سیف شاہین ، نیو ایج اسلام
17 اپریل، 2013
( انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
امریکی صدر نے پیر کے دن بوسٹن بم دھماکے کو ‘‘دہشت گردی کا عمل’’ قرار دینے میں ابتدائی بے اعتنائی کے ذریعہ غم و غصہ کو دعوت دے دی ہے۔ ایسا ہی انہوں نے گزشتہ سال، لیبیا میں امریکی سفارت خانے پر حملے کو"دہشت گردی" قرار دینے میں بے رغبتی کا اظہار کر کے، کیا تھا، جس میں امریکی سفیر جاں بحق ہوئے تھے ۔ ٹی لفظ سے ان کا خوف کھانا کس بات کی وضاحت کرتا ؟
امریکی صدر کی پیر کے دن بوسٹن بم دھماکے کو ‘‘دہشت گردی کا عمل’’ قرار دینے میں ابتدائی بے اعتنائی نے بے شمار لوگوں کو سخت برہم کر دیا ۔ دو دھماکوں کے گھنٹوں بعد،جس میں تین افراد جاں بحق، اور 170 سے زائد زخمی ہوئے تھے،ایک پریس میں بیان دیتے ہوئے ، اوباما نے حملے کو "بے معنی " قرار دیا، اور اس بات کا وعدہ کیا کہ ذمہ دار افراد یا جماعت کے ساتھ "سخت قانونی کاروائی کی جائے گی ۔" تاہم، پیر کو خطاب میں حملے کی وضاحت کرنے کے لئے لفظ "دہشت گردی" کا استعمال نہیں کیا ،جس سے ٹیلی ویژن اور ٹویٹر پر ایک طوفان برپا ہو گیا ہے،اگرچہ، منگل کی صبح صبح انہوں نے جلد ہی اس ٹی لفظ کو قبول کرلیا ۔
بعض مبصرین نے ان کے اس ابتدائی "ممانعت" کی تعریف کی، یہ کہتے ہوئے کہ انتظامیہ کو لفظ "دہشت گردی" استعمال نہیں کرنا چاہئے، جب تک اس بات کا کچھ اندازہ نہ ہو جھائے کہ ان حملوں کے پیچھے کون تھا ۔ لیکن زیادہ تر لوگوں حیران و ششدر تھے اور اس بات پر متعجب بھی کہ کس طرح تشدد کے اتنے بڑے عمل کو دہشت گردی نہیں قرار دیا جا سکتا ۔
یقیناً، بوسٹن حملے یا کسی بھی قسم کے حملے کی وضاحت کے لیے "دہشت گردی" کی اصطلاح کا استعمال، بحث کا ایک موضوع ہے، یہ مسلمہ ہے کہ ‘دہشت گردی’کی تعریف عام طور پر مقبول نہیں ہے ۔ " لیکن، بوسٹن بمباری کو دہشت گردی کے ایک عمل کا رنگ دینے میں پیر کے روز اوباما کا تامل ضرف اشتقاقی درستی کی تشویش کی وجہ سے نہیں تھا۔
اسی طرح کا معاملہ 11/9 کی برسی کے موقع پر لیبیا میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے بعد گزشتہ سال پیش آیا تھا،جس میں امریکی سفیر اور تین دیگر امریکی ہلاک ہو ئے تھے ۔ اوبامہ نے اسے "دہشت گرد" حملہ قرار دینے سے رو گردانی کی ، اور ان کے ریپبلکن مخالفین نے صدارتی انتخابات میں اس معاملے پر خوب لعن طعن کی ۔
اس کے بعد، اب ، اوباما نے فوری طور پر گرفت کی ، بم دھماکوں کو ، "دہشت گردی" قرار دینا شروع کر دیا ، اس لئے کہ تنقید میں اضافہ ہوا، اور ان کی درجہ بندی گھٹنے لگی ۔ ان سب کے باوجود، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سیاسی قسمت، کسی کی "دہشت گردی" کے خلاف جنگ کے محسوس کردہ عزم سے بنائی جا سکتی ہے یا بگاڑی بھی جا سکتی ہے ۔ صرف حقیقت میں ہی نہیں بلکہ بیان بازی میں بھی۔ در حقیقت، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے خلاف حملوں کو دہشت گردی قرار دینے کے لئے ، اس لفظ کا استعمال کرنے میں اوباما کے اندر دلچسپی کی واضح کمی، اسی سیاسی بیان بازی کی پیدا وار ہے۔
اوبامہ کی صدارت کے اہم ستونوں میں سے ایک کا استحکام 'دہشت گردی کے خلاف جنگ " پر ہے ، حالانکہ ان کی انتظامیہ نے جارج ڈبلیو بش کے ذریعہ مقبول بنائی گئی اس اصطلاح کو ، تبدیلی کی ایک علامت کے طور پر، ترک کر دیا ہے ۔ اوبامہ کی صدارت کی اہم کامیابیوں میں سے ایک القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا قتل ہے، جو 11/ 9 کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا ، بش انتظامیہ، جسے سالوں کی کوشش کے باوجود مارنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
اسامہ بن لادن ایبٹ آباد، پاکستان میں، اس کے گھر پر امریکی بحریہ سیل کےایک حملے میں، مئی 2011 کو مارا گیا۔ انتظامیہ نےاس "فتح" کی نہ صرف اوبامہ کے عزم کی توثیق کے طور پر تعریف کی بلکہ دہشت گردی سے نمٹنے میں ان کی قوت و استبداد کے طور پر بھی ۔ " ان پر اعتماد کرو کیونکہ، وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں " یہ دلیل پیش کی گئی ۔آئندہ سال یا اس سے زائد، بن لادن کی تحریک اس دعوے کی شکل میں تشکیل پائی کہ اوباما کے پاس سب تھا لیکن اس نے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا اور امریکہ اور اس کے شہریوں کو اس سے کہیں زیادہ محفوظ کر دیا ، جتنا بش کبھی کر سکا تھا ۔ گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے ڈیموکریٹس اتحادیوں کی یہ حکایت تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک عظیم حکایت تھی، اور یہ کامیاب بھی ثابت ہوئی ۔ لیکن اس کی ایک کمزوری ہے:یہ برقرار نہیں رہے گا ، اگر دہشت گرد حملے امریکی سرزمین وقع ہوتے رہے، اور جس کے نتیجے امریکی شہری اپنی زندگی سے محروم ہوتے رہے۔ یہ وہی ہے جو گزشتہ سال ستمبر میں ہوا، اور پیر کے روز بھی ہوا ۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، کہ، اوباما اس طرح کے اقدامات کو "دہشت گردی" قرار دینے میں تذبذب کا شکار تھے ، اور رہتے ہیں ۔ایسا کرنا دہشت گردی کے خلاف عظیم فتح کے دعوےکو کچھ کھوکھلا بنا دیتا ہے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ، ان اعلیٰ انتظامی عملوں کے درمیان ، کمانڈر ان چیف اوباما، کی مشہور تصویر، جو اس حملے کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہے تھے ،جس نے اسامہ بن لادن کا ‘‘خاتمہ ’’ کر دیا ، تھوڑی عجیب لگتی ہے ۔ آخرکار کیوں بن لادن کے قتل کو اتنا بڑا سمجھا جانا چاہئے، اگر دہشت گرد اب بھی امریکہ پر حملہ کر سکتے ہیں، اگر وہ اب بھی امریکیوں کو مار سکتے ہیں ؟
اوباما نے اس طرح، دہشت گردی کے معاملے میں خود کو ایک دائرے میں محصور کر لیا ہے۔ اگر وہ امریکیوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کو ‘‘دہشت گردی،’’ قرار دیتے ہیں ، تو وہ القاعدہ کی بیخٰ کنی ،اور امریکیوں کو محفوظ بنانے کے اپنے ہی دعوے میں نقب زنی کرتے ہیں ۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ، تو وہ اس ‘‘بڑے خطرے ’’ کے سامنے کمزور مظاہرہ کرنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں ، جس کا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو سامنا ہے ۔
URL for English article:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/how-obama-boxed-himself-corner/d/11178