New Age Islam
Tue Sep 10 2024, 09:34 AM

Urdu Section ( 29 Dec 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Reclaiming Jerusalem’s lost legacy یروشلم کے گم شدہ ورثہ کا مطالبہ

سیف شاہین  ،  نیو ایج اسلام

22 اپریل 2010

( انگریزی  سے  ترجمہ   ۔   مصباح الہدیٰ   ،   نیو ایج اسلام  )

یروشلم یا   امن  سکون کا گھر  ۔ شگاف اور فصیلوں  ، قوموں ،  ثقافت اور تجارت ،پیار اور خوشامدید  کا ایک  شہر  ۔ان سب  سے بڑھ کر   مذہبوں کی عبادت کا شہر ۔ یا جو وہ کہتے ہیں ۔

نصف  صدی سے بھی زیادہ سے مسلم اور  یہودی یروشلم کے لئے لڑ رہے  ہیں  ۔ دونوں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ان کے مقدس ترین شہروں میں  سے  ایک ہے  ، اور ان دونوں  کے پاس اپنے دعووں کی حمایت میں آثار قدیمہ اور فن  تعمیرات  پر مبنی ثبوتو ں  کا ایک مجموعہ ہے ۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کی تردید نہیں کرتا ہے ؛  اس دعویٰ کی  وجہ سے جو  یہودیوں نے اس پر کیا ہے ، جزوی  طور پر وہ مسلمانوں کے لئے اتنا ہی  مقدس ہے  ۔  اب تک ان میں سے ہر ایک بلا شرکت غیر اس پر اپنا  م حق چاہتے ہیں ۔

ہار دونوں فریق کے لئے ایک  عظیم استہزاء ہے اس لئے کہ ان کی عارضی جد و جہد براہ راست  شہر کے روحانی ورثہ سے ہے جس کے لئے وہ جد و جہد کر رہے ہیں ۔ عظیم قربانیوں کے ساتھ  ۔

یہودی یروشلم کو  اس   پرانے شہر کا  مقام دیتے ہیں  جہاں انہیں پہلی مرتبہ ایک قوم کی حیثیت  10 صدی قبل  مسیح    ، بادشاہ داؤد کے ذریعہ بسایا گیا ۔ داؤد کے بیٹے سلمان نے وہاں یہودیوں کے لئے سب سے پہلے خدا کے گھر  کے طور پر  پہلی عبادت گاہ بنوائی ۔ جسے بابلیوں  نے چھٹی صدی قبل مسیح میں تباہ  کر دیا ،اس جگہ پھر دوبارہ ایک عبادت  گاہ بنائی گئی جو بعد مسیح 70 تک قائم رہا ، اس کے بعد اسے رومیوں نے منہدم  کر دیا ۔

دونوں عبادت گاہوں کی جگہ ، ماؤنٹ ٹمپل کا یہودیوں کے مذہب اور ان  کی  ثقافت  میں ایک  اعلیٰ مقام ہے  ۔  اسی لئے یہودی پوری دنیا میں  یروشلم  کو متعارف کرا رہے  ہیں ، اور انہیں اس بات کی امید ہے کہ وہ کسی نہ کسی دن وہاں تیسری  عبادت  گاہ بنا لیں گے ۔

 ان تمام وجوہات کی بناء پریہ  ان مسلمانوں کے لئے  ،جو داؤد اور سلیمان کو نبی  مانتے ہیں ، مقدس ہے  ۔اور یہ زیادہ مقدس ہے اس لئے کہ وہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ ماؤنٹ ٹمپل  جسے وہ مقدس عبادت گاہ کہتے  ہیں  ، سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے تیز رفتار گھوڑے ،  جسے  براق  کہا جاتا ہے ،کے ذریعہ  سفر معراج کی ابتداء کی ۔

مسلم خلفاء نے  بعد میں دوسرے قدیم  تر اسلامی تعمیرات کے درمیان مسجد اقصیٰ اور اس مشرف عبادت گاہ کی چٹان پر گنبد  تعمیر کی  ۔ یروشلم مسلمانون کا  اصل قبلہ ‘ نماز پڑھنے کی سمت ’ہے ، جو بعد میں مکہ ہو گیا تھا ۔

 اگر ہم اٹھارہویں صدی  قبل مسیح  کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوگا کہ وہ دونوں مذاہب کے لئے کسی اور وجہ سے مقدس ہے  ۔ خدا   کے حکم کے بعد ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کرنے کے لئے یروشلم کا ہی سفر کیا تھا  ، انہوں نے مذبح میں اپنے بیٹےکو باندھ دیا تھا اور قربانی پیش کر نے کے لئے تیار تھے ، تبھی ایک فرشتے نے یہ کہتے ہوئے مدا خلت کی کہ  آپ  آزمائش میں کامیاب ہو گئے ،  اور  قربانی پیش کرنے کے لئے اس کی  جگہ  ایک  دنبہ  پیش کیا ۔

مسلمان یہ بھی مانتے ہیں کہ ابراہیم کی پہلی اولاد اسماعیل وہی ہیں جن کے  بارے میں کہا جاتا ہے کہ عرب کی نسل انہیں سے چلی  ،جن کی قربانی دی جا رہی تھی ۔ یہاں تک کہ آج بھی اس واقعہ کو عید الاضحیٰ کے طور پر منایا جا تا ہے جو کہ اسلامی مہینے کا سب سے بڑا تہوار  ہے ۔ یہودی یہ کہتے ہیں  کہ ابراہیم اپنے بیٹے اسحٰق کی قربانی پیش کر رہے تھے  ، اور وہ اپنی نسل کا انہیں سے ہونے کا دعویٰ  کرتے ہیں  ۔

بہر کیف  ، دونوں کا اس بات پر پختہ عقیدہ ہے کہ ابراہیم اپنی سب سے بڑی قربانی  یروشلم میں پیش کرنے کے خواہاں  تھے ۔ قربانی کا یہ پیغام ، جو دونوں کے عقائد  میں مختلف  طریقوں سے بیان کیا  گیا ہے ، جو  دونوں قوموں کے لئے یروشلم کو  حقیقی اہمیت دیتا ہے ۔

تقریباً چار ہزر سال گزر جا نے کے بعد بھی یروشلم کو اسی طرح یاد رکھا گیا جس طرح ابراہیم کو  ، لیکن کسی کو یہ یاد نہیں ہے کہ انہیں کیوں یاد رکھا گیا  ۔ نہ  وہ مسلمان جنہوں نے  پتھروں کو مسجد اقصیٰ سے یہودیوں کی عبادت کی جگہ مغربی دیوار کے نیچے  پھینک دیا ، جو کہ دوسری عبادت گاہ  کا بچا ہوا حصہ صرف وہی ہے ، اور نہ ہی بنجامن نیتن یاہو ، اسرائیل کے وزیر اعظم کو   جنہوں نے پر جوش انداز میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس مقدس زمین  میں مزید  غیر قانونی آباد کاری کے لئے اپنے پیغمبر ابراہیم کے بیٹے اور بیٹیوں کو   بے دخل کرتے  رہیں گے  ، اگر ضرورت پڑی تو مار کر بھی ۔  یہ کیا  ہی مقدس کام ہے  !

اگر مسلم  اور  یہودی دونوں واقعی  یروشلم کا احترام کرتے ہیں ، تو انہیں اس حقیقی قربانی کا بھی احترام کرنا  چاہئے  جو ان دونوں کے لئے دی گئی  ۔  جس طرح  ابراہیم  خدا کی محبت کے لئے اپنے چہیتے بیٹے کی قربانی  بیت  المقدس میں پیش  کرنے کے خواہش مند تھے اسی طرح انہیں بھی خدا کے لئے  اور ان کے پیغمبر کی اولاد  کی ان کی محبت کے لئے یروشلم پر  اپنے دعویٰ کو چھوڑ دینا   چاہئے  ۔  وہ  اپنے عارضی  حقوق سے دست بردار ہو کر  ، انہیں شہر کی روحانی وراثت کا حقیقی دعویٰ کرنا چاہئے ۔

اسی طرح کی قربانی انہیں مزید زمین  کے مطالبہ کے بجائے تسلیم کرنے کی طرف مرغوب کر سکتی  ہے ،  دوسروں کی زمیں پر قبضہ کرنے کے بجائے اپنے خود کے حقوق کو تجنے پر امادہ  کر سکتی ہے  ۔  یہی وہ پیغام ہے جسے ان کے مشترکہ آباؤ اجداد نے کبھی ان تک پہونچایا  ۔  اپنا جھگڑا ختم کرنے اور پر امن  زندگی گذارنے کے لئے صرف انہیں اس  پیغام کو سننے  کی ضرورت ہے ۔

-------------

سیف شاہین یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن میں ریسرچ اسکالر ہیں ۔ اور وہ نیو ایج اسلام کے لئے با قاعدہ طور پر مضامین لکھتے ہیں

URL for English article: http://www.newageislam.com/interfaith-dialogue/reclaiming-jerusalem’s-lost-legacy-/d/2739

URL: https://newageislam.com/urdu-section/reclaiming-jerusalem-lost-legacy/d/9830

Loading..

Loading..