چکی ہیں۔

مسلمانوں کے لیے اسباق

آج مسلمان اس تاریخ سے کیا معنی ٰ اخذ کر سکتے ہیں؟ ایک فخر کا استحقاقی احساس ہے ۔اس لئے  کہ وضاحت کے ساتھ تاریخ لکھی گئی ہے  ،  کہ یوروپ سائنسی ، تکنیکی اور فلسفی پیش رفت میں مسلمانوں کا احسان مند ہے  ، جنہوں نے نہ صرف قدیم مشرقی کتابوں کا ترجمہ یوروپین زبانوں میں کیا بلکہ ان میں سے بہت سارے میدان میں  اصل تعاون بھی کیا ۔ان سب سے اوپر اٹھ کر مسلم مصلحوں کو اپنی اصلاحی جد و جہد کی سمت اور تاکید پر دوبارہ غور و فکر  کرنا ہوگا  ۔

اصلاح مذہبی کتاب میں  صرف ایک تبدیلی نہیں تھی ۔ یہ رویہ اور فلسفہ میں ایک تبدیلی کی اصلا ح تھی، یہ اس بات کی اصلاح تھی کہ  دنیا کو لوگ  کس طرح دیکھتے ہیں ، اور اس کے بعد اس پر کیا واقع ہوا (یا نہیں واقع ہوا ) ۔ خاص کر ، لوگ خود  کو کس طرح دیکھتے ہیں ۔اور اسلامی اصلاح کا ہدف بھی یہی ہونا چا ہئے ۔اسلامی قوانین کے مصادر  اور اس کی تشریحات اور اس متعلقہ اہمیت  کا قرآن و حدیث کے مطابق  جائزہ  لینے کی اہمیت میں کوئی  شک  نہیں  ہے ۔   

لیکن مسلمانو ں کو ان سب سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں دنیا کی طرف  صرف آخرت کی تیاری کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے ،بلکہ صرف اس زندگی کے طور پر دیکھنا چاہئے جو ان کے پاس ہمیشہ رہے گی ، کم سے کم انہیں خود کو با شعور فرد سمجھنا چاہئے ۔

خاص کر انہیں خود کو صرف ایک ‘‘ مسلم ’’ نہیں سمجھنا چاہئے ، بلکہ ایک ایسا فرد سمجھنا چاہئے جو وسائل اور عزائم سے بھرا ہوا ہے ، اور وہ زندگی گذارنے کا جو راستے چاہے اختیار کر سکتا ہے ، اور دوسروں کو بھی یہی  کرنے دینے کی ذمہ داری قبول کر سکتا ہے ۔ ان کے انفرادی شناخت کی تعمیر میں اختیار کی آزادی  یقینی ہے ، اگر مسلمانوں کو مسلمان نہ ہونے پر دوسروں کے قتل سے روکنا ہے ، اچھا مسلمان نہ ہونے کی بنیاد پر دوسروں کے قتل سے روکنا ہے ، دوسرے مسلمانوں کو برقع پہننے  اور ڈاڑھی  رکھنے پر مجبور کرنے سے روکنا ہے  اور خود کو عالمی مسلم مخالف  سازش کے  احساس مظلومی  سے روکنا ہے جو  جوابی وار  کرنا چاہتے ہیں ۔

----------

سیف شاہین یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن ، امریکہ، میں پالیٹکل کمیونی کیشن کے  ریسرچ اسکالر ہیں ۔ اور وہ نیو ایج اسلام کے لئے با قاعدہ طور پر مضامین لکھتے ہیں۔

URL for English article: hhttps://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/islamic-reformation-look/d/9724

URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-reformation-look/d/9880

Loading..

Loading..