New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 07:38 PM

Urdu Section ( 20 Nov 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sahir's Poem "Taj Mahal" and Aesthetics-Part-1 ساحر کی نظم تاج محل اور جمالیات

سید محمود کاظمی

(پہلی قسط)

10نومبر،2024

اردوشاعری خصوصاً اردو نظم میں سخت انحرافی رویے اور ردعمل کی اگر کوئی مثال دیکھنی ہے تو ساحرلدھیانوی کی نظم ’تاج محل‘ کا مطالعہ ناگزیرہوگا۔ یہ نظم ساحر کے پہلے شعری مجموعے ’تلخیاں‘ میں شامل ہے جوپہلی بار پریت نگرشاپ لاہور کے زیراہتمام 1945 میںمنظرعام پرآیا۔ 1946 میں اس کادوسرا ایڈیشن مکتبہ اردولاہور سے اور تیسرا ایڈیشن نیا ادارہ لاہورسے 1947 میں  شائع ہوا۔ ساحر کاسنہ پیدائش 1921 ہے اس لحاظ سے یہ نتیجہ اخذکرنا مشکل نہیں        کہ ساحرنے یہ نظم جس وقت کہی ہے اس وقت ان کی عمر تیئس یاچوبیس برس رہی ہوگی۔ اس نظم پر مزید گفتگوسے قبل آئیے قندمکرر کے طورپر ایک بار اس کی قرأت کرلی جائے:

ساحرلدھیانوی

-------------

تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

تجھ کو اس وادی رنگیں سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

بزم  شاہی  میں  غریبوں  کا  گزر کیا معنی

ثبت جس راہ پہ ہوں سطوت شاہی کے نشاں

اس پہ الفت  بھری  روحوں کا سفر کیا معنی

میری  محبوب  پس  پردۂ  تشہیر  وفا

تونے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی

اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے

کون کہتاہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں

کیوں کہ و ہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار

مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں

سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور

جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کاخوں

مری محبوب انھیں بھی تو محبت ہوگی

جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل

ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود

آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل

یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

مری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

تاج محل پرکہی گئی تقریباً ڈیڑھ سو سے کچھ اوپر نظموںمیں نذیراکبرآبادی کی ’تاج گنج کاروضہ‘ شاید پہلی نظم ہے ۔ اس کے علاوہ سیماب اکبرآبادی کی نظم کو بھی اولیت حاصل ہے، ان دونظموںکے علاوہ زیادہ تر نظمیں وہ ہیں جوساحر کی نظم ’تاج محل‘کے بعد لکھی گئی ہیں۔ دنیاکی اس بے مثال عمارت سے متعلق یہ تمام نظمیں  انحراف سے ہٹ کر اعتراف کے جذبے کے تحت کہی گئی ہیں اور ان نظموں میں سے بیشتر کی حیثیت ’کلمۂ ستائش‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ کچھ نظمیںایسی ضرور ہیں جواپنی جانب متوجہ کرتی ہیں اور جن پرگفتگوکی جاسکتی ہے مثلاًکیفی اعظمی اور صابردت کی نظم ۔کیفی کی نظم ایک طرح سے ساحر کی نظم کی ہی صدائے بازگشت ہے۔ وہ بھی ’روئے ہستی پہ دھواں قبر پہ رقص انوار‘ کہہ کر ساحر کی آواز میںآواز ملاتے ہیں۔کچھ اور نظمیں بھی اس نوعیت کی ہوںگی جومجھے اس وقت یاد نہیںآرہی ہیں۔صابردت کی نظم بطورخاص اس لیے یاد رہ گئی کہ اردو تحقیق وتنقید کی قدآورشخصیت شمس الرحمن فارقی نے اس نظم کوساحر کی نظم سے اس بنا پربہتر قراردیا ہے کہ اس کا بیانیہ جدید زندگی سے قریب ہے۔ تاج محل کے تعلق سے ساحر نے عام طورپررائج اس اسطور سے ہٹ کر کہ تاج محبت کی علامت ہے ایک دوسرااسطوریہ قائم کیا ہے کہ تاج محبت کی نہیںشاہی استحصال کی علامت ہے۔ساحر کے قائم کردہ اس اسطور کو فرسودہ تاریخی شعور اور بچکانہ جذباتیت کانتیجہ قراردینے سے قبل ہمیں مارکسی جمالیات کے ان معیارات واصول سے واقف ہوناضروری ہے جن کے زیراثرساحر نے یہ نظم لکھی ہے۔کسی بھی تخلیق کار یافن کار کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو کسی بھی ایسے نظریے کے تابع رکھ سکتا ہے کہ جس پراس کاایمان ہواور جسے وہ درست سمجھتا ہو بشرطیکہ تخلیق کے فنی وادبی اوصاف پرکوئی آنچ نہ آئے۔ ساحر کی نظم کوسطحی اور مصنوعی انقلابیت کانمونہ قراردینے والوںکو ایک تخلیق کار کایہ حق بھی ملحوظ خاطررکھنا چاہیے۔ہمارے جن ناقدین نے ساحرکوبی اے پاس نوجوانوں کاشاعر کہا ہے اگر وہ اس نظم کوسنجیدگی کے ساتھ پڑھ لیتے توشاید اس میں پائی جانے والی مارکسی جمالیات کے گہرے شعور اور احتجاجی شاعری کے رموز و نکات کی روشنی میں ایک بہتراور منصفانہ رائے قائم کرسکتے۔

احتجاج ساحر کی شعری کائنات کاسب سے اہم وصف ہے جو انتہائی فنکارانہ طورپر ان کی بیشتر نظموں میں ہے۔ ان  کے پہلے شعری مجموعے ’تلخیاں‘  میں’تاج محل‘ کے علاوہ ’چکلے‘ اور ’نورجہاں کے مزار پر‘ جیسی دو اور نظمیں احتجاجی شاعری کی خوب صورت مثال قراردی جاسکتی ہیں۔ ساحر کے اس اولین مجموعے کاعنوان ہی قاری کو یہ احساس دلاتاہے کہ ساحرکی شاعری تلخ حقائق کااظہار بھی ہے اور بحیثیت ایک درد مندانسان اور بیباک شاعر کے صورت حال کی خرابی وابتری کامرثیہ بھی۔ ساحر شہنشاہیت کی خرابیوں کاذکراسی لیے کرتے ہیں کہ وہ ہرقسم کی مطلق العنانیت کو عام انسانی تحقیرکے مترادف سمجھتے ہیں اور ان کا یہی رویہ انھیں’تاج محل‘ اور ’نورجہا ں                            کے مزار پر‘ جیسی تلخ اور سخت انحرافی نوعیت کی نظمیں لکھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ سردار جعفری کے مطابق ساحرنے کرشن ادیب کو بتایا تھا کہ انھوں نے جب یہ نظم کہی تھی تواس وقت تک انھوں نے تاج محل نہیں    دیکھا تھالیکن میں   سردار جعفری کے اس قول سے متفق نہیں   ہوں کہ اگر وہ تاج محل دیکھ چکے ہوتے تو شاید یہ نظم نہ کہتے اور اگر کہتے تو ان کارویہ اس تعلق سے مثبت ہوتا۔مجھے لگتا ہے کہ ساحرتاج محل دیکھنے کے بعد بھی اگر اس موضوع پرکوئی نظم کہتے تو اس کی حیثیت بھی ایک صدائے احتجاج کی ہی ہوتی کیونکہ یہاںمسئلہ تاج محل کے حسن کا نہیں ہے، اس کی صناعی وکاریگری سر آنکھوں پر، اس کے ایک معجزۂ فن ہونے میں  کسی کو کلام نہیں۔ ساحر نے بھی تاج کے اس حسن کااعتراف کیا ہے، وہ بھی اس ’شکل جمیل‘ کی صناعی وکاریگری کا معترف ہے، اس عمارت کے ’منقش درودیوار‘ اور ’محراب وطاق‘ اس کے بھی احساس جمال اور شعور حسن کی تسکین کاسامان مہیا کرتے ہیں۔ ساحر کو فن کے عروج وکمال میں   کوئی شبہ نہیں    لیکن وہ فن کے پیچھے چھپی ہوئی محنت کو بھی نظرانداز نہیں  کرسکتا وہ ان ہاتھوں کی عظمت واہمیت کو بھی تسلیم کرتا ہے جو اس معجزۂ فن کووجود بخشتے ہیں۔

ساحرکی اس نظم اور اس کے تخلیقی محرکات کوسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس مخصوص تصور جمال سے بھی واقف ہوںجو فلسفہ اشتراکیت کے زیراثرایک ایسی انسان دوستی کے سائے میں پرورش پاتاہے جو فن کی خوب صورتی کے ساتھ ساتھ محنت کی اہمیت اور قدروقیمت کو بھی تسلیم کرتا ہے لیکن اس سے پہلے اس بات پر بھی غور کرناضروری ہے کہ احساس جمال یا تصور جمال کیا ہے اور جمالیات کسے کہتے ہیں۔ احساس جمال اور جمالیات کی مختصر تعریف ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ حیات وکائنات کی مثالی صورتوں کے عرفان وادراک کو ہم احساس جمال سے تعبیر کرتے ہیں اور انسان میں پائے جانے والے اسی احساس جمال یاشعورحسن کے اسباب وعلل اور اوصاف و خصائص کامطالعہ ’جمالیات‘ کہلاتا ہے۔ ہیگل نے جمالیات کو فنون لطیفہ کافلسفہ قرار دیاہے۔ ظاہر ہے کہ فن کی کون سی شکل لطیف ہے اور کون سی غیرلطیف اس کا فیصلہ انسان کے ذوق حسن کے مطابق ہی ہوگا اوریہ ذوق حسن صرف اسی حدتک اجتماعی ہوتا ہے کہ ہم خوب صورتی کوپسند کرتے ہیں لیکن یہ خوبصورتی کس طرح کی ہویہ معاملہ انفرادی ذوق حسن کاہے۔ بہرحال اتنا تو طے ہے کہ انسان کے اندرپایاجانے والا یہ شعورحسن ہی اسے دوسرے حیوانوں سے ممتازوممیز بناتا ہے۔یعنی صاف ظاہر ہے کہ احساس جمال یا شعورحسن انسانی جبلت کاخاصہ ہے نہ کہ ایک عام حیوانی ضرورت۔ اس کے ساتھ ہی جب ہم احساس جمال کے حوالے سے انسان اور حیوان کے درمیان ایک واضح فرق کی نشاندہی کرتے ہیں تو پھرہمیں یہ بھی طے کرناہوگا کہ جمالیاتی شعور کا تعلق اظہار (Expression) سے ہے یا تاثر (Impression)  سے تواس ضمن میں لینگر کاکہنا ہے کہ

’’جمالیات کے تناظرمیں  فنکارکے نقطۂ نظر یافنی قدروقیمت کے اعتبارسے فن کامطالعہ اظہارکامطالعہ ہے اورحساس قاری کے نقطۂ نظرسے یاحساس ناظراورحساس سامع کے نقطۂ نظرسے فن کامطالعہ تاثرکامطالعہ ہے۔‘‘

(بحوالہ جمالیات اور ہندوستانی جمالیات از قاضی عبدالستار، ص 16)

(جاری )

10نومبر،2024،بشکریہ:روزنامہ چٹان،  سری نگر

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sahir-poem-taj-mahal-aesthetics-part-1/d/133766

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..