صاحب زادہ خورشید احمد گیلانی
اگست، 2013
ہمارا معاشرہ بوجوہ ذکی الحسن بن چکا ہے ، جس کے نتیجے میں ‘‘ سب کچھ ’’ یا ‘‘ کچھ بھی نہیں’’ کی کیفیت قدم قدم پر عنان گیرہوتی ہے کوئی سیاسی مسئلہ ہو یا عمر انی، کوئی دینی معاملہ یا معاشی ، ہر ایک میں یہی دو انتہا ئیں نظر آتی ہیں ، حالانکہ امت مسلمہ جو قرآن مجید کی نظر میں ‘‘ امتہ وسطیٰ’’ ہے اس کا رویہ جارحانہ اور انتہا پسندانہ نہیں بلکہ عادلانہ اور دانشمند انہ ہونا چاہئے ۔
ہمارےہاں سیاست میں مطلق آمریت چلتی ہے یا پھر بے ہنگم اور اصول نا آشنا جمہوریت کا نعرہ بلند ہوتا ہے، معیشت کا پینڈولم کبھی اشتراکیت کی طرف جھکتا ہے اور کبھی سرمایہ داری کی جانب ، اور اسی طرح بودو باش اور طرز زندگی میں یا تو اقوام مغرب کی بندر جیسی نقالی کا رواج ہے یا تاریک دور کے مڑے تڑے او رگلے سڑے ضابطے اور قاعدے مقدس قرار پاتے ہیں، جب کہ انتہائی پسندی کے ان دو نامعقول رویوں کے درمیان بیسیوں راہیں معقولیت ، توازن ، اعتدال ، نظم و ضبط اور روشن قدروں کی نکلتی ہیں ۔ ایک عرصے سےعالم اسلام بالعموم اور پاکستان بالخصوص ایک مسئلے پر اعصابی تناؤ اور ہیجانی کیفیت کا شکار بنا ہوا ہے اور وہ مسئلہ ہے عورت کی حیثیت ، عورت کے کردار اور عورت کے تشخص کا۔
ظاہر ہے عورت کا وجود جتنا قدیم ہے اس کی حیثیت ،کردار او رتشخص کا مسئلہ بھی اتنا ہی قدیم ہے۔ ہندو سماج، یہودی مذہب، بدھ مت ،عیسائیت ان سب نے اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے عورت کے کردار پر بحث کی ہے۔ لیکن ہمیں اس کی تحقیق مطلوب نہیں ہم چو نکہ مسلم سوسائٹی کے فرد ہیں اس لئے ہم اسلام کےمزاج کو سمجھیں کہ و ہ عورت کاکردار کس طرح متعین کرتا ہے؟ اس وقت ہمارے پیش نظر کوئی فنی یا فقہی بحث نہیں جس کےلئے کتابی حوالے او ر عبارات درکار ہوں مقصود صرف اسلام کے مزاج کو سمجھنا ہے، اس لئے فقط اشارات ہی ہمارے لئےمفید مطلب ہوں گے۔
اسلام کا مزاج عدل ہے اور اسلام کے نام لیواؤں کا مزاج تسلیم کو ہوناچاہیئے ، کہ اگر یہ منشا ئے الہٰی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو اس کے آگے حجت نہیں اطاعت کارویہ اپنانا چاہئے ،اور یہی سلامتی کی راہ ہے، مسئلہ ایمان اور ایقان کا ہے رہی بحث تو آج تک کسی گاؤدی سے ارسطو اور افلاطون تک نہیں جیت سکے ،کجا کہ کوئی ہم پلہ اپنی ہار مان لے۔ ہم ہزار پہلوؤں سے دلائل لاکر اپنی مرضی کے اسلامی احکام و ضع اور ثابت کر لیتے ہیں، یہ رویہ کسی کا بھی ہوسکتا ہے کم از کم مسلمان کانہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمان کو یہ احساس رہتا ہے کہ اسے اپنے ہر ہر حیلے کاکل اللہ کے آگے جواب دینا ہے، جس مسلمان کو دل اس احساس سے معمور ہے وہ مستحب کو بھی واجب کا درجہ دیتا ہے اور جو شخص اس سے عاری ہو وہ نص قطعی کو بھی کسی شاذ روایت سے مسترد کردے گا۔
ہمارے ہاں جب بھی عورت کے مقام اور کردار کی بات شروع ہوتی ہے تو درمیان میں ضرور امریکی تمدن ، یورپی تہذیب اور اشتراکی سوسائٹی کا حوالہ آجاتا ہے کہ وہاں عورت کا یہ کردار ہے عورت اس طرح زندگی بسر کرتی ہے عورت کے یہ حقوق ہیں اور عورت کی آزادی کا یہ عالم ہے وغیرہ ۔
اگر ہم اسلام کے مزاج شناس ہیں اور اسلامی سوسائٹی کی اخلاقیات سے آگاہ ہیں تو کسی معقول انسان او رمہذب مسلمان کو اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ اولاد آدم میں مرد اور عورت بحیثیت جنس پیدائشی طورپر برابر ہیں نہ ان میں کوئی بر تر ہے اور نہ کوئی کمتر ہے، صنفی اختلاف سے قطع نظر اہلیت اور صلاحیت میں قدرت نے کسی ایک کے حق میں فیاضی اور دوسرے کے حق میں بخیلی کا رویہ نہیں اپنایا ، تکر یم مختص ہے بنی آدم کے لئے ، اور بنی آدم ترکیب ہے مرد اور عورت دونوں اصناف سے ۔
رہی بات دائرہ کار کی تو یہ بالکل دوسرا موضوع ہے جس طرح اولاد آدم کے درمیان اسلام کی نظر میں قبیلے ، شعبے، رنگ، نسل، وطن ،زبان کےحوالے سے کوئی امتیاز ، فضیلت اور بزرگی نہیں اسی طرح مذکر او رمؤنث ہونابھی کسی کے لئے فوقیت اور محکومیت کا معیار نہیں ۔
دائرہ کار اور حدود اختیار میں اختلاف مرد اور عورت کی جدا گانہ صلاحیتوں کا اظہار تو ہے برتری یا کمتری کامدار نہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں بات وہی ذکاوت حس کی آجاتی ہے اوربحث اپنے نقطہ انتہا پر پہنچ جاتی ہے کہ یا تومرد کو عورت بن جانا چاہئے یا پھر عورت مرد بن جائے ، ورنہ اس کے بغیر یا مرد کےحقوق پامال ہوتے ہیں، یا عورت کا تشخص مجروح ہوتا ہے حالانکہ مسئلہ یہ ہے ہی نہیں۔ جب یہ طے ہے کہ کسی کا مرد ہونا اس کو سر کا تاج نہیں بنا دیتا اور کسی کا عورت ہونا اس کو پاؤں کی جوتی نہیں بنادیتا ، مرد مرد ہے اور عورت عورت ! دونوں بحیثیت انسان تعظیم اور شرف کے حامل، اور اس شرف کو ان سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔ اگر دونوں کا دائرہ کار مختلف ہے تو ہوا کرے شرف ومجد انسانی کے پیمانے کام کاج، پیشے ،امارت وغربت ، جہل و خرد اوررنگ ونسل سے نسل سے وضع نہیں ہوتے، مرد کی پگڑی اور ٹوپی جس درجے قابل احترام ہے عورت کا دوپٹہ اور چوٹی بھی اس درجے واجب الاکرام ہے،باپ اگر بارگاہ ادب ہے تو ماں کے قدم بھی جنت کی دہلیز ہیں۔
اسلام نے اپنے مزاج کے مطابق ٹھیک عدل اور توازن کا سبق دیا ہے کہ اس معاملے میں نہ ملوکیت کے تاریک عہد کے مہیب قاعدے اور ضابطے چلیں گے اور نہ تہذیب جدید کے دم کٹے رویے قابل قبول نہیں ہوں گے۔ ان کے درمیان ایک شاہراہ ہے جس پر چل کر مرد او ر عورت اپنا اپنا تشخص کھوئے بغیر زندگی کا کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو جنت نظیر بنا سکتے ہیں ۔ اپنے اپنے کردار کی ادائیگی میں آزادی بھی ہے اور مسابقت بھی لیکن آزادی سے مراد سماجی بے راہر وی نہیں اور مسابقت سےمراد احکام الہٰی سے بغاوت نہیں ۔ آپ ملا حظہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مرد اور عورت کو مختلف میدانوں اور دائروں میں برابر کا کردار ادا کرنے کا حکم دیا ہے، بلکہ مرد اور عورت اس میں مسابقت کرسکتے ہیں جو آگے نکل جائے وہی اللہ کا مطلوب او رپسندیدہ بندہ ہوگا،اب یہ الگ بات ہے کہ ہم میں سےکوئی مرد یا عورت کہے کہ ان کےدائروں میں تو مجھ سے کردار ادا نہیں ہوتا ، ہم اپنے لئے اپنی مرضی کامیدان منتخب کرتے ہیں جہاں ہم اپنی صلاحیتوں کے جو ہر دکھا ئیں گے، اگر معاملہ یہ ہے تو پھر ہمیں درمیان میں کسی مذہب ، سوسائٹی، اختلاقیات ، حقوق ، فرائض ، تشخص ، مقام وغیرہ کے ذکر کا تکلف نہیں کرنا چاہئے سیدھے سبھاؤ نفس پرستی اور ذہنی انار کی کی بات کرنی چاہئے کہ ہمارے جی میں جو آئے گا ہم وہی کریں گے اور وہی ہمارا حقیقی کردار ہے اور اسی کردار کی بحالی کے لئے ہم جد وجہد کررہے ہیں بحثیں کرتےہیں، مذاکرے منعقد کرتےہیں، وگرنہ قرآن و حدیث میں تو مرد اور عورت کو عمل کے میدان میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، قرآن حکیم میں ارشاد الہٰی ہے سورہ الاحزاب آیت نمبر ،35۔
اس آیت میں مرد اور عورت کو ایک ہی لقب اور خطاب سے مخاطب کیا گیا ہے جو خوبی مرد میں ہے وہی عورت میں ہے یعنی کسی بھی خوبی کاحصول جس طرح مر د کے لئے ضروری اور آسان ہے ، اس معاملہ میں کوئی آزاد او رکوئی پابند نہیں، کوئی دو قدم آگے اور کوئی دو قدم پیچھے نہیں ، ہر لقب اور خطاب کے ساتھ راقم الحروف اس کامفہوم واضح کرتا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمْسْلِمٰتِ) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں یعنی اگر مرد اسلام کی سعادت سےبہرہ ور ہوسکتے ہیں تو عورتیں بھی اس سعادت میں برابر کی سطح پر شریک ہوسکتی ہیں، ( وَ الْمْؤمِنِیْنَ وَ الْمْؤ مِنتِ) اگر مرد ایمان کی لذت سے آشنا ہوسکتےہیں تو عورتیں بھی مومنہ کاملہ بن سکتی ہیں، (وَالْقنِیِیْنَ وَ الْقنِتتِ) اگر مرد یکسو اور مخلص ہیں تو عورتیں بھی ایسی ہوسکتی ہیں، ( وَالصّدِ قِیْن وَ الصّدِ قتِ) اگر مرد استباز ہیں تو عورتیں بھی راست باز ہوسکتی ہیں ۔( وَ الصّبِرِیْنَ وَ الصّبِرٰتِ) اگر باطل کے مقابلہ میں مرد حق پر ثابت قدم ہیں تو عورتیں بھی مجسمہ استقامت بن سکتی ہیں، ( وَالْخشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ) اگر مرد اللہ ترس ہیں تو عورت بھی اللہ ترس کے اعلیٰ نمونے پیش کرسکتی ہیں، ( وَ الْمُتَصَدِّ قِیْنَ وَالْمُتَصَدِّ قٰتِ) اگر مرد ایثار پیشہ ہیں تو عورتیں بھی ایثار و قربانی کی داستانیں رقم کرسکتی ہیں ، ( وَالصّآ ئعِیْنَ وَالصّٓئِمٰتِ) اگر مرد روزہ دار ہے تو عورتیں بھی روزہ دار ہوسکتی ہیں، (وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرْوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ) اگر مرد جنسی میلانات اور شہوانی ہیجان پر قابو پاسکتے ہیں تو عورتیں بھی عصمت مآب اور عفت شعار بن سکتی ہیں ، ( وَالذّکِرِیْنَ اللہَ کَثِیْرًاوَّالذّکِزٰتِ)اگر مرد یا دالٰہی میں دن کی مصروفیت اور رات کو سکون قربان کرسکتے ہیں تو عورتیں بھی نمازی اور شب گزار بن سکتی ہیں۔
ان تمام اعمال کانتیجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ (وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَّ الصّلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُو َ مُوّمِنّ فَاْ و لئِکَ یَدْ خُلْوْنَ الْجَنَّتہَ) یعنی مرد ہو یا عورت جو بھی یہ اعمال صالح بجالائے گا وہ مومن ہے اور ایسےلوگ جنت کے حقدار ہیں، ظاہر ہے جب میدان سب کے لئے کھلا اور اجازت اورترغیب سب کے لئے یکساں ہے تو نتائج بھی یک جیسے بر آمد ہوں گے جس کامطلب ہے عورتیں گھر کی جنت ، معاشرے کی جنت اور آخرت کی جنت میں برابر کی حصہ دار ہیں ۔( 195۔3) ارشاد الٰہی ہے ( لاَ اُضِیْع عَمَلَ عَا مِلٍ مِّنْکُمُ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْاْنْثٰی) مرد یا عورت جو بھی عمل کرے گا وہ رائیگا نہیں جائے گا)
قرآن حکیم کے ان دو تین ارشادات میں یہ امر واضح ہوگیا کہ قدرت نے صلاحیت ، اس کے اظہار ، اور جذبہ مسابقت کے حوالے سےمرد کو فوقیت نہیں دی اور عورت کو محروم نہیں رکھا ،دونوں اصناف مختلف ہیں مگر میدان یکساں ، جہاں آکر بات الجھ جاتی ہے وہ مرحلہ ہےمیدان کے انتخاب کا ،بس یہیں سے دو انتہا ئیں وجود میں آتی اور بحث کا دروازہ کھولتی ہیں، مسابقت کامیدان جواللہ تعالیٰ نے طے فرمایا وہ ہے اسلام ،ایمان، ، تقویٰ ،عفت ، ایثار ، ذکر الٰہی ، صبر ،استقامت وغیرہ اس میں جو آگےنکل جائے گا وہی اللہ کے تقربِ کی منزل اور جنت پالے گا ، ہزاروں لاکھوں مردوں پر ایک آسیہ رضی اللہ عنہ ، ایک آمنہ رضی اللہ عنہ ایک عائشہ رضی اللہ عنہ ، ایک فاطمہ رضی اللہ عنہ ، ایک مریم رضی اللہ عنہ ، اور ایک رابعہ بصری رضی اللہ عنہ فائق اور بھاری ہیں۔
اگر ہم اپنی مرضی کامیدان منتخب کرلیں اور اس میں اندھی دوڑ شر وع کردیں یعنی فحاشی ،بناوٹ ،آرائش وزیبائش ، اسراف، اظہار امارات ، بے حجابی تقلید مغرب ، آوارگی ، اور انتشار فکری کامیدان تو اس میدان میں قدم رکھنے کی کسی کو اللہ و رسول کی طرف سےاصولی اور حتمی طو ر پر جب اجازت ہی نہیں تو اس میں مرد اور عورت کی شخصیص کے کیا معنی ؟ اور اس میں مساوات اور مسابقت کا کیا مطلب ؟ حرام و حلال ، جرم و ثواب اور جائز وناجائز کے ضابطے مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں ہیں؟ مرد بھانڈ نہیں بن سکتا تو عورت رقاصہ بننے پر کیوں اصرار کرے؟ مرد کےلئے فحش کا ری حرام ہے تو عورت کیوں اس ‘‘ فن لطیف’’ میں اپنا حصہ مانگے؟ لیکن اس کے مقابلے میں تمام مثبت ، تعمیر ی ، پیداواری ، صالح، مفید ، با مقصد اور خوشگوار اعمال اور اشغال ہیں کون بد مذاق اورکوڑھ مغز عورت کو شامل کرنے سے روکتا ہے؟
جس دین اور قوم کی تاریخ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ ایسی نامور عالمہ اور فقیۂ سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہ جیسی پیکر استقامت مومنہ ، سید فاطمہ رضی اللہ عنہ جیسی عابدہ ، سید ہ زینب رضی اللہ عنہ جیسی باوفا اور با حوصلہ ، سیدہ رابعہ رضی اللہ عنہ جیسی صالحہ اور سیدہ خولہ رضی اللہ عنہ جیسی مجاہد خواتین گزری ہوں وہاں عورتوں کو ثانوی حیثیت دوسرے درجے کا شہری قرار دینا کس طرح ممکن ہے؟ ہرمسئلے میں الجھا ؤ پیدا ہوجانے کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ ہے ہر معاملے میں ہمارا کتابی ، زاویہ نگاہ! جب کہ واقعاتی اور عملی سوچ حقیقت کے زیادہ قریب ہوتی ہے، ظاہر ہے کتابی حوالوں اور واقعاتی حقائق کے درمیان بڑا فاصلہ ہوتا ہے اس لئے کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ہم انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں ۔جب کوئی مملکت یاملت انقلاب کے عمل سے گزری ہوتو اس کا رخ اور ہوتا ہے اور جب وہ ساکت اور منجمد ہوتو اس کا مزاج کچھ اور ہوتا ہے ، ہم بدقسمتی سے سکوت اور انحصار کی کیفیت میں مبتلا ہیں اس لئے ہمارے ہاں بحث کامطلب کج بحثی، فیصلے کا مطلب اندھی چھلانگ ، رائے کا مطلب بے راہروی ، اور عمل کامطلب منزل ناشناسی ہے۔
کوئی قوم بر سر عمل ہوتو اس کے لئے تجارتی منڈیاں ، علمی ادارے، محاذ جنگ اور کھیت کھلیان سب ایک جیسےہوتے ہیں جو جہاں کھیت نظر آتاہے اسے وہیں کھپا دیا جاتا ہے عام حالات میں بچے بوڑھے معاشرتی ذمہ داریوں سےمستثنیٰ ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر مرحلہ انقلاب ، جہاد اور تعمیر نوکا درپیش نہیں اس لئے کلامی بحثیں اور محض فیشن ہمارے وقت کا سب سے بڑا مصرف ہیں اس لئے مختلف کمیٹیاں ،مجالس ، ادارے فقط لباس کی تراش خراش ، آثار قدیمہ کی دریافت مقبروں کی تزئین ، ہفتہ وار تعطیلات اور ایسے دیگر مشاغل پر تحقیق میں مصروف رہتے ہیں ۔ جس طرح دریامیں ڈوبتے یا بھنور میں پھنسے شخص کو تیرا کی کے سارے کتابی گر بھول جاتے ہیں او روہ اس وقت خود ہی ، راہر و اور راہبر بن جاتاہے اسی طرح جہد و عمل اورتعمیر نو میں مصروف قومیں ماضی کے پشتارے اور مستقبل کے مبہم خدشات کے گٹھے ایک طرف رکھ کر اپنا حال بچانے اور سنوارنے میں لگی ہوتی ہیں ۔ اس وقت آزادی نسواں اور مساوات مردو زن کے علمبردار اپنا سارا زور صرف اسی پر صرف کررہے ہیں، کہ عورت پائلٹ کیوں نہیں بن سکتی! عورتیں لبرٹی مارکیٹ اور انار کلی میں شاپنگ کیوں نہیں کرسکتیں؟ بیوٹی پارلر کیوں نہیں چلاسکتیں؟ فلم، ڈرامہ ،کلب، اور تھیڑ میں کام کیوں نہیں کرسکتیں ؟ حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کن کن شعبوں کی تعمیر نو کی ضرورت ہے؟ کن کن خرابیوں کا سدباب ہونا چاہیئے ؟ کن کن کمزور یوں کو رفع کرنا اورکن کن اخلاقی خامیوں سے چھٹکارا پانا ہے؟۔
جس کے باعث ہمارا معاشرہ تنزل ،انحطاط اور زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے اس طرف توکوئی آتا نہیں البتہ ہمارا زور قلم اور فن خطابت اس پر صرف ہوتا ہے کہ عورت کی دیت نصف ہے یا پوری؟ شہادت مکمل ہے یا ادھوری ؟ خواتین ملازمت کیوں نہیں کرسکتیں ؟ عورت حکمران کیوں نہیں ہوسکتی ؟ عورت حکمران کیوں نہیں ہوسکتی؟ گو یا یہ دو تین فیصلے ہوجائیں اور قوانین بن جائیں تو معاشرے کے سارے دکھ درد ختم ہوجائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں گویا ہمارے لئے نسل نو کی پرورش و پرداخت ، خاندانی نظام کا استحکام اورعفت وعصمت اتنےاہم مسائل نہیں جتنا پوری دیت وصول کرنا اور اپنی شہادت کومکمل منوانا اہم ہے۔ بات صرف دائرہ کار کی ہے مرد کا اپنا دائرہ کار اور عورت کااپنا۔ دونوں کے لئے میدان کھلا اور وسیع ہے، اسلام صرف حدود قائم کرتا ہے تاکہ کوئی ایک دوسرے کے دائرے میں داخل ہوکر فساد برپا نہ کرے اورمعاشرے کو کسی بحران سےدو چار نہ کردے، معاشرے میں کوئی وکیل ہے،کوئی استاد ہے ،کوئی ڈاکٹر ہے ہزاروں شعبے ہیں اب خوبی یہ نہیں کہ وہ شخص جو وکیل ہے ، ڈاکٹر بھی کہلانے پر اصرار کرے جو استاد ہے وہ انجینئر بھی ضرور ہو، اس طرح کچھ اوصاف مرد کے ہیں اور کچھ عورت کے ، اور دونوں ا وصاف معاشرے کی حفاظت اور ترقی کے لئے بیک وقت ضروری ہیں، غلبہ ، شدت، صلابت ، قوت یہ مرد کے اوصاف ہیں، جس معاشرے میں فقط شدت ہو، وہ خونخوارمعاشرہ بن جائے گا ۔جہاں صرف رقت اور نرمی ہو وہ مجہول بن جائے گا ،قدرت نےجذب و اندفاع کے فطری اصول کو قائم کر کے انسانی معاشروں کو بقا ئے باہمی اور جہد وعمل کی ضمانت فراہم کردی ہے۔ کیا ہمارا اخلاقی نظام اس درجہ پختہ اور مستحکم ہے کہ عورت جہاں کام کررہی بہے اس کو اس کام کے حوالے سےدیکھا جائے گا نہ کہ صنف نازک کے حوالے سے ؟
ابھی ایک تجربہل ایران میں انقلاب کے بعد ہمارے سامنے آیا ہے وہاں عورتیں ہر جگہ کام کرتی نظر آتی ہیں، بڑے اعتماد مگر وقار کے ساتھ ،ضرورت کے تحت نہ کہ نمائش کے طو رپر ، اور وہ بھی خاص قسم کے حجاب کے ساتھ ۔ تمام دفاتر میں ویمن سیکشن موجود ہیں ، شاپنگ سنٹرز ہیں جہاں تمام تر عورتیں کام کرتی ہیں ،انہیں کوئی خوف اور اندیشہ لاحق نہیں ، ہمارے یہاں مقصد حصول روز گار نہیں اور ہے تو بہت کم گھرانوں کا ! دوش بدوش چلنے کاانہیں زیادہ شوق ہے جن کے ہاں کام کرنا عار اور حصول رزق امر زائد ہے، فقط شوق نمائش ہے اور ظاہر ہے یہ کوئی معطل اورٹھوس جواز نہیں ملازمت کا، اپنے گھر کو چھوڑ نے اور بچوں کو اپنی گود سے محروم کرنے کا! اگر میدان کار میں ستر وحجاب کے تقاضے پامال نہ ہوں او رکام کاج معاشرے کی اہم ضرورت اور خدمت ہوتو عورت اپنے ہنر ، قابلیت ، علم اور مہارت سےمعاشرے کو ضرور فائدہ پہنچائے ، اس میں قطعاً کوئی قباحت نہیں، ہماری اسلامی تاریخ اور معاشرت میں ہر جگہ عورتیں مردوں کے دوش بدوش رہی ہیں، جہاد میں ،تعلیم و تدریس میں، کھیت کھلیانوں میں، بحرانوں اور آزمائش کے دنوں میں ہر وقت اور ہر مقام پر عورتوں نے خدمت ،محنت ، وفا اور ہمدردی کے جوہر دکھا ئے ، لیکن وہ ہر جگہ عورتیں ہی رہیں انہوں نے مرد بننے کی کوشش نہیں کی۔
رہا مسئلہ استقبالیہ افسر، پرائیویٹ سیکرٹری ، سیلز گرل، ماڈل گرل، ایکٹرس اور گائیکہ بننے کا ، تو کم از کم ہمیں معلوم کہ یہ شوق کب اور کن دنوں میں ‘‘قومی ضرورت’’ کا درجہ اختیار کر گیا ۔ ہمارا بلکہ ہر انقلابی اور اسلامی معاشرہ چند بیمار ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے لئے اپنے اخلاقی ڈھانچے کو تہ و بالا نہیں ہونے دیتا ۔ اسلامی انقلاب کے مراحل میں اور اس کی کامیابی کے بعد اور سوسائٹی کی تعمیر نو میں عورتوں کو میدان عمل میں آنا چاہئے بلکہ ضرور آئیں اور اپنا حصہ ادا کریں کیوں کہ وہ پوری انسانی آبادی کانصف اور جوہر انسانیت کابہتر نصف ہیں، لیکن ایک بات ملحوظ رہے کہ ان کا تعارف محض گیسو و کاکل سےنہیں بلکہ وہ اپنا تعارف علم و فضل اور اہلیت و عمل سے کرائیں ۔ صاحب زادہ خورشید احمد گیلانی ۔
اگست، 2013 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/islamic-revolution……..and-women’s-role-/d/13111